بچپن سے سنتے آئے تھے جب پاکستان کو مشرقی پاکستان کی جنگ میں ضرورت پڑی تھی تو امریکی ہمارے کام نہیں آئے اور چین ہر دفعہ ہماری مدد کو آیا ۔ میرا بھی اب تک یہی خیال تھا ۔ چھٹا بحری بیڑا ایک مذاق بن کر رہ گیا تھا؛ تاہم حال ہی میں چھپنے والی کتاب نے میرے خیالات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
بروس ریڈل امریکہ کے چار صدور کے ایڈوائزر رہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان، بھارت اور امریکہ کے تعلقات پرAvoiding Armageddon کے نام سے کتاب لکھی۔ کتابوں کی ایک خوبی ہوتی ہے‘ یہ آپ کو متاثر کرتی ہیں یا بالکل نہیں کرتیں۔ بروس ریڈل کی یہ کتاب متاثر کرتی ہے۔ اس کتاب میں جہاں اور بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے وہاں اہم یہ بھی ہے‘ جب مشرقی پاکستان میں جنگ شروع ہوئی تو اس وقت امریکہ کہاں کھڑا تھا۔ ہم امریکہ کو بیوفائی کے جو طعنے دیتے ہیں ان میں کہاں تک صداقت ہے۔
پاکستان کی نئی نسل نہیں جانتی‘ امریکی صدر نکسن پاکستان کے بہت قریب تھے اور اسے بھارت کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ نکسن کو جنوبی ایشیا کے بارے میں جتنا علم تھا‘ اتنا کسی امریکی صدر کو پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ وہ اکثر اس علاقے کا دورہ کرتا رہتا تھا۔ نکسن نے ہی پچاس کی دہائی میں پاکستان امریکہ معاہدے کی بنیاد رکھی تھی۔ نکسن نے 1953ء میں نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ امریکہ نہرو کے ساتھ اپنے رومانس کو ختم کرے جو امریکہ کے لیے شدید پشیمانی کا سبب بن رہا تھا۔ اس کے برعکس نکسن نے پاکستان کی تعریف کی۔ جب 1969ء میں نکسن صدر بنا تو بھارتی ہرگز خوش نہیں تھے‘ جب کہ پاکستانی خوش کہ وہ اب وائٹ ہائوس کے چیمپئن ہوں گے۔
امریکی پالیسی میں پاکستان بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا کیونکہ اب امریکی چین تک پاکستان کے ذریعے پہنچنا چاہتے تھے۔ ہنری کسنجر اس وقت نکسن کے ان معاملات کو دیکھ رہا تھا ۔ اگرچہ کسنجر نے بعد میں اپنی آٹوبائیوگرافی میں ان معاملات پر روشنی ڈالی لیکن ایک صحافی نے بعد میں ان دنوں کے نوٹس چھاپے تو پتہ چلا نکسن ایک جنگ وائٹ ہائوس کی بیوروکریسی کے ساتھ بھی لڑ رہا تھا۔ نکسن کا خیال تھا بھارت پاکستان جنگ عالمی تناظر میں دیکھی جانی چاہیے؛ جب کہ وائٹ ہائوس بیوروکریسی کے نزدیک یہ مشرقی پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک علاقائی جنگ تھی۔
مشرقی پاکستان میں یہ تاثر گہرا ہوگیا تھا کہ مغربی پاکستان ہر معاملے میں ان پر حکومت کررہا تھا۔ چھ ہزار آرمی افسران میں سے صرف تین سو بنگالی افسران تھے جب کہ بیوروکریسی بھی پنجاب سے آئی ہوئی تھی۔ بنگالیوں کے لیے مغربی پاکستانی ایک اور سامراج کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ ایوب خان مستعفی ہوچکے تھے اور بنگالی شدید ناراض کہ 1965ء کی جنگ کی وجہ سے انہیں احساس ہوا تھا کہ پاکستان ان کا دفاع نہیں کر سکتا تھا ۔ اگر بھارت چاہتا تو اس جنگ میں بھی وہ مشرقی پاکستان پر قبضہ کر سکتا تھا کیونکہ اس نے مشرقی پاکستان کو تین اطراف سے گھیر رکھا تھا۔ مختصراً بنگالیوں کو یہ احساس ہوچکا تھا پاکستان کشمیر کے لیے بنگالیوں کو کھونے کے لیے تیار ہوچکا تھا۔ایوب کے بعد یحییٰ خان نے کمان سنبھالی۔ جو برٹش انڈیا میں لبیا اور اٹلی میں جنگ لڑ چکا تھا۔ کہا جاتا ہے یحییٰ خان مدہوش رہتا تھا۔ وہ مشکل سے الیکشن کرانے پر تیار ہوا اور اکثریت شیخ مجیب کی تھی۔ ا س سے یہ خوف پیدا ہوا کہ اب طاقت کا مرکز مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان شفٹ ہوگا۔ اب غریب بنگالی پاکستان چلائیں گے۔ پنجابی یہ حقیت ماننے کو تیا رنہ تھے۔ یحییٰ اور بھٹو دونوں بنگالیوں سے بات کرنے ڈھاکہ گئے۔ یحییٰ واپس لوٹے اور عوامی لیگ کے خلاف آرمی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ امریکہ سے منگوائے گئے آرمرڈ کیریئر کی مدد سے ڈھاکہ یونیورسٹی میں
سینکڑوں بنگالی طالب علم مارے گئے۔ شاعر، ادیب، سیاسی ورکروں کو یا تو گرفتار کر لیا گیا یا پھر قتل کر دیے گئے۔ شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا لیکن اس سے پہلے وہ آزادی کا اعلان کر چکے تھے۔ بعد میں بنگلہ دیش نے الزام لگایا‘ تیس لاکھوں بنگالیوں کو قتل کیا گیا تھا جس کا پاکستان نے انکار کیا۔ لاکھوں بنگالی پناہ لینے بھارت چلے گئے۔ اندرا گاندھی نے شور مچایا کہ اس کی سرزمین پر اتنے پناہ گزینوں کی وجہ سے بہت مسائل کھڑے ہوگئے تھے۔ عوامی لیگ نے بھارت کی مدد سے گوریلا فورس تیار کر لی اور مکتی باہنی پاکستانی فوج سے لڑنے لگی۔ بھارت نے اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا تھا۔
اگرچہ ابھی بھی بھارت جنگ کے لیے تیار نہیںتھا کہ جنوری 1971ء میں دو کشمیریوں نے بھارتی ایئرلائن کا جہاز اغوا کر لیا اور اسے لاہور لا کر ایئرپورٹ پر اڑا دیا گیا۔ بھارت نے پاکستانی کی انٹیلی جنس پر الزام لگایا اور پاکستانی جہازوں کے مشرقی پاکستان جانے کے لیے بھارت کی فضا استعمال کرنے پر پابندی لگا دی۔ پاکستان نے بارہا کہا کہ بھارتی طیارے کے اغوا اور جلانے میں پاکستان کا قصور نہیں تھا اور کہا کہ دونوں کشمیری دراصل بھارت کے ہی جاسوس تھے؛ تاہم بعد میں ان دونوں ہائی جیکرز کو جنگ کے بعد رہا کر دیا اور وہ پاکستان میں رہتے رہے جس سے بھارت کے موقف کو وزن ملا کہ وہ پاکستان کے ہی ایجنٹ تھے۔ یوں جہاز کے ہائی جیک ہونے اور مشرقی پاکستان میں جاری خانہ جنگی سے اندرا گاندھی کو موقع ملا کہ وہ پوری جنگ شروع کر دیں؛ تاہم جنگ شروع کرنے سے پہلے اندرا گاندھی دیکھنا چاہتی تھی کہ مشرقی پاکستان میں جاری قتل عام پر امریکی ردعمل کیا ہوگا؛ تاہم نکسن اور کسنجر اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے رہے۔
نکسن کی ہدایت پر کسنجر نے وائٹ ہائوس انتظامیہ کو ہدایت کی کہ سب نے پاکستان کا ساتھ دینا ہے۔ اس پر وائٹ ہائوس کے بہت سے افسران نے مزاحمت کی۔ نیشنل سکیورٹی کے ایک اجلاس میں کسنجر پھٹ پڑے کہ صدر نکسن کہتا ہے پاکستان کی طرف اپنا جھکائو رکھو جب کہ تم لوگ جو بھی تجویز لاتے ہو وہ پاکستان کے خلاف ہوتی ہے۔۔مجھے لگتا ہے میں nut house میں ہوں۔
امریکن ڈپلومیٹ حیران تھے یہ کس طرح کی پالیسی چلائی جارہی تھی۔ ڈھاکہ سے امریکن سفارت خانے نے ایک کیبل وائٹ ہائوس بھیجا جس میں نکسن کی پرو پاکستان پالیسی پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ روس بھی پاکستان کی ان گرفتاریوں پر مذمت کررہا تھا لیکن امریکن جانتے بوجھتے اس قتل عام پر خاموش ہیں۔
جو بات وائٹ ہائوس میں افسران نہیں سمجھ پارہے تھے وہ یہ تھی کہ نکسن اور کسنجر بیس برس سے جاری چین پالیسی کو ریورس کرنا چاہ رہے تھے اور اس کے لیے انہیں پاکستان اور جنرل یحییٰ خان کی ضرورت تھی۔ اس راز کا وزیرخارجہ ولیم راجرز تک کو علم نہ تھا۔ صدر نکسن تین دفعہ ایک عام شہری کی حیثیت سے جنوبی ایشیا کا دورہ کر چکا تھا جب وہ نائب صدر تھا۔ ہر دفعہ اسے بھارت میں اچھا سلوک نہیں ملا جب کہ پاکستان میں اس کو عزت دی گئی تھی۔ اگست 1969ء میں نکسن نے دوبارہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا۔ اس کی اندرا گاندھی سے ملاقات اچھی نہ رہی اور وہ خراب موڈ کے ساتھ امریکہ لوٹا ۔ اب جب وہ امریکہ کا صدر تھا لہٰذا اندرا گاندھی اس طرح اسے برے سلوک کا نشانہ نہیں بنا سکتی تھی۔ اندرا گاندھی نے نکسن کی موجودگی میں طنزیہ اپنے افسر سے ہندی میں پوچھا تھا‘ اسے نکسن کو کتنی دیر تک برداشت کرنا ہوگا۔ نکسن اور اندرا گاندھی کی ایک دوسرے کے لیے نفرت صاف ظاہر تھی؛ تاہم جب نکسن اسلام آباد گیا تو وہاں واضح فرق نظر آیا۔ نکسن کو جنرل یحییٰ نے قریبی دوست کے طور پر عزت دی؛ تاہم یحییٰ کے لیے صدر نکسن کی طرف سے درخواست کی گئی۔ نکسن نے جنرل یحییٰ سے کہا وہ اپنا اثرورسوخ چین پر استعمال کرے اور چیئرمین مائو تک اہم پیغام پہنچائے۔ نکسن چین کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطے رکھنا چاہتا تھا۔ بیجنگ نے فورا کوئی جواب نہیں دیا؛ تاہم فروری 1970ء میں یحییٰ نے امریکیوں کو اچھی خبر سنائی‘ چینی بات کرنے کو تیار تھے۔ اکتوبر میں جب مشرقی پاکستان میں بحران شدت اختیار کررہا تھا، جنرل یحییٰ نے وائٹ ہاوس کا دورہ کیا اور نکسن سے ملاقات ہوئی۔ نکسن نے جنرل یحییٰ کو خوش کرنے کے لیے امریکی ہتھیاروں کی پاکستان کو سپلائی پر 1965ء کی جنگ سے جاری پابندی کو اٹھانے کا اعلان کیا اور 300 اے پی سی دیے گئے۔
اس دوران نکسن نے جنرل یحییٰ کو چین کے لیے ایک اور پیغام دیا ۔ وہ ہنری کسنجر کو خفیہ طور پر چین بھیجنا چاہتا تھا تاکہ وہ چیئرمین مائو کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کرے۔ پاکستانی سفیر نے بتایا چینی کسنجر کے خفیہ استقبال کے لیے تیار تھے؛ تاہم چینیوں کو کوئی جلدی نہ تھی لہٰذا دورے کی تاریخ نہیں دی گئی تھی۔ دریں اثنا جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں آرمی آپریشن شروع کردیا ۔ نکسن اور کسنجر کو احساس ہوا اس وقت وہ پاکستان سے دور نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ اگر وہ ہوئے تو ان کا چین کا منصوبہ درمیان میں رہ جائے گا اور وہ کسی صورت یہ افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔ صدر نکسن کا امتحان اب شروع ہوچکا تھا ۔ اس نے بھارت اور وائٹ ہائوس کے افسران کے دبائو میں آکر پاکستان کے خلاف کارروائی کرنی تھی یا چین سے دوستی کرانے کی قیمت پاکستان کو ادا کرنی تھی۔ وائٹ ہاوس کی پاکستان مخالف بیوروکریسی کی مخالفت کا سامنا کرتے صدر نکسن کے پاس فیصلہ کرنے کا وقت بہت کم تھا۔ (جاری)