تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     16-12-2014

آخری جیت ہماری ہو گی

لاہور میں 1977ء کے بعد کسی سیاسی جماعت کی اپیل پر ایسی مکمل‘موثر اور تاریخی ہڑتال کبھی ہوئی نہ دیکھی۔ ہر بڑی سڑک ویران‘ہر نمایاں مارکیٹ سنسان۔ شریف برادران 1985ء سے لاہور کے بے تاج بادشاہ ہیں مگر میاں نواز شریف محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح مقبول اپوزیشن لیڈر کے طور پر شاہدرہ سے ٹھوکر اور بھٹہ چوک سے سگیاں پل تک پورا شہر کبھی بند نہ کر اسکے۔حکومتی ترجمان مگر اس موقع پر مژگان کو کھول کر سونامی کا نظارہ کر نے کی بجائے حلوہ پوڑی اور سری پائے کی بو سونگھتے رہے ۔اپنے ‘اپنے ذوق کی بات ہے۔
تلخ نوائی معاف مگر موجودہ حالات اور 1971ء اور 1977ء کے حالات میں گہری مماثلث پائی جاتی ہے۔1977ء میں احتجاج انتخابی دھاندلی اور عوامی مینڈیٹ چرانے کے خلاف تھا اور 1971ء میں مشرقی پاکستان کے محب وطن بنگالیوں کی طرف سے پہیہ جام اور شٹر ڈائون فوجی حکمران کی ضد‘ہٹ دھرمی اور عوامی جذبات و احساسات کو درخور اعتنا نہ سمجھنے کی حکومتی پالیسی کا شاخسانہ تھا۔دونوں مواقع پر حکمران عوام کی بات سننے پر تیار تھے نہ ملک میں جگہ جگہ احتجاج‘ مظاہروں اور ہڑتالوں کا مشاہدہ کرنے پر آمادہ۔ آج کی طرح انہیں مظاہرین شرپسند نظر آتے تھے اور گلیاں ‘سڑکیں ‘بازار پررونق و پُرہجوم۔ ان کے الّو یہی بول رہے تھے۔
لیفٹیننٹ کرنل(ر) شریف الحق دالیم بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے ہیرو اور‘ پاکستانی فوج سے بھاگ کر باغیوں سے ملنے والے اولیں بنگالی فوجی ہیں۔اپنی کتاب ''پاکستان سے بنگلہ دیش ۔ان کہی جدوجہد‘‘ میں لکھتے ہیں''مشرقی پاکستان کے عوام پاکستان توڑنے کے حق میں نہ تھے، ان کا مطالبہ حقیقی خودمختاری کا تھا‘ انہوں نے صرف معاشی تفاوت کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور بہتر روزگار کی خاطر غیر منصفانہ استحصال کا خاتمہ چاہتے تھے، لیکن عام لوگوں کی رائے اس وقت کوئی وزن نہیں رکھتی تھی‘‘
مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کے بارے میں مغربی پاکستان کے وڈیروں ‘ جاگیرداروں ‘ سرمایہ داروں اور حکمران اشرافیہ کی سوچ کیا تھی؟ ایوب خان کے نفس ناطقہ اور معروف بیورو کریٹ الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ''مغربی پاکستان کے جو افسر ایوب خان کے قریب تھے ان میں سے کسی کو مشرقی پاکستان میں ملازمت کرنے کا موقع نہیں ملا تھا‘ انہیں بنگالی دانشوروں اور سیاستدانوں کو سمجھنے کی فرصت نہ تھی۔ نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کا تو یہ عالم تھا کہ وہ کسی بنگالی سے بات کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ایک مرتبہ وہ ایک کانفرنس کے سلسلے میں ڈھاکہ تشریف لائے‘ میں بھی کانفرنس میں شرکت کے لیے وہاں تھا۔شام کے وقت نواب صاحب کا ٹیلی فون آیا''الطاف صابا ! رات روٹی میرے نال کھالے‘ گھابر ناں ‘ میں سبزیاں ‘لون‘ مرچ تے پانی وی لاہوروں لے کے آیا واں‘‘ (رات کا کھانا میرے ساتھ کھا لو‘گھبرائو مت ‘میں سبزیاں ‘نمک‘ مرچ اور پانی بھی لاہور سے لے کر آیا ہوں)
جب ایوب خان کا جانشین اور پاکستان کا فوجی آمر یحییٰ خان مشرقی پاکستان کے عوام کو اقتدار منتقل نہ کرنے اور شریف الحق دالیم کے بقول ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے پر قومی اسمبلی کا اجلاس (3مارچ1971ء ) ملتوی کرنے پر تلا ہوا تھا تو (لیفٹیننٹ جنرل ) صاحبزادہ یعقوب علی خان نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ اقدام انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کی زد قومی سلامتی پر بھی پڑے۔ جام ارغوانی کا شوق فرماتے ہوئے جنرل یحییٰ خان نے کہا کہ باہمی سیاسی مخاصمت کے اس ماحول میں یہ اجلاس بلانا مثبت ہو گا ۔
جنرل (ر) کے ایم عارف اپنی کتاب Working With ZIAمیں لکھتے ہیں''یعقوب خاں نے کہا مشرقی پاکستان وفاق سے علیحدگی کی طرف جا رہا ہے سول انتظامیہ اور مقامی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد مشکوک ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کی نفری اپنے جذباتی تنائو کے تحت اس اقدام کو قبول نہ کرے۔صاحبزادہ یعقوب نے مقامی شورشوں میں بھارت کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا اور کہا کہ بحران کے سیاسی حل کی ضرورت ہے‘‘
1971ء میں ایک فوجی آمر ملک کا حکمران تھا‘ سیاسی بحران کو اس نے مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی نہ مشرقی و مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت کا کوئی مشورہ قبول کیا حتیٰ کہ امریکہ اور چین نے انہیں معقول مشورے دیئے۔ بھارت کی مداخلت کے اندیشہ سے آگاہ کیا اور عوامی لیگ کی قیادت سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملہ فہمی کی تلقین کی مگر یحییٰ خانی ٹولہ اقتدار کے نشے میں دھت'' میں نہ مانوں‘‘ کی روش پر قائم رہا اور بالآخر اس کی بہر صورت اقتدار پر برقرار رہنے کی ضد اورہٹ دھرمی تقسیم پاکستان پر منتج ہوئی ۔ 
مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کئی دیگر عوامل بھی کارفرما تھے ‘ ماضی کے سول و فوجی حکمرانوں کی پہاڑ جیسی غلطیوں‘ مشرقی پاکستان میں تعینات مغربی پاکستانی افسران کی رعونت اور بھارت کی فوجی مداخلت نے علیحدگی کی راہ ہموار کی۔ دالیم شریف الحق‘شرمیلا بوس‘ ڈاکٹر چوہدری پروفیسر سجاد حسین اور کئی دیگر بنگالی محققین و مصنفین نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد گوریلوں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جن کی مکتی باہنی کے نام سے کلکتہ اور دیگر بھارتی شہروں میں تربیت ہوئی اور جنہوں نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر پاک فوج‘ پولیس اور انتظامیہ کی رٹ ختم کی۔
1977ء میں معاملہ انتخابی دھاندلی کا تھا اور دو سیاسی قوتوں میں مذاکرات نے طوالت اختیار کی‘ احتجاجی تحریک پھیلتی چلی گئی‘ کئی دوسرے عوامل شامل ہوتے رہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش نے فوجی مداخلت کی راہ ہموار کر دی ؎
آپس کی کشا کش سے ہی بہت نازک تھا تعلق الفت کا
وہ ہم سے کھچے‘ہم ان سے کھچے‘ بس بیچ سے ناتہ ٹوٹ گیا
صورتحال اس وقت بھی مختلف نہیں۔ہڑتالوں نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پولیس اور انتظامی مشینری آہستہ آہستہ لاتعلق ہونے لگی ہے‘ وہ دو متحارب سیاسی بھینسوں کی لڑائی میں اپنا نقصان کرانا نہیں چاہتی۔ احتجاج اور ہڑتالوں سے صرف سیاسی محاذ آرائی جنم نہیں لے رہی، گھر گھر اختلاف اور تنازع برپا ہے ،تعصبات اور نفرت کے جذبات قومی اتحاد و یکجہتی کو پارہ پار کر رہے ہیں مگر حکمران ٹولہ اب بھی سری پائے‘ حلوہ پوڑی کی خوشبو سونگھ کر احتجاجی تحریک کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ بند لاہور کا نظارہ کرنے کے لیے سونگھنے کی نہیں، دیکھنے کی قوت درکار ہے یا پھر ان نعروں کو کھلے کانوں سے سننے کا حوصلہ جو کئی ماہ سے ملک کے ہر شہر و بازار میں گونج رہے ہیں۔
لاہور 1985ء سے شریف برادران کا سیاسی قلعہ چلا آ رہا ہے مگر 15دسمبر کو اس میں پڑنے والی دراڑوں کا مشاہدہ میڈیا کے ذریعے پورے ملک نے کیا۔ مسلم لیگ (ن) کو تاجروں پر ناز تھا مگر وہ بھی کھل کر اس کی مدد کو نہ آ سکے ۔انہیں کاروباربھی عزیز اور اپنے بچوں کا مستقبل بھی۔چنانچہ بیشتر کا اپنا کاروبار بند رہا اور وہ خاموش تماشائی بن گئے ۔جو چند افراد احتجاجی کارکنوں کو للکارنے کے لیے سڑکوں پر نکلے وہ بے چارے زیادہ دیر ٹھہر نہ سکے اور میدان پی ٹی آئی کے ہاتھ رہا۔
معروف شاعر اور ڈرامہ عینک والا جن کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر حفیظ طاہر نے موجودہ حالات پر منظوم تبصرہ کیا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں ؎
ہم وہ ہیں جو
آب حیات کی تلاش میں نکلے اور زہر پی کر لوٹے
ہم وہ ہیں جو لہو سے گلاب اُگا تے رہے اور انت میں صحرا کی ریت پھانکی
ہماری وہ نسل بے نشاں ہے جو بے ستوں پل پر کھڑی رہی
جس کے عقب میں برف رہی اور سامنے جلتا مکاں
ہم جانتے ہیں کہ اس بار بھی شاید
فرعونیت اور نمرودیت کے استعارے ہمیں ہرا دیں
اورہو سکتا ہے کہ فسطائیت اور یزیدیت کا ایکا
ایک بار پھر ہمیں دریائے فرات کے کنارے پیاسا مار دے
مگر اس بار یہ لوحِ مقدر پہ نہیں لکھا ہے کہ 
ہم ان خود ساختہ بادشاہوں کی غلامی کریں
اور ہمارے بچے ان کے شہزادوں کی
بصورت دیگر ایک دوسرے کے دشمن جاں‘اکٹھے ہیں
کہ ہم خاک نشینوں کو ایک بار پھر ہرا دیں
جنہوں نے ان کی چمکتی شاہراہوںکو گدلا کر دیا ہے
وہ جھاگ اُڑاتے ہوئے ہنستے ہیں ،ہماری جرأت رندانہ پر
مگر اس بار آخری ہنسی ہم ہنسیں گے
خدا ئے لم یزل کی قسم
آخری جیت ہماری ہو گی
ہڑتال کامیاب رہی یا ناکام‘ شہر بند تھا یا کھلا،پی ٹی آئی والوں کو چھوڑیں ،صرف رانا ثناء اللہ‘زعیم حسین قادری اور خواجہ سلمان رفیق کی سنیں۔رانا صاحب اور قادری صاحب کا دعویٰ ہے کہ پورا شہر کھلا رہا اور لاہور والوں نے تحریک انصاف کی کال مسترد کر دی۔خواجہ سلمان رفیق کہتے ہیں کہ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے ایمبولینسز پھنسی رہیں اور تین افراد جاں بحق ہوئے ؎ 
کس کا یقین کیجئے ‘ کس کا یقیں نہ کیجئے 
لائے ہیں بزم ناز سے‘ یار خبر الگ الگ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved