تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     18-12-2014

میرے منّے ‘ میرے شہزادے‘میرے لعل

یہ آنسو بہانے کا نہیں‘ کچھ کر دکھانے کا وقت ہے۔مگر کرے گا کون؟ حکمران اور سیاستدان تو کمیٹی بنا کر فارغ، جو ایکشن پلان بنائے گی جس پر اتفاق رائے ہو گا پھر عمل درآمد کی نوبت آئے گئی۔ قوم تب تک صبر کرے ؎
لائوں کہاں سے صبر حضرت ایوبؑ اے ساقی
خم آئے گا، صراحی آئے گی تب جام آئے گا
اگر سنگین جرائم بالخصوص دہشت گردی میں ملوث سزا یافتہ قیدیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے بھی حکومت آرمی پبلک سکول جیسے کسی بڑے سانحہ کی منتظر تھی تو یہ ہو چکا۔ اس پر مگر آدمی کیا کہے اور کیا کرے؟ ؎
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کومیں 
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
جس تن لا گے‘ سو تن جانے۔ ایک سو تیس بچوں کا غم پوری قوم کا ہے‘ ہر صاحب اولاد نے اس سانحہ کو ذاتی سانحہ جانا‘ پورے ملک میں ماتم برپا ہے کوئی ٹی وی چینل دیکھا نہیں جاتا کہ آدمی معصوم بچوں سے روا رکھی جانے والی وحشت و بربریت کا ذکر کتنی دیر اور کیسے سنے مگر زندگی بھر کا یہ روگ اور صدمہ تو ان مائوں‘ بہنوں بھائیوں اور باپوں کو سہنا ہے جن کے لال آسودۂ خاک ہو گئے۔ ہم آپ تو دو چار دن افسردہ رہ کر بھول جائیں گے، مائیں ہی زندگی بھر پکارتی رہیں گی۔ میرے منّے ‘ میرے شہزادے میرے لعل ۔
سوچنے کی بات مگر یہ ہے کہ دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ ہے؟یا دہشت گردوں نے اس قوم کو پہلی بار للکارا ہے؟ اس واقعہ کی سنگینی ماضی کے واقعات سے کہیں زیادہ سہی مگر جو کانفرنس وزیر اعظم نے 17دسمبر کو پشاور میں منعقد کی وہ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے قبل نہیں بلانی چاہیے تھی؟ صوبوں کو پولیس اور انتظامیہ کی اہلیت و استعداد بڑھانے کی ہدایت جون سے قبل جاری کرنا لازم نہ تھا اور افغانستان و امریکہ کے علاوہ بھارت سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ وہ آپریشن ضرب عضب کے فراریوں کو پناہ دیں گے نہ کوئی مالی اسلحی امداد فراہم کریں گے اور نہ آپریشن سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہو گی؟۔غم و اندوہ کے اس موقع پر تنقید و اعتراض مناسب نہیں۔ رسم دنیا ہے نہ دستور ہے 
؎خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
مگر اس تکلف اور رواداری میں تو حالات اتنے خراب ہوئے کہ حکمران زمینی حقائق کے مطابق بڑے فیصلے کرنے کے بجائے تذبذب اور گومگو کا شکار رہے۔ ؎
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے
اور دشمن کو بار بار پیش قدمی کا موقع مل گیا دسمبر1971ء سے دسمبر 2014ء تک مسلسل ۔کل جماعتی کانفرنس بھی کوئی بڑا فیصلہ، تاریخ ساز اعلان کیے بغیر ختم ہو گئی۔ سزائے موت پر عملدرآمد کو زرداری دور سے ٹالا جا رہا ہے۔بھٹو صاحب کی سزائے موت پیپلز پارٹی کے لیے صدمہ اور سوہان روح ہے اس لیے محترمہ بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کے دور حکمرانی میں لاء آف لینڈ پر عمل نہ ہو سکا۔ 
میاں صاحب کے دور میں جی ایس پی پلس کا حصول ترجیح اول تھی اور سزائے موت کا خاتمہ اس سٹیٹس کی شرط اول ۔لیکن آج تک یہ کسی نے سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ امن ہو گا تو سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور برآمدات میں اضافے کی تدبیریں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ جس فرد اور خاندان کو اپنے معصوم بچوں کی فکر دامن گیر ہے کہ گھر سے نکل کر محفوظ رہیں گے یا نہیں؟ سکول سے زندہ واپس آئیں گے یا کٹی پھٹی لاش ہسپتال سے وصول کرنی پڑے گی انہیں جی ایس پی پلس اور یورپ کے جذبات و مطالبات سے بھلا کیا سروکار؟ انہیں توگھر‘ بازار دفتر اور سکول میں تحفظ درکار ہے ۔
ایک ڈیڑھ عشرہ قبل ایران کے قونصل جنرل کا بزرگ صحافی سے مکالمہ مجھے یاد ہے۔ بزرگ مدیر نے گلہ کیا کہ ایران پاکستان میں اپنے ہم مسلک عسکری گروہوں کی مالی و اسلحی امداد کرتا ہے جو ہماری سکیورٹی کے لیے مسئلہ بنتے ہیں۔ قونصل جنرل نے جواباً کہا کہ اول تو یہ الزام ہی قطعی غلط اور بے بنیاد ہے لیکن آپ لوگ اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ ہم آپ سے زیادہ نامساعد حالات کا سامنا کر چکے ہیں۔ جنگ اور خانہ جنگی کا نشانہ بنے اور صدر‘ وزیر اعظم‘ ارکان پارلیمینٹ کی قربانی دی مگر قانون کے موثر اور بے لاگ نفاذ سے بالاخر دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے میں کامیاب رہے۔ امریکہ و یورپ اور بعض ہمسایہ ممالک کے تربیت یافتہ‘ حمایت یافتہ وسائل سے لیس گروہوں کو ہم نے شکست دی اور آج ایران ‘ پاکستان سے زیادہ محفوظ ہے۔ بات سچ تھی بزرگ صحافی خاموش ہو گئے۔
پاکستان 1980ء سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے نوعیت بدلتی رہی مگر بم دھماکے ‘ ٹارگٹ کلنگ‘ خودکش حملے یہ ساری صورتیں دہشت گردی کی تھیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کی تدبیریں بہت سوچی گئیں ،امریکہ و یورپ سے ڈالر بھی بٹورے گئے ۔ مگر ڈھنگ کی حکمت عملی آج تک تیار ہوئی نہ اختیار کی گئی ورنہ وزیراعظم ایکشن پلان کی تیاری کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان نہ کرتے۔ اسلام آباد شہر کے داخلی دروازوں پر نصب کرنے کے لیے خریدے گئے آٹھ ارب روپے کے سکینر سکریپ نکلے۔ نیکٹا کا ادارہ آج تک فنکشنل نہیں ہو سکا ۔اس کی درآمدہ مشینری کھلے آسمان تلے پڑی خراب ہو رہی ہے۔ پنجاب میں ایلیٹ فورس وی آئی پی ڈیوٹی پر مامور ہے اور خیبرپختونخوا کی حکومت پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کا دعویٰ کرتی ہے ،کارکردگی بڑھانے کا زعم بھی ہے لیکن گزشتہ روز کے اندوہناک واقعہ نے سارے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے ۔ رہے سندھ اوربلوچستان تو یہاں کرپشن‘سفارش ‘اقربا نوازی اور مافیاز کی سرپرستی کا کلچر ریاست کے مفاد اور وجود سے بالاتر ہے ۔گلہ کس بات کا۔
کل جماعتی کانفرنس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی ترجیحات واقعی تبدیل ہوں گی؟ قوم کیسے یقین کرے کہ وسائل کا رخ اب ہوائی ترقیاتی منصوبوں کے بجائے امن و امان کے قیام اور پولیس‘ انتظامیہ اور دیگر قومی اداروں کی استعداد کار بڑھانے‘ انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کی طرف مرکوزہوگا؟ اور ملک میں غربت و افلاس بے روزگاری بدامنی اور ناانصافی کے سدباب سے دہشت گردوں کی نرسریوں کے خاتمے کی تدبیر کی جائیگی؟
یہ ہو سکتا ہے اس مقصد کے لیے اگر کم از کم دو سال تک ترقیاتی منصوبوںکو منجمد کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں ۔قوم موٹر وے‘میٹرو بس اور دانش سکولوں کے علاوہ آسمان کو چھوتی عمارتوں ‘ جہازی سائز سڑکوں اور ان پر فراٹے بھرتی گاڑیوں کے بغیر بھی دو سال گزار لے گی اور لوڈشیڈنگ بھی جہاں چھ سال سے برداشت کر رہی ہے مزید دو سال برداشت کر سکتی ہے بشرطیکہ اسے اعتماد ہو کہ قومی وسائل دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور امن و امان کے یقینی قیام کے لیے وقف ہیں۔
لیکن اگر ہمارے مرکزی‘ صوبائی حکمرانوں‘ ان کے چہیتے ریاستی اہلکاروں‘ پولیس و انتظامیہ کے روز مرہ معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ سیاست دان اپنی چال نہیں بدلتے جوڑ توڑ کی سیاست اور اختیارات سمیٹنے اور وسائل اندھے ریوڑیوں کی طرح بانٹنے کی روایت برقرار رہتی ہے چند روزہ سوگ کے بعد وہی شب و روز لوٹ آتے ہیں جو 16دسمبر تک ہمارا معمول تھے توبھلے چند دہشت گردوں کو سزائے موت مل جائے‘ سکولوں کالجوں کے چوکیداروں کو یونیفارم پہنا دی جائے‘ ناکوں کی تعداد بڑھ جائے، فوج آپریشن ضرب عضب میں مزید اڈوں پر بمباری کر دے اور افغانستان و ایساف تربیتی کیمپ بند اور مفرور پاکستان کے حوالے کرنے کی یقین دہانی کرا دیں، صورتحال میں کوئی جوہری تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔ دہشت گردوں کے حوصلے پست ہونے کی امید نہیں کی جا سکتی۔
دشمن کو جب معلوم ہے کہ اس ملک کے والی وارث چند روزہ بھاگ دوڑ کے بعد تھک جاتے ہیں اور کچھ کرنے کے بجائے ہر واقعہ پر صرف آنسو بہاتے ہیں کوئی حتمی نتیجہ خیز اور دورس اقدام نہیں کرتے تو وہ باز کیوں آئے۔ہماری بیداری کے دنوں میں وہ آرام کرتا ہے اور ہماری غفلت و مدہوشی دیکھ کر ضرب لگاتا ہے ۔ہم اپنی عادت سے باز آتے ہیں نہ سنگدل دشمن رحم کھاتا ہے۔
یہ ضرب کاری ممکن ہے کہ ہمیں جھنجھوڑ کر جگا دے اور ہم ترجیحات بدلنے پر مجبور ہو جائیں۔ ترجیحات بدلے بغیر ہم دشمن کو شکست دے سکتے ہیں نہ قوم کو امن و سکون ۔دعوے کرنے سے ہمیں مگر کوئی نہیں روک سکتا۔
پس تحریر: عمران خان کی طرف سے دھرنا ختم کرنے کا اعلان بڑا اور جرأت مندانہ اقدام ہے۔ عمران خان نے تاریخی پہل کی ہے۔ میاں صاحب کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ جوابی خیرسگالی کا مظاہرہ کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved