تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     17-12-2014

نیا سال‘ نیا پاکستان

ہم اپنی آزاد ریاست کا ایک اور بحران زدہ سال مکمل کرنے والے ہیں۔ یہ بھی ہماری سیاسی زندگی کے پہلے برسوں سے مختلف نہ تھا۔ اس سال ہمیں یکے بعد دیگرے ایسے بحرانوں اور چیلنجوں کا سامنا رہا جن میں سے شاید دنیا کے کسی دوسرے ملک کو کبھی نہیں گزرنا پڑا۔ یقیناً وہ تاریخ کبھی تاریخ محسوس نہیں ہوتی جس میں آپ زندگی بسر کر رہے ہوں۔ اپنی آزادی کی چوتھائی صدی مکمل کرنے سے بھی پہلے ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ کچھ لوگ اسے گھر کی طبعی تقسیم کا ذمہ دار خود کو ٹھہرانے کے بجائے دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل تک دشمن ملک بھارت کے واقع ہونے پر الزام دھرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک نو آزاد قوم کی حیثیت سے ہمیں اپنی آزادی کے جن جیو پولیٹیکل اور سٹرکچرل فالٹ لائنز سے جنم لینے والے چیلنجوں کا سامنا تھا، ہم ان سے نبرد آزما نہ ہو سکے۔ 
زبان ہماری پہلی وحشت ناک آزمائش بنی۔ ہم اب تک کلچر، نسل اور تاریخ کے نام پر اسی طرح کے عفریتوں کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ اپنے نظام کی کمزوریاں دور کرنے اور اپنی قومیت کو تقویت دینے والے عناصر کو مستحکم کرنے کے بجائے اقتدار کے بھوکے سیاستدان ہمیشہ اپنی محدود ذاتی خواہشات کے اسیر بنے رہے۔ انہوں نے دسمبر 1970ء کے انتخابات میں عوام کی طرف سے ظاہر کی گئی آزادانہ رائے کو مسترد کر دیا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے سیاسی تصفیے کے بجائے فوجی حل کو ترجیح دی۔ یہ سیاسی موقع پرستی اور ذلت کی انتہا تھی کہ پاکستان کو دو لخت ہونے دیا گیا۔ دنیا میں کسی ملک کے ساتھ اس سے بُرا اور کیا ہو سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ 
اب پھر ہم انہی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں۔ 1973ء میں منظور کیے گئے نئے آئین میں اُن وجوہ کا ازالہ نہ کیا گیا جو 1971ء کے المیے پر منتج ہوئیں۔ یہ آئین میرٹ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بلکہ ملک کے دو لخت ہونے سے پیدا ہونے والے دبائو کے تحت تشکیل دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس آئین سازی کا مینڈیٹ نہیں تھا بلکہ جو ملک کے ٹکڑے ہونے کا موجب بننے والے پارلیمانی تعطل کے ذمہ دار تھے، 1973ء جیسے ناقص آئین کے مصنف بن بیٹھے۔ 1973ء میں بننے والی سیاسی حکومت کے جلد ہی دو صوبوں کے ساتھ مسائل پیدا ہو گئے۔ اس نے شمال مغربی سرحدی صوبہ (جو اب خیبر پختونخوا ہے) اور بلوچستان کی حکومتیں تحلیل کر دیں اور ان صوبوں میں گورنر راج نافذ کر دیا۔
اس کے بعد بلوچستان کے کچھ حصوں میں مسلح جدوجہد نے سر اُٹھا لیا۔ اِس پر اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ملک میں نظام میں تبدیلیوں کا احساس ہوا۔ انہوں نے اس امید پر قبل از وقت انتخابات منعقد کرائے کہ انہیں آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت مل جائے گی۔ ان کے منصوبے فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے سے دھرے رہ گئے۔ اس کے بعد 1973ء کے آئین میں اٹھارہ بار ترامیم کی جا چکی ہیں، لیکن کسی بھی حکومت نے فیڈرل سٹرکچر سے متعلق نظام کو درست کرنے اور صوبوں کی شکایات دور کرنے پر توجہ نہ دی۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے (Devolution) کے لیے جو اقدامات کیے گئے وہ بین الصوبائی عدم مساوات کا کوئی حل پیش نہ کر سکے۔ 
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاگیرداروں اور قبائلی اشرافیہ کا پاور سٹرکچر اپنی جڑیں بہت گہری کر چکا ہے اور یہ غالب طبقہ نظام میں تبدیلی نہیں آنے دیتا۔ تبدیلی اسے راس ہی نہیں آتی۔ یہ لوگ ہمیشہ ملک میں اصلاحات کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ اس سے ان کی طاقت اور اثر ختم ہو جائے گا۔ صوبائی خود مختاری کا معاملہ جوں کا توں رکھنے سے ہمارا فیڈرل سٹرکچر نہ صرف بری حکمرانی اور کرپشن میں اضافے کا موجب بن رہا ہے بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں عدم مساوات اور محرومی کے احساسات بھی بڑھا رہا ہے۔ بلوچستان اور دوسرے چھوٹے صوبوں میں 'مسلسل پنجابی غلبے‘ کے علاوہ اختیارات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف پہلے ہی زبردست اشتعال پایا جاتا ہے۔ 
سابق مشرقی پاکستان میں بھی اسی طرح کی گہری محرومی اور سیاسی و اقتصادی اجنبیت کا احساس پایا جاتا تھا جس نے سیاسی اور آئینی بحران کی شکل اختیار کی، پھر وسیع تر خود مختاری کا مطالبہ سامنے آیا اور بالآخر ملک دو لخت ہو گیا۔ کسی حکومت نے فیڈرل سٹرکچر میں نظام کی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کی‘ نہ صوبوں کی شکایات کا ازالہ کیا۔ وہ صرف اپنے مفاد کے لیے آئین میں ترامیم کرتی رہیں۔ اس عمل میں ملک ایک ایسا دیرپا جمہوری نظام قائم کرنے میں ناکام ہو گیا جس کی بنیاد آئینی بالا دستی اور اداروں کا استحکام ہو۔
پاکستان کی جغرافیائی وسعت اور آبادی کی تعداد کے لگ بھگ کوئی ملک ایسا نہیں جس کے صوبوں کی تعداد اتنی کم اور رقبہ اس قدر بڑا ہو اور جس میں اتنی بڑی تعداد میں قانون ساز، وزرا، مشیران، وزرائے اعلیٰ اورگورنر وغیرہ ہوں، جن کا تعلق طبقہ امرا سے ہو اور جو عام شہریوں کی قیمت پر اپنے ذاتی مفادات کے لیے حکمرانی کرتے ہوں۔ پاکستان میں بیس زبانیں اور تقریباً تین سو بولیاں بولی جاتیں ہیں۔ اس تنوع نے علاقائی کشیدگیوں اور صوبوں کے مابین عدم ہم آہنگی میں اضافہ کیا، اس سے نہ صرف قانون سازی کی راہیں مسدود ہوئیں بلکہ یہ سنٹرل اتھارٹی کے لیے بھی خطرے کا باعث بنیں۔ 
اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اب ملک میں نسلی اور لسانی بنیاد پر مزید صوبے بنانے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو ہمارے پاس فیڈریشن کا ایک ڈھیلا ڈھالا ڈھانچہ رہ جائے گا جو مفاد پرست، حریص اور کرپٹ سیاستدانوں کے رحم و کرم پر ہو گا۔ اپنے نظام کی کمزوریاں دور کرنے اور اپنی قوم کو متحد کرنے والے عناصر کو مضبوط کرنے کے بجائے ہمارے حکمران محدود قسم کی ذاتی خواہشات پوری کرنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ یہ ملک ابھی تک ایسے سیاسی نظام سے محروم ہے جو مختلف نسلوں اور زبانوں پر مشتمل آبادی کی ضروریات پوری کر سکے۔ 1973ء کے آئین کے باوجود بچے کھچے پاکستان کو مزید تقسیم کے خطرات کا سامنا ہے جس کی بڑی وجہ علاقائی عدم مساوات اور شکایات کا ازالہ کرنے سے گریز ہے۔ 
یہ منظرنامہ ہر اعتبار سے دیکھا بھالا ہے۔ اس طرح کے غیر معمولی واقعات اپنے مسائل کے حل کی جانب غیر معمولی توجہ دینے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ہمیں پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف بڑھنے سے اجتناب برتنا چاہیے اور عوام کی سماجی و اقتصادی محرومیوں اور ناانصافی ختم کرنے کے لیے آئینی ذرائع تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ ملک پر مسلط اشرافیہ کے منجمد نظام (Status quo) سے چھٹکارے کے لیے ہمیں اپنے موجودہ فرسودہ سیٹ اپ میں فوری طور پر زبردست تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ دراصل ہمیں قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیر نو کی ضرورت ہے، ایسا پاکستان جس پر لسانی عصبیت اور فرقہ واریت کا کوئی دھبہ نہ ہو اور جو مختلف گروہ بندیوں اور علاقائی عدم ہم آہنگی سے بھی پاک ہو۔
ہمیں لازمی طور پر یاد رکھنا چاہیے کہ 1947ء والا پاکستان 25 سال بھی قائم نہ رہ سکا۔ ان المیوں کے منحوس چکر سے نکلنے کے لیے ہمیں ایک ایسا بامعنی قومی مباحثہ شروع کرنے کی ضرورت ہے‘ جس میں پورے حکومتی نظام پر جامع نظرثانی کی جائے۔ قوم کو بیدار کرنے کا نعرہ بلند ہو چکا ہے جو ایک نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے بلند آہنگ اور واضح ہے۔ لوگ باہر آ چکے ہیں، ان کا مقصد صرف موجودہ حکومت کو ہٹانا نہیں بلکہ وہ اقتدار اور مراعات کے گلے سڑے نظام سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ وہ لوٹ مار کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
آنے والے نئے سال کو اپنی تاریخ کا آغاز بننے دیجیے۔ ہم ایک ایسا نیا پاکستان چاہتے ہیں جس میں اس کے شہری آسودہ زندگی بسر کر سکیں، اپنے بچوں کی پرورش ایسے باعزت و باوقار ماحول میں کر سکیں جو خوف، احتیاج، بھوک، بیماریوں، ناخواندگی، کرپشن، تشدد، ظلم و جبر اور ناانصافی سے پاک ہو۔ ہم ایک ملک اور قوم کی حیثیت سے اپنی تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنے آپ کو ان چند متلون مزاج اور مراعات یافتہ خاندانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے جو دھوکہ دہی، دولت اور طاقت کی بنیاد پر برسر اقتدار آتے ہیں۔
ہم معصومیت سے یہ باور نہیں کر سکتے کہ سب کچھ جادوئی انداز یا قدرتی طور پر ٹھیک ہو جائے گا۔ اپنی جمہوری روایت کے مایوس کن ریکارڈ کے ساتھ ہم اپنی تاریخ کے سنگین آزمائشی دور سے گزرے ہیں، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان میں اپنے قائد کا ورثہ کیونکر بحال کریں۔ یہ نصب العین، طاقت یا تشدد یا عوام کی بنیادی آزادیاں اور حقوق سلب کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے قائد تو ہمیشہ ان حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ 
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved