ڈاکٹر شہزاد نیّر کا شمار ہمارے عمدہ اور سینئرشعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا اصل میدان تو نظم ہے لیکن غزل سے ان کا خصوصی سروکار ہے۔ ان کی ایک نظم اور چند غزلیہ اشعار پیش خدمت ہیں۔
ہدایت کار
نہیں یہ زوایہ اچھا نہیں
آئو ادھر سے روشنی ڈالو
وہی منظر اجاگر ہو جو میں نے سوچ رکھا ہے
اٹھائو کیمرہ آگے بڑھو... دیکھو
فقط اتنا دکھائو جس قدر میں چاہتا ہوں
کیا؟ ارے لکھا ہوا ایسے نہیں پڑھتے
اداکاری تو ایسی ہے
کوئی بھی دیکھنے والا نہ یہ سمجھے
کہ جو کرتے ہو وہ پہلے سے لکھا جاچکا ہے
دیکھ لو، جینے کی نوٹنکی تو مرنے سے بھی مشکل ہے
ذرا مرکر دکھائو... کٹ !
یہ مرنا ہے! ارے اس میں ذرا سی جان توڈالو!
گزشتہ بھول جائو سب
وہی دیکھو جو میں آگے دکھاتا ہوں
مری ہر سین پر نظریں ہیں
کب کتنا چھپانا ہے، کہاں کتنا دکھانا ہے
کہانی کو کدھر سے موڑ دینا ہے
پرانی داستاں اندر یہ منظر کس جگہ پر جوڑ دینا ہے
یہ سب کچھ جانتا ہوں میں
تمہارا کیا، ذرا سے بیچ کے کردار ہو تم سب
تو بس اتنی غرض رکھو
کہاں آغاز تھا، انجام کب ہوگا
تمہیں پوری کہانی سے کوئی مطلب؟
تمہیں تو جلد ہی میں مار ڈالوں گا
کہانی کار بھی میں ہوں
ہدایت کار بھی میں ہوں
O
جیسے دیکھا ہے دکھایا بھی نہیں جاسکتا
خواب کا حال سنایا بھی نہیں جاسکتا
پھینکی جاتی بھی نہیں راہ میں یادیں اس کی
اور یہ بوجھ اٹھایا بھی نہیں جا سکتا
ہوتے ہوتے وہ مجھے عشق نگر لے ہی گیا
میں نے سو بار بتایا بھی‘ نہیں جا سکتا
عکس کو آنکھ سے تھاما ہے سرِ آب رواں
چاند پانی میں بہایا بھی نہیں جا سکتا
دل میں مسمار کریں اہل محبت‘ نیّرؔ
پورا ماحول تو ڈھایا بھی نہیں جا سکتا
O
آپ دلجوئی کی زحمت نہ اٹھائیں‘ جائیں
رو کے بیٹھا ہوں نہ اب اور رلائیں ‘ جائیں
حجرۂ چشم تو اوروں کے لیے بند کیا
آپ تو مالک و مختار ہیں آئیں‘ جائیں
اور بھی آئے تھے درمان محبت لے کر
آپ بھی آئیں‘ کوئی زخم لگائیں‘ جائیں
زندگی تو نے دکاں کھول کے لکھ رکھا ہے
اپنی مرضی کا کوئی رنج اٹھائیں‘ جائیں
آپ پھر لے کے چلے آئے ہیں دین و دنیا
اب مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے‘ جائیں‘ جائیں
ہر طرف خون کے چھینٹے ہیں ہمارے گھر میں
کون سا ورد کرائیں کہ بلائیں جائیں
مجھ سے کیا ملنا کہ میں خود سے جدا بیٹھا ہوں
آپ آجائیں‘ مجھے مجھ سے ملائیں‘ جائیں
آمدورفت کو اک دنیا پڑی ہے‘ نیّرؔ
دل کی بستی کو نہ بازار بنائیں‘ جائیں
آج کا مقطع
بکھیر دی ہیں‘ ظفرؔ‘ کرچیاں تمازت کی
فضا میں توڑ کے آئینہ آفتاب ایسا