تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     17-12-2014

احتجاج کا استدلال

اب لاہور اور اس سے پہلے فیصل آباد اور کراچی کو بند کیا گیا۔ کیا اس اندازِسیاست کے حق میں کوئی دلیل ہے؟جی ہاں۔دلیل ہے۔یہ دلیل میں نے، شفقت محمود صاحب کی زبان سے سنی اور یقینا اس ملک کے ہزاروں لوگوں نے سنی ہوگی۔ وہ 15 دسمبر کو دس بجے کے قریب ایک ٹی وی چینل پر ایک مقامِ احتجاج سے براہِ راست گفتگو کر رہے تھے۔
میں شفقت محمود صاحب کی 'حق گوئی‘ اور'قوتِ استدلال‘ سے دو بار بطور خاص متاثر ہوا۔ایک بار 14 اگست اور دوسری بار 15 دسمبر کو۔14اگست کو جب تحریکِ انصاف کا قافلہ لاہور سے سوئے اسلام آباد روانہ ہوا تو شریک سفر افراد توقع سے بہت کم تھے۔سوال اٹھا تو شفقت صاحب نے اسے ردکیا۔دلیل یہ دی کہ اسی ہزار موٹر سائیکل تو میں نے خود گنے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس بر ہانِ قاطع کے بعد ،کون یہ جرأت کر سکتا ہے کہ اس کو چیلنج کرے۔اب اگر 79900موٹر سائیکل سوار کسی کو دکھائی نہیں دیئے توآنکھوں کے کسی ڈاکٹر سے رجوع کر نا چاہیے۔اسی طرح کی دلیل انہوں نے 15اگست کو بھی دی۔پوچھا گیا کہ آج آپ کے کارکنوں نے شہر کی سڑکیں بزوربند کی ہیں تو کیا غلط نہیں ہے؟انہوں نے فرمایا کہ یہ تو ہم کریں گے۔ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا۔گویا جب پہلے بتا دیا تھا تو اس کے بعد بھی کسی دلیل کی ضرورت ہے؟ مزید سنیے۔پوچھا گیا کہ جب حکومت اورتحریکِ انصاف دونوں ،کمیشن کے قیام پر متفق ہیں تو پھر رکاوٹ کیا ہے؟جواب دیا گیا کہ یہ اختلاف کمیشن کی شرائطِ کار پر ہیں۔حکومت کہتی ہے کہ آپ دھاندلی کے ثبوت پیش کریں۔(کیسا غیر اخلاقی اور غیر منطقی مطالبہ ہے)تو کیا افتخار چوہدری کی ویڈیو بنائی جارہی تھی جو ثبوت پیش کیے جائیں۔ جب ساری قوم کہہ رہی ہے کہ دھاندلی ہوئی تو حکومت (ثبوت مانگ کر) فرار کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔یہ ہے وہ استدلال جو شہر بند کر نے اور احتجاج کے حق میں دیا جا رہا ہے۔
اس استدلال کو پی ٹی آئی کی ایک مقامی خاتون راہنما نے مزید محکم کیا۔جب ان سے یہی سوال باندازِ دگر پوچھا گیاکہ عام لوگوںکو، بچوں کو بہت زحمت ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے پہلے ہی بتا دیا تھاتو لوگ گھروں سے نکلے کیوں؟بچوں کو سکول کیوں بھیجا؟لوگ سب کچھ جاننے کے باوجود منہ اٹھائے چل پڑتے ہیں۔یہ جملے کم و بیش نقل بمطابق اصل ہیں۔یہ ہے وہ استدلا ل جو اس احتجاج کے حق ،میں پیش کیا جارہا ہے۔خود عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتی تو پھر پورا ملک بند کر دیا جائے گا۔مذاکرات کے لیے یہ انوکھا استدلال شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ 
لاہور کے احتجاج کے دوران میں ، خواتین کے ساتھ بد سلوکی ہوئی۔عمران خان نے دلیل پیش کی کہ یہ نون لیگ کے گلو بٹ ہیں۔ساتھ ہی کہا ہم تحقیق کریں گے۔نادرا تک جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ تحقیق سے پہلے ہی آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ان کا تعلق ن لیگ سے تھا؟اگر معلوم ہو گیا توتحقیق کس بات کی؟پھر یہ کہ کیا تحریکِ انصاف میں کوئی گلو بٹ نہیں؟ اخبارات کے مطابق،لندن میں مو لا نا فضل الرحمن کی تقریر کے دوران میں، ان پر مبینہ حملے کے الزام میں عمران خان کے بھانجے کو حراست میں لے لیا گیا۔تو کیا وہ بھی ن لیگ کے گلو بٹ تھے؟خیر ،یہ سوالات تو میں نے عادتاً اٹھا دیئے۔ ورنہ جب عمران خان نے کہہ دیا کہ یہ ن لیگ کے گلو بٹ تھے تو اس کو مان لینا چاہیے۔ان کا فرمان کیا خود دلیل نہیں ہے؟جب وہ کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو مان لینا چاہیے۔ کیسا غیر معقول مطالبہ ہے کہ ثبوت مانگے جا رہے ہیں؟
اس سارے احتجاج کا استدلال سے بس اتنا ہی تعلق ہے۔ رومان میں استدلال کا کردار اتنا ہی ہو تا ہے۔ہیجان میں تو دلیل مزید کمزور پڑ جا تی ہے۔ہر مخالف یا مختلف رائے کے بارے میں یہ فرض کیا جا تا ہے کہ اس کا محرک دیانت یا استدلال نہیں ہو سکتا۔ وہ لازماً کسی منفی جذبے کے تحت مرتب ہوئی ہے۔یوں یہ بات خارج از امکان ہو تی ہے کہ کسی دوسری رائے پر غور کیا جائے۔اس طرح کسی ارتقا یا بہتری کی طرف سفر تھم جا تا ہے۔ مذہبی جماعتوں کا رویہ بھی یہی ہے۔وہ ہر مختلف رائے پر غور کرنے سے پہلے، کہنے یا لکھنے والے کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں۔جب یہ طے ہو جا تا ہے کہ کہنے والے کا محرک، ان کے خیال میں، کوئی منفی جذبہ ہے تو پھر رائے اس قابل کہاں ہو تی ہے کہ اس پر غور کیا جا ئے۔ عمران خان،میں بار ہا لکھ چکا کہ ایک رومان کا نام ہے۔اب تحریکِ انصاف ایک ہیجان ہے۔یہاں کسی غور وفکر کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں عمران خان کے اخلاقی زوال کے ساتھ، ایک دوسرا المیہ، ان کی سیاسیِ قلبِ ماہیت ہے۔انسانی تاریخ یہ ہے کہ لوگوں کی سیاسی زندگی کا آ غاز احتجاج یا جذبات سے ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، تحمل، صبر اور حکمت جیسے اوصاف ابھرنے لگتے ہیں۔یوں ایک احتجاج پسند (Agitator) ایک سنجیدہ سیاست دان میں بدل جا تا ہے۔ نیلسن منڈیلا جیسی شخصیت نے طویل عرصہ تک،تشددکو بطور حکمت ِعملی اختیار کیے رکھا۔پھر یہ وقت آیا کہ وہ امن کے نوبل پرائز کے مستحق سمجھے گئے۔ ایسی تبدیلی عمر اور تجربے، دونوں میں اضافے سے آتی ہے۔عمران خان کا معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ وہ ٹھہراؤ سے ہیجان کی طرف بڑھے ہیں۔سیاست سے احتجاج کی طرف آئے ہیں۔ سیاست یہاں اپنے اصل مفہوم میں ہے جو بصیرت اور حکمت سے عبارت ہو تی ہے۔
عمران خان جانتے ہیں کہ ان کی احتجاجی تحریک کا نقصان نوازشریف کو نہیں، پاکستان کو ہو رہا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ نوازشریف تو ان کی اس سیاست سے مستفید ہونے والوں میں سرفہرست ہیں۔بہت سے لوگ عمران خان کی مخالفت کرتے ہیںلیکن نوازشریف صاحب کے حامی نہیں ہیں۔ عمران خان سے ان کے اختلاف کا بالواسطہ فائدہ انہیں پہنچتا ہے۔عمران خان کے اس احتجاج سے یہ حکومت ختم نہیں ہو سکتی۔ وہ احتجاج کو جتنا طویل کریں گے، پاکستان کے معاشی اور سماجی مضمرات اس کی زد میں رہیں گے۔یوں پاکستان کمزور سے کمزور تر ہو تاجائے گا۔ان کے پاس ایک متبادل مو جود ہے جو تعمیری ہے۔وہ ایک مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔وہی حکومت پردباؤ بڑھا سکتے ہیں کہ وہ ایک مثبت طرزِ عمل اپنائے۔ میڈیا ویسے بھی ان کے ساتھ ہے۔ان کو ابلاغ کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ افسوس ان کو اس کا اندازہ نہیں ہے کہ ان کی سیاست سے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ وہ شیخ رشید صاحب کے سحر میں ہیں۔ان کا مقصد صرف نوازشریف کے ساتھ حساب بے باق کر نا ہے۔وہ انہیں اس ہیجان کے راستے پر لگائے رکھنا چاہتے ہیں۔یہ المیہ ہو گا کہ عمران خان اس طرح کے منفی جذبات کے اسیر ہو جائیں۔
پاکستان کو سیاسی استحکام کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ایک فرد کے لیے آکسیجن ضروری ہے۔یہ بڑاحادثہ ہوگاکہ نوازشریف کو ناکام کرنے کے لیے پاکستان کی معیشت اور سماج کا پہیہ جام کر دیا جائے۔بہو کا مان توشاید ٹوٹ جائے لیکن یہ ذہن میں رکھیے کہ اس سے بیٹا بھی مر جائے گا۔ منفی اندازِ فکر کا نتیجہ یہی ہو تا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved