تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-12-2014

ٹوٹے

تباہی والے 
بڑے میاں صاحب نے کہا ہے کہ اللہ ملک کو تباہی والوں سے محفوظ رکھے۔ صاحبِ موصوف کی یہ دعا بہت جلد قبول ہونے والی ہے کیونکہ لوگ اب صحیح معنوں میں جان چکے ہیں کہ ملک کو تباہی سے کن لوگوں نے دوچار کیا ہے اور جو اب بھی اسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں‘ کیونکہ بنیادی فرق ہی یہ پڑا ہے کہ وہ ملمّع اب تیز رفتاری کے ساتھ اُترتا جا رہا ہے جو حکومت کی پہلی دفاعی لائن تھی۔ دفاع سے یاد آیا کہ خود میں اہلیت نہ ہونے کے باوجود دفاع اور خارجہ پالیسی کی تدوین و تشکیل کے ضمن میں وہ سارے اختیارات ان سے واپس لے لیے گئے جو اس کی اہلیت رکھتے تھے۔سابق آرمی چیف کے خلاف غداری کیس کا وقت اور طریقہ اس کے علاوہ ہے‘ معِ اُن وعدہ خلافیوں کے جو اس ضمن میں بار بار کی جاتی رہیں اور اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ امپائر کی انگلی اٹھنے والا باب بند ہو چکا ہے اور جو کچھ میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملک کے اداروں اور بیوروکریسی کے ساتھ روا رکھا گیا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ اقربا پروری کی ایسی بدترین مثالیں اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔ بادشاہت کا تاثر پھیلانے میں بھی آپ نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور پارٹی محض برائے نام ہو کر رہ گئی جبکہ غلط اور نااہل مصاحبین اورچہیتے، تابوت میں آخری کیل ہونے کا حکم رکھتے ہیں۔ ہوسِ زر ہے کہ یہ کہیں رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی‘ اس لیے کہ آپ کے نظریات کے مطابق‘ جو اب خطرناک حد تک راسخ ہو چکے ہیں‘ اقتدار حاصل ہی مال بنانے کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ کرپشن ایک معمول کی بات قرار پا چکی ہے۔ آپ نے کبھی یہ بتانے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ آپ کی بے پایاں دولت کا ایک بہت بڑا حصہ بیرون ملکی بینکوں میں کیا کر رہا ہے اور ملکی بینکوں کو اس سلسلے میں کیوں اس قابل نہیں سمجھا گیا‘ کیا اس لیے کہ پھر یہ بھی بتانا پڑے گا کہ اتنا پیسہ آیا کہاں سے ہے اور دوسرے ملکوں میں بھیجا کیسے گیا؟ ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ تقریباً ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ اندھا دھند بیرونی قرضے لے لے کر اس ملک کی جڑوں ہی کو کھوکھلا کردیا گیا ہے۔ اور‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ اچھی طرح سے جانتے‘ بوجھتے ہوئے بھی کہ یہ کس طریقے سے حاصل کیا گیا ہے‘ آپ اس مینڈیٹ کی دہائی شب و روز دینا ضروری سمجھتے ہیں جو آپ کی سب سے بڑی ڈس کوالیفکیشن کی حیثیت رکھتا ہے۔ تباہی کا سب سے بڑا ثبوت اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ملک سمیت اس کے عوام غریب سے غریب تر۔ نہ ہی آپ اس کا اندازہ لگانے اور ادراک کرنے کو تیار ہیں کہ آپ کی روز افزوں نامقبولیت اب لوگوں کی شدید نفرت اور غم و غصے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ ایک کھلا فراڈ تھا جس کا پردہ مکمل طور پر چاک ہو چکا ہے اور اپنے منطقی انجام تک پہنچنے ہی والا ہے‘ اس لیے تباہی والوں کے غم میں دُبلا ہونے کی بجائے آپ صرف اس تباہی کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں جو اب تک پھیلائی جا چکی ہے اور جس کا حساب دینے کا وقت بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ 
گنتی 
پیپلز پارٹی والوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنے سپیکر اور دوچار وزیروں کی قربانی دے کر جمہوریت بھی بچا لینی چاہیے اور ظاہر ہے کہ اپنی حکومت بھی۔ آخر ایاز صادق صاحب کب تک ووٹوں کی گنتی سے بھاگتے رہیں گے اور کب تک عدالتی حکم امتناعی کے پیچھے چھپتے رہیں گے۔ کیا اس بارے دورائیں ہو سکتی ہیں کہ سپیکر صاحب کا ووٹوں کی گنتی سے احتراز کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ان کا پول مکمل طور پر کھل جائے گا اور نااہل قرار پا کر اب تک سرکاری خزانے سے وہ جتنی تنخواہ‘ دیگر مراعات اور الائونس وغیرہ حاصل کر چکے ہیں‘ خزانے میں واپس جمع کرانے پڑیں گے؟ یعنی ع 
ایں ہم اندر عاشقی بالائے غمہائے دِگر 
اور یہ مقولہ بھی درست ہو جائے گا کہ مصیبت جب آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وہ اس بات کا احساس ہی نہیں کر پا رہے کہ ان کے اس رویے سے ان کی حکومت کے اعتبار کو کیا کیا کاری زخم لگ رہے ہیں اور جس سے ان کا اپنا کیس بھی کمزور سے کمزور تر ہو جاتا ہے۔ اور‘ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عدالت ان تکنیکی اور غیر حقیقی اعتراضات سے متاثر ہو کر کوئی ایسا فیصلہ بھی دے سکتی ہے جسے عوام کبھی قبول نہیں کریں گے اور جس سے ایک مزید بڑا بحران آن کھڑا ہوگا! 
عمران کے خلاف کارروائی؟ 
ہمارے مہربان وزیر اطلاعات و نشریات یوں تو گوہر افشانیاں کرتے ہی رہتے ہیں‘ خاص طور پر اس مرحلے پر بھی جبکہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔ موصوف نے ایک نیا گل یہ کھلایا ہے کہ حکومت عمران خان کے خلاف کارروائی کرے گی۔ آپ کے منہ میں گھی شکر۔ اور ؎
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا 
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں 
یہ بیان اس لیے بھی اس قدر قہقہہ آور ہے کہ حضور آپ کی ملک بھر میں کوئی رٹ تو کہیں نظر آتی نہیں‘ اس لیے آپ کو یہ گیدڑ بھبکیاں زیب نہیں دیتیں۔ عمران خان کو آپ گرفتار ہی کر کے دیکھ لیجیے‘ عوام راتوں رات حکومت کا دھڑن تخت کر کے نہ رکھ دیں۔ پھر یہ بھی پھلجھڑی چھوڑی کہ ہڑتال کی کوشش ناکام ہو گئی اور کافی دیر تک حلوہ پوڑی کی خوشبو آپ کے نتھنوں کو سیراب کرتی رہی۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کے صفحہ نمبر 6 پر آج شائع ہونے والا شیڈول ہی ملاحظہ کر لیں تو بہت ہوگا جس میں شہر کے ہر بازار کی صورتحال کو واضح کیا گیا ہے‘ پہلے آپ اسی کو چیلنج کر کے دکھا دیں۔ پھر آپ کے کچھ ہم نوائوں کا یہ کہنا ہے کہ لاہور اب بھی نواز لیگ کا قلعہ ہے‘ اس سے بڑی خودفریبی اور لوگوں کے منہ پر جھوٹ بولنے کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے‘ البتہ اس کے امکانات ضرور ہیں کہ مستقبل قریب میں لاہور آپ لوگوں کا شاہی قلعہ ہی ہو کر رہ جائے۔ 
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں 
آج کا مطلع 
پریوں ایسا رُوپ ہے جس کا لڑکوں ایسا نائوں 
سارے دھندے چھوڑ چھاڑ کے چلیے اس کے گائوں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved