1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران لاہور ریڈیو سٹیشن پر وہ ماحول نظر آیا جو 1965ء کی جنگ کے دوران میں دیکھنے میں آیا تھا۔ میں 1965ء میں ریڈیو میں باقاعدہ ملازم تو نہ تھا مگر اردو بنگلہ بول چال نام کے ایک پروگرام میں حصہ لینے جایا کرتا تھا۔ یہ پروگرام ریڈیو والوں کی نظر میں اس قدر اہم تھا کہ 65ء کی جنگ کے دنوں میں بھی جاری رہا اور میں بنگالی ٹیچر محترم سی سی داس اور اس پروگرام میں اپنی ساتھی بنگلہ زبان سیکھنے والی خاتون محترمہ فرخندہ لودھی کے ہمراہ روزانہ ریڈیو سٹیشن جا کر براہ راست نشر ہونے والے اس پروگرام میں حصہ لیتا تھا۔ ویسے میں گریجوایشن کا طالب علم تھا۔ اس طرح 65ء کی جنگ کے دوران ریڈیو لاہور کا تمام ماحول مجھے اچھی طرح یاد تھا۔ پھر 1968ء میں ریڈیو پاکستان میں بطور پروڈیوسر مجھے ملازمت مل گئی تھی اور تین برس کراچی ریڈیو پر گزار کر 1971ء میں میری پوسٹنگ لاہور ہو گئی تھی۔ دسمبر 1971ء کے پہلے ہفتے میں‘ میں کچھ دوستوں کے ہمراہ لاہور کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا تھا جب ہمیں اطلاع ملی کہ بھارت نے حملہ کردیا ہے۔ اطلاع ہمیں یہی ملی تھی حالانکہ بعد میں معلوم ہوا کہ مغربی محاذ پر کارروائی کا آغاز ہماری طرف سے ہوا تھا۔ بہرحال بھاگم بھاگ ہم ریڈیو سٹیشن پہنچے۔ ہیڈ کوارٹر سے ہدایات مل رہی تھیں اور آگے سٹاف کو وہی ہدایات دی جا رہی تھیں۔ ہر طرف بھاگ دوڑ جاری تھی۔
مشرقی پاکستان میں اُن دنوں میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کی خبریں تو یہاں پہنچ رہی تھیں لہٰذا ریڈیو سٹیشن پر کافی تیاریاں پہلے ہی ہو چکی تھیں۔ ملی نغمے‘ جنگی ترانے ریکارڈ ہو رہے تھے۔ خاکے فیچر وغیرہ لکھے جا رہے تھے۔ کنٹرول ڈیوٹیاں لگائی جا رہی تھیں۔ گویا جو کچھ 65ء کی جنگ میں کیا تھا، وہ سب کچھ دہرایا جا رہا تھا۔
مگر پتہ نہیں یہ سب کچھ کرنے کے باوجود جب میں 1965ء کے ماحول کو یاد کرتا تھا تو 71ء میں جو صورتحال میرے سامنے تھی اس میں مجھے وہ جوش و جذبہ دکھائی نہ دیتا جو کہ 65ء میں‘ میں دیکھ چکا تھا۔
ایک تو اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کے بارے میں ہمیں جو خبریں ڈھاکہ اور دیگر شہروں کے ریڈیو سٹیشنوں پر تعینات اپنے سٹاف ممبروں کے حوالے سے مل رہی تھیں وہ بہت تشویشناک تھیں۔ انٹرنیشنل میڈیا تو مسلسل یہ خبریں دے رہا تھا کہ پاکستانی فوج‘ مشرقی پاکستان میں مظالم ڈھا رہی ہے اور مکتی باہنی مقابلہ کر رہی ہے مگر ہمیں خبریں یہ مل رہی تھیں کہ وہاں غیر بنگالیوں‘ یعنی مغربی پاکستان سے گئے لوگوں پر بھی بہت ظلم ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان کی مجبوری یہ تھی کہ وہ یہ خبریں نشر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔ اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں کثیر تعداد میں بنگالی رہتے تھے۔ حکام کا خیال تھا اور درست خیال تھا کہ اگر یہ خبریں نشر کی گئیں تو مغربی پاکستان میں اس کا ردعمل ہو سکتا ہے اور یہاں موجود بنگالی غیرمحفوظ ہو سکتے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا پہلے ہی ہمارے خلاف ادھار کھائے بیٹھا تھا۔
تو ایک تو یہ وجہ تھی کہ اس پہلو سے کہ وہاں مغربی پاکستانیوں پر ظلم ہو رہا ہے اور اس پر آواز بھی بلند نہیں کی جاسکتی‘ ایک افسردگی سی یہاں پائی جاتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ 65ء کی جنگ میں دنیا کے بہت سے ملکوں نے کھل کر ہمارا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا تھا مگر 71ء میں ہمیں ایسا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔
اندرا گاندھی نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ امریکہ جیسا ملک‘ ہماری مدد نہ کر سکا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صدر نکسن اور ہنری کسنجر بھی اُس دور میں پاکستان کی پرخلوص مدد نہیں کر رہے تھے۔ بہرحال ہم اس دور میں ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہماری ڈپلومیسی کافی کمزور رہی تھی اور ہم خود ہی ایسے حالات پیدا نہ کر سکے کہ امریکہ یا چین ہماری کوئی مدد کر سکتے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ ہمارے ہیڈکوارٹر سے پروگراموں کے ضمن میں کچھ زیادہ ہی احکامات مل رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 1965ء کے ریڈیو پروگرام زیادہ تر مقامی طور پر لاہور ہی میں سوچے‘ لکھے اور تیار کیے جاتے تھے جن میں ملی اور جنگی ترانوں کے علاوہ اعجاز بٹالوی صاحب کی محاذ جنگ سے تقریریں‘ اشفاق احمد کے فیچر وغیرہ شامل تھے جبکہ 1971ء میں ہم جو تقریروں کے سلسلے نشر کر رہے تھے اُن کے عنوانات اس قسم کے تھے۔ مشرقی پاکستان کا
تاریخی پس منظر‘ مشرقی پاکستان کا سیاسی پس منظر‘ مشرقی پاکستان کا اقتصادی پس منظر اور اسی طرح کے کچھ اور موضوعات ہوتے تھے۔ پھر ساتھ ہی ان تقریروں کا بنگلہ میں ترجمہ کروایا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ارشاد صدیقی صاحب یہ تراجم کیا کرتے تھے اور اپنی آواز میں بنگلہ زبان میں ریکارڈ کروایا کرتے تھے۔ یہ تقریریں مشرقی پاکستان بھیجی جاتی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہاں سے نشر بھی ہو پاتی تھیں یا نہیں کیونکہ جو خبریں وہاں سے یہاں پہنچتی تھیں وہ اچھی نہیں تھیں۔
میری نظر میں کچھ وجوہ تو یہ ہیں، جن کی بنا پر 1971ء میں ریڈیو لاہور پر وہ فضا نہ بن سکی جو 1965ء میں دیکھنے میں آئی تھی۔ مگر پھر بھی جذبے کی کمی نہیں تھی۔ 1965ء میںجو جنگی ترانے اور ملی نغمے مقبول ہوئے ان کے گانے والوں میں نمایاں نام نور جہاں کا تھا مگر 1971ء میں جب جنگ شروع ہوئی تو نورجہاں غالباً جاپان گئی ہوئی تھیں۔ موصوفہ جنگ کے دنوں میں پاکستان واپس پہنچی تھیں مگر ان کے لاہور پہنچنے تک عنایت حسین بھٹی اپنا سکہ جما چکے تھے۔ انہوں نے بہت سے ترانے ریکارڈ کروائے۔ ان میں ایک ترانہ تو ایسا تھا جو بچے بچے کی زبان پر تھا۔ وہ رگڑا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے آخر میں آتا تھا ''دیو رگڑا ایناں نوں دیو رگڑا‘‘۔ یعنی بھارتیوں کو جی بھر کے رگڑا لگائو۔
1971ء کی جنگ کے دوران ریڈیو کھولیں تو ہر دم یہی آواز آتی تھی ''دیو رگڑا ایناں نوں دیو رگڑا‘‘۔ اور بھی بہت سے ترانے اس دور میں مقبول ہوئے مگر ''دیو رگڑا‘‘ سب سے زیادہ پاپولر تھا۔ اس کا بڑا ثبوت جنگ ختم ہونے کے بعد یوں ملا کہ آل انڈیا ریڈیو جالندھر نے اپنے پروگراموں میں اپنی فتح جتانے کے لیے اسی نغمے کو ہدف تنقید بنایا۔ ان کے پنجابی پروگرام کے میزبان عنایت حسین بھٹی بنا کر ایک مقامی کردار کو مخاطب کرتے اور کہتے ''دس بھٹی ہن کنوں رگڑا لگا اے‘‘۔ یعنی بھٹی‘ اب بتائو رگڑا کس کو لگا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو والے کئی ہفتوں تک رگڑے کا رونا روتے رہے۔
رگڑا کے عنوان سے بنیادی طور پر ایک نظم مولانا ظفر علی خان کی تھی جس کو بنیاد بنا کر پنجابی شاعر نازش کشمیری نامی نے یہ ترانہ تخلیق کیا تھا۔
سولہ دسمبر کا دن ایک تو المناک دن تھا۔ جب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید‘ بھارت کے خلاف ایک زوردار تقریر لکھ کر بیٹھے انتظار کر رہے تھے کہ پانچ بج کر دس منٹ پر براہ راست نشر کریں گے۔ پانچ بجے کی خبریں نشر ہوئیں تو ان میں یہ منحوس اعلان شامل تھا کہ ''مشرقی محاذ پر مقامی کمانڈروں کے درمیان سمجھوتہ ہو گیا ہے اور جنگ بند ہو گئی ہے‘‘۔ جس کا واضح مطلب تھا کہ مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ڈاکٹر خورشید جہاں بیٹھے تھے وہاں خبریں سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ اُن کو روکا تو پہلے تو خفا ہوئے کہ انہیں کیوں تقریر نشر کرنے نہیں دی جا رہی، مگر جب صورتحال معلوم ہوئی تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور دیر تک بیٹھے رہے۔