تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     15-12-2014

ایک نوحہ‘ ایک تجویز

سٹیل ٹاؤن ،کراچی کی خوبصورت ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔ ایئرپورٹ سے ٹھٹھہ کی طرف سپر ہائی وے پربیس کلومیٹر دور واقع یہ کالونی 1970ء کی دہائی میں ان روسی انجینئرزکے لیے بنائی گئی جویہاں سٹیل مل لگانے کے لیے آئے تھے۔ جب تک روسی یہاں رہے، یہ شہر سے دور ایک لق و دق بیابان میںعارضی بستی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ تفریح کے نام پر یہاں سے کچھ دور ساحلِ سمندر کا ایک حصہ ان انجینئرزکے لیے مختص تھا جہاں جاکر یہ پانی سے اٹھکیلیاں کرتے ۔ ان کی آمدورفت کی وجہ سے ہی پورٹ قاسم کے قریب کا یہ ساحلی حصہ آج بھی رشین بیچ کہلا تا ہے۔ جب یہ لوگ اپنا کام ختم کرکے چلے گئے تو یہاں کے مکانات ان پاکستانیوں کے حوالے کردیے گئے جن کے ذمے روسیوں کی لگائی ہوئی سٹیل مل کو چلانا تھا۔ پاکستانیوں نے اپنی افتاد طبع کے مطابق اس عارضی بستی کو افسرانہ شان کے حامل ایک خوبصورت رہائشی علاقے میں بدل دیا۔ یہاںکی کشادہ سڑکیں، قطار اندر قطار درخت اور سبزے کی اوٹ سے جھانکتے خوبصورت گھر دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ سب ایک ایسے شہر کا حصہ ہے جہاں پیڑوں کی بجائے کنکریٹ کی بے ہنگم عمارتیں اگتی چلی جارہی ہیں۔اس آبادی کے ایک طرف وہ خوبصورت عمارت ہے جسے سٹیل گیسٹ ہاؤس کہا جاتا ہے۔ کہنے کو یہ گیسٹ ہاؤس ہے لیکن اس کے اندازِ تعمیر سے لے کر یہاں موجود سہولیات تک کچھ بھی پاکستان کے کسی بھی فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہیں۔ کمرے وسیع و عریض، گراؤنڈ انگریزی کے شاعرِ فطرت ورڈز ورتھ کے تخیل جتنے ہرے
بھرے اور ماحول میں اتنی سکون بخش خاموشی کہ ایک بار جو یہاں آئے ،جانے کا نام نہ لے۔ سٹیل ٹاؤن کے ایک حصے میں آفیسرز میس کی عمارت بھی ہے۔یہ میس پاکستان کے کسی اوسط درجے کے کلب کی تمام سہولیات سے لیس اور سٹیل ٹاؤن کی سماجی سرگرمیوں کا دل ہے۔ ہر شام یہاں کوئی نہ کوئی ایسی تقریب برپا ہوتی ہے جس میں لوگ بن سنور کر شریک ہوتے ہیں اور پاکستان اسٹیل ملزکودعائیں دیتے ہیں جو بسترِ مرگ پر آ گئی ہے لیکن ان افسروں کے دم خم کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اس آبادی کی رونق اور پاکستان اسٹیل ملزکی بربادی میں ایک خاص تعلق ہے اور وہ یہ کہ جیسے جیسے یہاں کی رونق بڑھی ویسے ویسے اسٹیل مل بربادی کی ڈھلوان پر لڑھکتی چلی گئی۔ یہاں وہ تمام لوگ گل چھڑے اڑاتے ملیں گے جو اس قومی ادارے کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ یہیں وہ لوگ رہتے ہیں جن کے دستخطوں سے اسٹیل مل کا نیا مال کباڑ کے بھاؤ بک جاتا ہے اور کباڑ نئے مال کے نرخ پر خرید لیا جاتا ہے۔ اس آبادی میں وہ انجینئربھی عیش کررہے ہیں جن کی نا اہلی سے فولاد بنانے والی بھٹیاں ٹھنڈی پڑگئیں اورقیمتی مشینری برباد ہوگئی۔ یہاں وہ عفریت بھی آباد ہیں جن کی سازش سے ملک میں ایک ایسا ماحول بنا کہ 2006ء میں اسٹیل مل کی نجکاری یہ کہہ کر روک دی گئی کہ صرف چھبیس ارب روپے میں یہ 'قومی اثاثہ ‘ نہیں بیچا جاسکتا۔ نام نہاد قومی امنگوں کی ترجمانی کرنے والے اس فیصلے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت سے اب تک یہ' قومی اثاثہ‘ قوم کو تین سو ارب روپے کا نقصان پہنچا چکا ہے۔ قومی اثاثے کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اس غریب قوم نے یکے بعد دیگر ے اپنی خون پسینے کی کمائی میں سے بیل آؤٹ پیکیج کے نام پر اس ادارے کو پیسے فراہم کیے لیکن یہاں کے افسروں نے اس پیسے سے مل چلانے کی بجائے اسے ماہرانہ انداز میں ہڑپ کرنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ حال ہی میں مسلم لیگ ن کی نئی حکومت کی طرف سے ساڑھے اٹھارہ ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکیج اس شرط پر اسٹیل مل کو دیا گیا تھا کہ یہ جنوری 2015 ء تک اپنی پیدا وار77فیصد تک لے جائے گی۔ اس قومی اثاثے میں کام کرنے والوں کی واردات ملاحظہ ہو کہ جیسے ہی جنوری قریب آنے لگا، مل کی اہم ترین مشینری یعنی بلاسٹ فرنس اور کنورٹر کام چھوڑ گئے۔ ایک مہینے کی شبانہ روزمحنت کی ڈرامے بازی کے بعد مل کی مشینری چلی تو بس اتنی کہ پیداوار پندرہ فیصد سے زیادہ نہ ہونے پائے۔ مشینری کی خرابی کا تو ظاہر ہے کوئی ذمہ دار نہیں ہوتا اس لیے انتظامیہ نے اپنی جواب طلبی کا جواز ہی ختم کردیا اور ایک بار پھر منہ پھاڑکر مزید آٹھ ارب روپے مانگنے کے لیے کاغذات تیار کررہی ہے۔
اسٹیل مل بربادی کی اس انتہا کو ایک دن میں نہیں پہنچی ، اس ادارے کو یہاں تک آتے کئی سال لگے ہیں اور اس میں اہم ترین کردار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ ادارہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنا اور جب پیپلزپارٹی1988ء میں دوبارہ اقتدار میں آئی تو اس کی بربادی کا آغاز ہوا۔ کراچی کے صحافیوں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ جب یہاں سے من پسند لوگوں کو سکریپ کی پرچیاں ملتی تھیں اور وہ سکریپ کی بجائے نیا مال اٹھا کر لے جاتے تھے۔ پھر یہ کاروبار یوں ہونے لگا کہ جیالوں کو ملنے والی پرچیاں ہی مارکیٹ میں نقد فروخت ہونے لگیں۔ لوہے کے تاجر یہ پرچیاں اونے پونے خرید کر اسٹیل مل سے مال لے آتے اور مزے کرتے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہی جیالوں کو بغیرکسی قابلیت کے یہاں نوکریاں دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا، پھر نوکریوں کی اس بندربانٹ میں اس کے سیاسی اتحادیوں نے بھی اپنا حصہ بقدرِ جثّہ وصول کیا اوریوں اس ادارے کے وسائل پر اتنا بوجھ ڈال دیا کہ بغیر حکومتی مدد کے اس کا چلنا ہی محال ہوگیا۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اسٹیل مل دوبارہ کبھی منافع بخش
ادارہ بن سکے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ریاستی کنٹرول اور موجودہ انتظامیہ کے ساتھ ا س کا منافع بخش ہونا تو دورکی بات اس کا چلنا بھی محال ہے۔ اس کو چلانے کا ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسے نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے لیکن اس میں سیاسی خطرات اتنے زیادہ ہیں کہ آئندہ پانچ چھ سال تک کوئی سیاسی حکومت یہ رسک نہیں لے سکتی۔ ایک دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پہلے مرحلے میں حکومت اس ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اپنی نمائندگی کے حقوق سرکاری افسروں کی بجائے نجی شعبے کے تجربہ کار لوگوں کودے دے۔ ان لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہی مل کی انتظامیہ منتخب کریں اور اس کو جزا و سزابھی دے سکیں۔ دوسرے مرحلے میںاس کو سٹاک ایکسچینج پر لسٹ کرا کے اس کے کچھ حصص دوسرے حکومتی اداروں مثلاً نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ، ای او بی آئی وغیرہ کے ذریعے خرید لیے جائیں۔ حکومتی ادارے بھی غیرمعمولی مقدار میں خریداری نہیں کریں گے بلکہ اس لیے خریدیں گے کہ ابتدا میں یہ حصص محض ردّی کاغذ کے ٹکڑے ہوں گے جنہیں کوئی بھی شخص اپنے ہوش و حواس میں رہ کر نہیں خرید سکے گا۔ اس سے یہ ہوگا کہ 'قومی اثاثے ‘ کی تجارتی اوقات روزانہ کی بنیاد پرعوام کے سامنے رہے گی اور نجکاری کے لیے قیمت کا تعین بھی شفاف انداز میں ہوسکے گا۔ تیسرے مرحلے میں اس کی جزوی نجکاری کرکے انتظامی حقوق مکمل طور پر نجی شعبے کو دے دیے جائیں ، اس طرح یہ مل قومی اثاثہ بھی بنے رہے گی اور منافع بخش انداز میں چلتی بھی رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved