تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     18-12-2014

مالدیپ کے جزیرے

مالدیپ ایک ایسا ملک ہے جو شاید چند عشروں میں صفحہ ہستی سے غائب ہوجائے اس لیے کہ سطح سمندر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بلند ہورہی ہے لیکن عین ممکن ہے کہ حضرت انسان درجہ حرارت بڑھنے کے عمل کا کوئی علاج نکال لے اور یہ انتہائی دلچسپ اور بہت ہی وکھرا ملک سدا سلامت رہے۔ ویسے میری یہی دعاہے کہ مختلف سا ملک قائم رہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں کی آبادی سو فیصد مسلمان ہے۔ دوسرے یہ معتدل مزاج اور امن پسند لوگ ہیں۔ انتہا پسندی ان کے پاس سے بھی نہیں گزری۔ کیا آپ کو علم ہے کہ اس ملک میں چوپائے نہیں ہوتے لہٰذا صاحب ثروت عیدالاضحی پر مرغیاں ذبح کرتے ہیں۔ اس دلچسپ ملک کا ذکر ابن بطوطہ کے سفرنامے میں ملتا ہے۔ ویسے اس کالم کا بیشتر حصہ میرے اپنے سفر مالدیپ اور تاثرات پر مشتمل ہوگا۔
1992ء کی بات ہے کہ مجھے وزارت خارجہ کی طرف سے چند روز کے لیے مالدیپ بھیجا گیا۔ ملک کا دارالحکومت مالے بہت مختصر جزیرہ ہے اور اتنا گنجان آباد کہ وہاں ایئرپورٹ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ میں کراچی سے کولمبو گیا۔ دو دن سری لنکا میں گزارے جن کا ذکر آئندہ کسی کالم میں آئے گا۔ کولمبو سے مالدیپ زیادہ دور نہیں۔ ایئرپورٹ ایک دوسرے جزیرے پر ہے۔ ایئرپورٹ سے تھوڑی ہی دور ساحل سمندر سے کشتی لی اور مالے روانہ ہوئے۔ ویسے ایئرپورٹ والا جزیرہ بھی اتنا مختصر تھا کہ پائلٹ ماہر نہ ہوں تو ہوائی جہاز سمندری جہاز بن جائیں۔ سفارت خانے کے لوگ ایئرپورٹ سے لینے آئے تھے لہٰذا امیگریشن اور سامان لینے کے مراحلے جلد طے ہوگئے اور ہم سب سے پہلے مالے جانے والی کشتی میں سوار تھے۔ مالے کے ایک گیسٹ ہائوس میں رہنے کا بندوبست تھا۔
نواب جام امیر علی ان دنوں مالے میں ہمارے سفیر تھے۔ بہت وضعدار آدمی تھے۔ ان کی ہدایات تھیں کہ مجھے گیسٹ ہائوس میں چیک ان کرکے پاکستان ہائوس چائے کے لیے لے جایا جائے۔ اس سلسلہ میں سفیر صاحب نے اپنے ہاتھ سے دعوت نامہ لکھا ہوا تھا جس میں تحریر تھا کہ میں ضروری مصروفیات کی وجہ سے ایئرپورٹ نہیں آسکا لیکن ملاقات ضروری ہے‘ آپ میرے ساتھ چائے نوش فرمائیں تو خوشی ہوگی۔ یہ خط بہت ہی خوشخطی سے بڑی نستعلیق قسم کی انگریزی میں لکھا ہوا تھا۔ جام صاحب بہت نفیس اور وضع دار انسان تھے۔ سندھ کی روایتی محبت اور مہمان نوازی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جام صاحب کو دو شوق تھے‘ ایک: اچھی اور گرامر کے لحاظ سے صحیح انگریزی بولنا اور لکھنا اور دوسرے پامسٹری۔ مجھے پامسٹری پر نہ تب یقین تھا نہ آج ہے لیکن یہ ملاقات بہت لطیف اور مختلف رہی لہٰذا آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ 
اگلے روز سفارت خانہ جانے کی تیاری شروع کی۔ باتھ روم میں پانی سے بھری ایک بالٹی پڑی ہوئی تھی یعنی شاور نہیں تھا۔ پانی جسم پر ڈال کر صابن لگایا تو یوں لگا کہ پورے جسم پر تیل مل لیا ہے یااللہ یہ کونسا صابن ہے جو جھاگ ہی نہیں بناتا۔ تولیہ باندھا اور کمرے سے چیخ کر گیسٹ ہائوس کے مالک کو بلایا۔ پتا چلا کہ نہانے کے لیے علیحدہ سے پانی طلب کرنا ضروری ہے۔ غسل خانے کی بالٹی والا پانی سمندر کا تھا۔ یہاں کے لوگ نہانے ، کھانا پکانے اور پینے کے لیے بارش کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ بارش تقریباً روزانہ ہوتی ہے۔ ترچھی چھتوں اور دھاتی پر نالوں سے آتا ہوا پانی روزانہ سٹور کیاجاتا ہے۔ شام کے وقت حسب عادت واک کے لیے نکلا۔ مالے کے گرد ساحل سمندر پر چلتا رہا۔ ابھی سوا گھنٹہ گزرا تھا کہ میں واپس وہیں آگیا جہاں سے واک شروع کی تھی۔ مالے کا جزیرہ اسلام آباد کے ایک سب سیکٹر جتنا ہوگا اور اتنی مختصر جگہ میں ساٹھ ہزار کی آبادی‘ صدارتی رہائش گاہ اور دفاتر اور ایک شاندار جامع مسجد۔ اس وقت یہاں صرف تین سفارت خانے تھے‘ ایک بھارتی،دوسرا پاکستانی اور تیسرا سری لنکن۔
اور اب ذکر ہوجائے ان باتوں کا جو مالدیپ کو دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہ ملک تقریباً دو ہزار جزیروں پر مشتمل ہے گو کہ آبادی صرف دوسو جزیروں پر ہے۔ مچھلی،ناریل اور پپیتا یہاں بہتات سے ملتے ہیں لہٰذا نہایت ارزاں تھے اس کے علاوہ تقریباً سب کچھ امپورٹ ہوتا ہے۔ طلاق کی شرح خاصی زیادہ ہے اور بار بار شادی کرنے کا رواج بھی ہے۔ ایک بات جو ہمیں مذاق لگتی ہے وہ یہ کہ مالدیپ کے باشندے اکثر کہتے ہیں کہ فلاں شخص میرے بھائی کا بھائی ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ میرے سوتیلے بھائی کا سوتیلا بھائی ہے۔
سیاحت کے لیے کئی جزیرے مخصوص ہیں۔ مالے میں شراب مکمل طور پر ممنوع ہے جبکہ سیاحوں والے جزیروں میں عام ملتی ہے۔ سیاحوں کو ہر قسم کی آزادی ہے لیکن مالدیپ کی خواتین کا ان مخصوص جزائر پر جانا ممنوع ہے۔ مالدیپ کی خواتین کا ذکر کرتے ہی ابن بطوطہ کی یاد آتی ہے جسے اپنی بیوی کو مالدیپ سے چین لے کر جانے کی اجازت نہ ملی۔ ابن بطوطہ مالدیپ میں کافی عرصہ رہا۔ قاضی القضاۃ کے عہدے تک پہنچا یعنی چیف جسٹس رہا۔ ایک مقامی خاتون سے شادی کی۔ چین روانہ ہوتے ہوئے ابن بطوطہ کی خواہش تھی کہ بیوی اس کے ہمراہ جائے مگر مالدیپ کے قوانین نے چیف جسٹس کو بھی استثناء نہ دیا۔
جی ہاں اس پورے ملک میں کوئی چوپایہ نہیں لہٰذا متمول لوگ بڑی عید پر مرغیاں ذبح کرکے غریبوں میں گوشت بانٹتے ہیں۔ مجھے پہلے تو اس بات کا یقین ہی نہیں آیا۔ تاکید کے لیے میں نے جامع مسجد کے خطیب سے پوچھا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی۔ خطیب صاحب سے یہ گفتگو جمعہ کی نماز کے بعد ہوئی اور ساری کی ساری عربی میں۔ میں نے پاکستان میں کسی دینی عالم کو اتنی روانی سے فصیح عربی بولتے نہیں دیکھا۔ خطیب صاحب فرمانے لگے کہ قربانی سنت ابراہیمی ضرور ہے لیکن سب پر فرض نہیں۔ پھر کہا کہ عید کے لغوی معنی وہ دن ہے جو بار بار آئے یعنی ہر سال کا 
تہوار اور گویا ہوئے کہ عید مناسک حج کی تکمیل کی خوشی میں منائی جاتی ہے گوکہ عیدالاضحی پر مرغی کی قربانی شرعی قواعد کے مطابق نہیں لیکن جس ملک میں چوپائے ہی نہ ہوں وہاں ہم اسے صدقہ خیرات کے طور پر کرتے ہیں۔ غریبوں میں گوشت بانٹتے ہیں کیونکہ مالدیپ میں غربت بہت ہے۔
اتوار کا دن آیا۔ میں کشتی میں سوار ہوا اور سیاحوں والے جزیرے پر پہنچ گیا۔ یہ جزیرے بہت ہی خوبصورت ہیں۔ دن کے پہلے پہر خوب دھوپ نکلتی ہے۔ سیاح ریت پر لیٹ کر سورج کی دھوپ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شام کو ہوٹلوں کے بال روم یعنی رقص گاہیں آباد ہوجاتی ہیں۔ 
کشتی لی اور شام کو واپس مالے پہنچا۔ کشتی خوبصورت جزیروں کے پاس سے ہوتی ہوئی دارالحکومت تقریباً دو گھنٹوں میں پہنچی تھی اور یہ تیز رفتار موٹر بوٹ تھی۔ کتنی خوبصورتی ہے ان جزیروں پر تاحد نگاہ ناریل کے درخت ہی درخت لیکن نہ گندم اگتی ہے نہ چاول اور نہ ہی چوپائے۔ قدرت کا عجب نظام ہے۔
مالے کے گرد پھر ایک واکر والا طواف کیا۔ جاپان کی حکومت نے کنکریٹ کے بڑے بڑے سلیب مالے کے ساحل کے ساتھ ساتھ سمندر میں لگا دیے ہیں جو سمندری لہروں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں ورنہ مدو جزر والا پانی گھروں تک آسکتا ہے۔ خدا کرے کہ گلوبل وارمنگ والا مسئلہ حضرت انسان حل کرلے۔ یہ خوبصورت جزیرے لاکھوں سیاحوں کے لیے خوشی کا سامان فراہم کرتے ہیں اور سیاحت کی بدولت مسلمانوں کا یہ ملک بھی قائم و دائم ہے۔ یہ مسحور کن جزیرے اور ان کے پرامن مسکراتے باشندے مجھے اکثر یاد آتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved