جس نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا‘ وہ سرکاری اہلکار ہندوستان کا پہلا ہیرو تھا۔ نہ گاندھی جی جیل جاتے۔ نہ تحریک آزادی زور پکڑتی۔ جس پاکستانی اہلکار نے شیخ مجیب الرحمن کو اگرتلہ سازش کیس میں پکڑ کے جیل بھجوایا‘ اس نے بنگلہ دیش کی آزادی کی بنیاد رکھ دی۔ جس پاکستانی اہلکار نے بھٹو صاحب کو گرفتار کروایا‘ اس نے پاکستان میں ان کی حکمرانی کا راستہ ہموار کر دیا۔ نہ بھٹو صاحب جیل جاتے۔ نہ ایوب حکومت ‘ اقتدار سے باہر ہوتی۔ آج کی خبر یہ ہے کہ نوازحکومت بھی عمران خان کو جیل میںڈالنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ یہ تو میں نہیں جانتا کہ ماضی کے مذکورہ ہیروز کے نام تاریخ میں آئے ہیں یا نہیں؟ لیکن پاکستان کے جس ہیرو نے حکومت کو یہ تجویز دی ہے‘ اس کا نام تاریخ میں ضرور آنا چاہیے کہ جس عمران خان نے متعدد بار اپنے قریب آتے ہوئے اقتدار کو کسی نہ کسی وجہ سے دور کر دیا‘ گرفتاری کی تجویزدینے والے اہلکار نے انہیں دھکیل کر اقتدار میں لانے کی ترکیب حکومت کے گوش گزار کر دی۔ اگے تیرے بھاگ لچھئے۔یوں بھی عمران خان نے سیاست میں 18سال گزارنے کے بعد اب کہیں آ کر وہ حیثیت حاصل کی ہے کہ عوام انہیں اپنے ووٹوں سے اقتدار کی طرف لے جا سکتے تھے۔ ان کے پیروکاروں نے بھی انتخابی مہم کے نازک ترین موقع پر انہیں لفٹرسے گرا کر انتہائی فیصلہ کن لمحات میں ہسپتال کے بستر پر لٹا دیا اور تب تک لٹائے رکھا‘ جب تک دھاندلی کے سارے مراحل طے نہیں ہو گئے۔یہ اتفاقی حادثہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن سیاست میں سارے حادثے اتفاقی نہیں ہوتے۔ کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ ایسا حادثہ مینوفیکچر بھی کرایا جا سکتا ہے۔ جلسوں کے بلندوبالا سٹیج سب سے پہلے نوازشریف نے متعارف کرائے تھے۔ ان کا لوہے کا کاروبار اپنا تھا۔ لینٹروں اور سریے کی فراوانی تھی۔ لوہے کی ہر مطلوبہ شے‘ گھر کی فیکٹریوں میں تیار کر کے سٹیج بنایا جاتا اور اس پر چڑھنے کے لئے لفٹر لگوا لیا جاتا۔ دوچار جلسوں میں مجھے بھی لفٹر پر کھڑے ہو کرسٹیج تک پہنچنا پڑا۔
یہ لفٹر عجیب و غریب چیز ہوتی ہے۔ جتنا سفر اونچائی کی طرف کرتا ہے‘ اس سے چار گنا سفر چاروں اطراف میں کرتا ہے۔ جتنی رفتار سے یہ بلندی کی طرف جا رہا ہوتا ہے‘ اتنی ہی رفتار سے یہ چاروں طرف جھٹکے لگاتا ہوا اپنے سفر کی وسعتوں میں اضافہ بھی کرتا ہے۔ اس پر کھڑے رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ گرنے سے بچنے کی خاطر بھی سب‘ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتے ہیں۔ کندھے پکڑتے ہیں اور بعض کمزور دل لوگ جپھی بھی ڈال لیتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ لفٹر سے ایک آدمی نیچے نہیں گر سکتا۔ اگر قسمت اچھی ہوئی تو سارے ایک ساتھ بچتے ہیں اور برا وقت آ جائے‘ تو سب کے سب ایک ساتھ گرتے ہیں۔ مجھے پتہ نہیں کہ عمران خان نے پہلے کبھی یہ تجربہ کیا تھا یا نہیں؟ اگر وہ یہ تجربہ کر چکے ہوتے‘ توامکان تھا کہ وہ سانحے سے بچ جاتے۔ یقینا انہیں لفٹر میں چڑھنے کا پہلا تجربہ ہو رہا تھا۔ ہیروبہرحال ہیرو ہوتا ہے۔ وہ کسی کا سہارا لینا پسند نہیں کرتا اور کرتا ہے‘ تو اسے کوئی نہ کوئی شیخ رشید مل جاتا ہے۔لفٹر کے ذریعے سٹیج پر چڑھتے ہوئے‘ انہوں نے وہاں ضرور کسی شیخ رشید کا سہارا لیا ہو گا۔ ایسے سہاروں پر بھروسہ کر کے‘ زندگی یا کیریئر کو دائو پر لگانا بڑی بہادری کی بات ہے۔ بہادری کے بارے میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عقل کام کر جائے‘ توسمجھدار آدمی بہادری کے بغیر بھی اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں اور جو شخص بہادری پر تل جائے‘ وہ اس کے نتائج بھگتے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نوازشریف ہمارے ملک کے خوش قسمت ترین سیاستدان ہیں۔ انہوں نے زندگی میں ان گنت بہادریاں کیں۔ لیکن ہر بار ان کا دائو لگ گیا۔ عمران خان نے سیاست میں ایک ہی بہادری کی اور سیدھے ہسپتال جا پہنچے۔
یہ میں عرض کر چکا ہوں کہ سیاسی جلسوں کے لئے بلند سٹیج کے اوپر چڑھنے کو لفٹر لگایا جاتا تھا۔ لفٹر کے چاروں طرف کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی تھی‘ جس کا سہارا لیا جا سکے۔ جھٹکے ہلکے رہتے تو ایک دوسرے کو تھام کر یا دبوچ کر بچ بچائو کر لیا جاتا تھا، لیکن بڑے جھٹکے کی صورت میں آدمی اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتاکہ جس قدر ممکن ہو ہمسفروں کو ساتھ لے کر گر جائے۔ایسے لوگوں کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے ع
ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے
نوازشریف،لفٹر سے تو کبھی نہیں گرے‘ کرسی سے بہت بار گرے ہیں۔ ایک کرسی تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر کے چھوڑی۔ فرمایا''میں نے کرسی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ جو حکمران خود ہی کرسی چھوڑنے کا فیصلہ کر بیٹھے‘ اسے بچانے کی گستاخی کون کر سکتا ہے؟کسی نے گستاخی نہ کی اور نوازشریف نے کرسی چھوڑ دی اور نئے انتخابات میں ہار گئے۔ موصوف قسمت کے بہت دھنی ہیں۔اس کے بعد جو اگلے انتخابات ہوئے‘ ان میں پھر جیت گئے۔ ان کا نشانہ عام طور سے تین سال کا اقتدار ہوتا ہے۔ تین سال پورے ہونے سے پہلے پہلے ہی وہ کرسی پر کروٹیں بدلنے لگتے ہیں اور بے تکان سوچتے ہیں کہ اب اس سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ کئی بار ایسا ہوا کہ انہوں نے کرسی کو چھوڑنا چاہا مگر کرسی نے انہیں نہیں چھوڑا۔دوسری مرتبہ تیسرا سال شروع ہونے سے پہلے ہی‘ وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے اکتا گئے۔1999ء میں انہیں کرسی سے اکتاہٹ شروع ہو گئی تھی۔ انہوں نے بار بار اپنے چیف آف آرمی سٹاف پرویزمشرف کو چھیڑنا شروع کر دیا تھا۔ جنرل جنگ میں جیتا ہو‘ تو اس کا مزاج اچھا ہوتا ہے اور خدانخواستہ جنگ میں کامیابی نہ ملے‘ تو مزاج میں چڑچڑاہٹ آ جاتی ہے۔ اگر نوازشریف وقت کا انتظار کرتے تو چڑچڑاہٹ کی عمر طبعی ختم ہونے کا انتظار کر سکتے تھے۔ اس کے بعد جو چاہتے کر لیتے۔ مگر انہوں نے بھی کمال کیا ۔ جنرل مشرف شکست کے نتیجے میں آنے والی چڑچڑاہٹ کی لپیٹ میں تھے کہ وزیراعظم نے ان سے چھیڑچھاڑ شروع کر دی۔نتیجہ یہ ہوا کہ چڑچڑاہٹ میں کمی آنے کی بجائے تیزی آ گئی ۔ ان کے اپنے چنے ہوئے جنرل کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا۔ اس نے وزیراعظم پر قابو پا لیا۔ نوازشریف کی کرسی چھوڑنے کی دوسری کوشش بھی اچھی طرح نہیں بلکہ بری طرح کامیاب ہوئی۔ جنرل مشرف ہوشیار تھے۔ انہوں نے نوازشریف کو تھوڑا عرصہ جیل میں رکھنے کے بعد‘ امریکہ اور سعودی عرب کی منت سماجت کر کے‘ درخواست کی کہ وہ سابق وزیراعظم کو لے جائیں۔ ورنہ جب تک یہ جیل میں رہیں گے‘ میری کرسی ہلتی رہے گی۔ جنرل ہوشیار نکلے اور نوازشریف کو جیل سے نکالنے میں کامیاب ہو کر ‘ اطمینان سے9سال حکومت کر گئے۔
کافی سال اقتدار کے بغیر گزار کے‘ 2013ء میں نوازشریف کو تیسری بار وزیراعظم بننے کا موقع مل گیا۔یوں لگتا ہے کہ وہ کرسی کی بے وفائیوں کو بھول نہیں پا رہے۔ جب سے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر تیسری بار بیٹھے ہیں‘ اکتائے سے رہتے ہیں۔ چند ہی روز میں کرسی سے جان چھڑا کر کسی نہ کسی بیرونی دورے پر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور جتنے دن ممکن ہو‘ کرسی سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔ واپس آ کے پھر دل نہیں لگتا ع
کرسی پہ جب بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
اگر ان کے موجودہ عہد اقتدار کو دیکھا جائے‘ تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ کتنی مشکل سے کرسی کو برداشت کر رہے ہیں؟ جب موقع ملتا ہے‘ اسے چھوڑ کے بیرون ملک جا نکلتے ہیں۔ غالباً ان کی یہی بے چینی اور بے قراری دیکھ کر کسی اہلکار نے‘ ان کی زندگی میں سکون و قرار لانے کی ترکیب سوچی کہ عمران خان کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ یقینا یہ وہی اہلکار ہو گا‘ جس نے جنرل پرویزمشرف کو جیل میں ڈالنے کا مشورہ دیا۔ جنرل صاحب اچھے بھلے الیکشن ہار کے گمنامی کی زندگی میں جانا چاہتے تھے۔ انہیں زبردستی جیل میں دھکیل کر سیاسی حیثیت بنانے کا موقع فراہم کر دیا۔ ہو سکتا ہے‘ میاں صاحب نے دور کی سوچی ہو کہ یہ جو عمران خان تیزی سے لیڈر بنتا جا رہا ہے‘ اس کے مقابلے میں جلدی سے دوسرا لیڈر کھڑا کر دیا جائے۔ میاں صاحب جنرل مشرف کو تو لیڈر بنانے میں کامیاب ہو گئے، لیکن اپنی کرسی کو تحفظ دینے پر ذرا توجہ نہیں دی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ 2018ء تک عمران سے اپنی کرسی بچاتے ہیں یا براستہ جیل ان کے سفر کو مختصر کرتے ہیں؟ عمران خان اب تک کرسی اقتدار تک پہنچنے کی تمام رکاوٹیں دورکرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ صرف ایک کسر رہ گئی تھی کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت میں ابھی تک جیل نہیں گئے۔ وکیلوں کے ہجوم میں ان کی جیل اپنے کسی کام نہیں آئی تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کام آ گئی۔ اب ان کے خیرخواہوں کی بات مان لی گئی‘ تو جیل جانے کا سنہری موقع عمران خان کے ہاتھ آ جائے گا اور وہ بڑے لیڈروں کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔