تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-12-2014

اﷲ ہُو‘ اﷲ ہُو

کسی بزرگ کے مزار کے گنبد کے ارد گرد کبوتروں کا ایک پورا خاندان اپنی زندگی کے شب و روز گذار رہا تھا۔ دن کے وقت مزار پرآنے والوں کی جانب سے پھینکی جانے والی خوراک سے اپنا پیٹ بھرتے اور رات کو اس کی چھت اور اوپر بنے ہوئے کونے کھدروں میں جا کر سو رہتے۔ ایک دن اس مزار کے سجا دہ نشین اور انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ چونکہ حضرت صاحب کا سالانہ عرس قریب آتا جا رہا ہے اور مزار کے گنبد کا رنگ و روغن پرانا ہو نے کی وجہ سے مدھم سا ہو گیاہے‘ اس لئے مزار مبارک کی مرمت کے ساتھ ساتھ اس کی مکمل صفائی ستھرائی بھی ضروری ہو چکی ہے۔ کبوتروں نے جب دیکھا کہ مزار کے احاطے کے اندر رنگ و روغن کا سامان پہنچنا شروع ہو گیا ہے اور اب مزدوراپنا کام شروع کرنے والے ہیں اور ان کا رہنا ممکن نہیں رہے گا تو انہوں نے سوچاکہ یہاں سے کسی دوسری محفوظ جگہ پر چلے جانا ہی بہتر ہو گا؛ چنانچہ وہاں سے وہ شہر کے دوسرے کونے میں واقع ایک بڑی مسجد کی طرف چلے گئے اور اس کے میناروں اور گنبد پر اپنا بسیرا کر لیا‘ جہاں پہلے سے ہی کچھ کبوتروں کا ڈیرہ تھا لیکن انہوںنے ان نئے آنے والوں کی آمد پر کسی بھی قسم کا کوئی تعرض نہ کیا بلکہ سب کبوتر وہاںآرام اور سکون سے رہنے لگے لیکن پھر یہ ہوا کہ ماہ رمضان قریب آن پہنچا تو مسجد کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ مسجد کا رنگ و روغن چونکہ پرانا ہونے کے ساتھ ساتھ کافی جگہوں سے اتر بھی چکا ہے‘ اس لیے اسے درست کر نے کے علا وہ جہاں جہاں تھوڑی بہت مرمت کی ضرورت ہے وہ بھی ساتھ ہی مکمل کر لی جائے تاکہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے پہلے مسجد کا گنبد اور مینار صاف ستھرے ہو جائیں۔ 
جب مسجد کے رنگ و روغن کی ابتدا شروع ہوئی تو وہاں بسیرا کئے ہوئے تمام کبوتروں کو ایک دفعہ پھر نقل مکانی کرنا پڑ گئی جس پر وہ وہاں سے اڑ کر شہر کی سب سے بڑی اور قدیم سڑک کے کنارے بنے ہوئے ایک مشہور اور بہت بڑے چرچ میں چلے گئے۔ وہاں بھی پہلے سے ہی کافی بڑی تعداد میںکبوتر اپنا ٹھکانہ کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان کی آمد پر احتجاج کرنے کی بجائے خودکوسمیٹتے ہوئے ان سب کو اپنے برا بر میں جگہ دینی شروع کر دی اور سب ہنسی خوشی وہاں رہنے لگے‘ لیکن پھر ایک اتوار کی صبح وہاں خوفناک بم دھماکہ ہوا جس سے وہاں موجود انسانی جسم لوتھڑوں کی صورت اڑ کر ان کبوتروں کو بھی لگے اور بہت سے مارے بھی گئے۔ جو بچ گئے انہوں نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی؛ چنانچہ کبوتروں کو ایک بار پھر وہاں سے کوچ کرنا پڑ ا جس پر وہ سب اس بزرگ کے مزارکی طرف پرواز کر گئے جس کی صفائی ستھرائی اور مر مت کا کام مکمل ہو نے کے بعدعرس کی تقریبات کو منعقد ہوئے بھی دو ماہ گذرچکے گئے تھے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے پہلے ہی کی طرح ڈیرے ڈال لئے اور ساتھ ہی سب نے خوش دلی سے مزار پر ملنے والے لنگر اور دانے دنکے سے جی بھر کر اپنا پیٹ بھرنا شروع کر دیالیکن ایک دن وہاں بھی خوفناک بم دھماکہ ہوا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ درو دیوار لرز کر رہ گئے جس سے کچھ کبوتر اور ان کے کئی بچے بھی جان سے گئے اور کئی انسانی جسموں کے لوتھڑے اڑ اڑ کر چاروں طرف بکھر گئے اور ہر طرف خون بہنے لگا۔
شہر کے وسط میں واقع اس نیک اور اﷲ کے پیارے بزرگ کے مزار مبارک پر اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے انہیں ابھی چند روز ہی ہوئے تھے کہ ایک دن وہاں بھی اس قدر زور کا دھماکہ ہوا۔ مزارمبارک کے اندر مختلف جگہوں پر بیٹھے ہوئے سب کبوتر دھماکے کی خوفناک آواز سے ڈر کر ادھر ادھر ُاڑ گئے۔ اس خود کش دھماکے سے ہونے والی قتل و غارت کے بعد ایمبولینس کے ہوٹرز کی آوازوں اور مرنے اور زخمی ہونے والوں کے ورثا کے رونے پیٹنے نے ماحول کو بہت ہی افسردہ کر دیا تھا جس پر ان سب کبوتروں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ ہمیں اب کسی اور جگہ چلے جانا چاہئے۔ وہ سب شہر کے دوسرے کونے میں واقع اسی مسجد میں جا پہنچے جسے رمضان المبارک کی آمد کا استقبال کرنے کیلئے رنگ و روغن سے سنوارا جا رہا تھا۔ وہاں پہلے سے ہی کچھ کبوتر کہیں دوسری جگہ سے آ کر رہ رہے تھے لیکن اتنی بڑی تعداد کو وہاں اترتے دیکھ کر کسی نے بھی ناک بھوں نہ چڑھائی بلکہ خوش دلی سے ان سب کا استقبال بھی کیا۔
ابھی انہیں اس مسجد میں اترے پندرہ بیس روزہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک روز فجر کی نماز کے وقت مسجد میں زور زور سے فائرنگ کی آوازیں گونجنا شروع ہو گئیں جس پروہاں بسیرا کئے ہوئے کبوتر ڈر کے مارے اڑ کر ادھر ادھر نکل گئے جبکہ مسجد کے صحن میں ہر طرف چیخ پکار مچی ہوئی تھی اورمسجد کے اندر نمازیوںکی خون آلود لاشیں بکھری ہوئی تھیں جبکہ درجنوں کی تعداد میں لوگ زخمی حالت میں پڑے تڑپ رہے تھے۔ بعد میں اس فائرنگ کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے اعترافی بیان سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے ایک مسلک نے دوسرے مسلک کی مسجد پر فائرنگ کر کے 14 نمازیوں کو شہید اور22 کو زخمی کر دیا ہے۔ مسجد کے اونچے مینار کے اندر چھپ کر بیٹھے ہوئے کبوتر کے ایک بچے نے جو ابھی دس دن کا ہی تھا‘ اپنی ماں سے پوچھا! اماںیہ سب کیا ہے؟ یہ کون ہیں جو بم دھماکے کرتے ہیں؟ مسجدوں میں نماز کیلئے اور چرچوں میں عبادت 
کیلئے آنے والوں اور اﷲ کے نیک بندوں کے مزاروں پر خودکش حملے کرتے اور باہر بھی آپس میں لڑتے ہوئے ایک دوسرے کو مارتے رہتے ہیں؟ یہ کون ہیں جو ہم پرندوں کو بھی امن اور چین سے رہنے نہیں دے رہے؟ ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟ 
کبوتر کی ماں نے بچے کو اپنے پروں کے اندر سمیٹتے ہوئے کہا‘ بیٹا یہ مسلمان ہیں۔ بچے نے پوچھا اماں ہم کیا ہیں؟ ماں بولی‘ بیٹا ہم کبوتر ہیں۔ جب ہم مزار کی چھت پر تھے تو اس وقت بھی ہم کبوتر تھے اور جب مسجد کے گنبد پر گئے تو وہاں بھی ہم کبوتر ہی تھے اور جب ہم ادھر سے اڑ کر چرچ پر جا بیٹھے تو اس وقت بھی ہم کبوتر ہی تھے لیکن یہ لوگ جو مزار پر آئے ہوئے تھے وہ خود کو ایک مسلک کا کہتے ہیں اور وہ جو جامع مسجد میں تھے وہ خود کو دوسرے مسلک کا کہتے ہیں۔ماں نے اپنے بچے کو بڑے دکھ سے بتاتے ہوئے کہا بیٹا‘ اپنی پوری زندگی میں‘ میں نے ان کو ہمیشہ کبھی مذہب کیلئے لڑتے دیکھا ہے‘ کبھی مذہب کی حمایت میں لمبے لمبے جلوس نکالتے دیکھا ہے تو کبھی مذہب ہی کے نام پر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے دیکھا ہے اور مذہب ہی کے نام پر انہیں ایک دوسرے کی مارا ماری کرتے بھی دیکھا ہے! لیکن بڑے ہی دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں نے ان میں سے کسی کو بھی مذہب کے مطا بق زندگی گذارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کبوتر کا ننھا سا بچہ اپنی ماں کی گود میں مزید سمٹتے ہوئے بولا‘ اماں ہمارا مذہب کیا ہے؟۔ بیٹا ہم صرف کبوتر ہیں جو کسی کو نقصان پہنچائے بغیر ہر دم ا ﷲہُو اﷲہُو کرتے رہتے ہیں...! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved