یہ ایک نہایت دلچسپ کتاب ہے۔ نوعیت عنوان سے ظاہر ہے۔ اس کا آغاز دیکھیے:
لطیف الزماں خاں کا بے حد کامیاب جوابی حملہ اور ترکی بہ ترکی جواب معروف ادیب و شاعر‘ مفسر ''محقق‘‘ اور صحافی ناشر حضرت مشفق خواجہ کے لیے۔ ''موصوف (لطیف الزماں) کے پاس غالبؔ سے متعلق کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے‘ اس کی بنیاد پر انہیں غالبؔ شناس قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی کے پاس قوتِ باہ کی دوائوں کا ذخیرہ دیکھ کر اس کی قوتِ مردمی کی شان میں قصیدے پڑھے جائیں‘‘ (مشفق خواجہ بنام گوہر نوشاہی مطبوعہ برسبیلِ غالب از سید معین الرحمن‘ 3.9 طبع اول‘ 2000ء)
جناب مشفق خواجہ! کیا پدی اور کیا پدی کا شورہ‘ میں چار جوان بچوں کا باپ ہوں‘ آپ نرے خواجہ سرا۔ کیا لطیفہ ہے کہ میری ''مردانگی‘‘ پر وہ شبہ ظاہر کر رہا ہے جو بیچارہ خود قوتِ مردمی سے بالکل محروم ہے۔ لاہور میں ان کے ہم پلہ ''مردِ تحقیق‘‘ ہانپتے ہوئے ڈاکٹر عبدالوحید قریشی کا بھی یہی حال ہے۔ مشفق خواجہ کے کوئی اولاد نہ وحید قریشی صاحبِ اولاد۔ دونوں دوسروں کو تکلیف پہنچانے اور ''غیبت‘‘ کا سیشن لگانے کی شہرت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ ''مقبولیت‘‘ کا یہ حال ہے کہ آزادانہ رائے لی جائے تو ان دونوں کو اپنی بیویوں سے بھی اپنے حق میں ووٹ نہ ملیں۔ مشفق خواجہ اس کے جواب میں کیا فرماتے ہیں‘ میں اس کا انتظار کرتا ہوں‘‘ (لطیف الزماں خاں بنام انعام الحق جاوید مطبوعہ برسبیل غالبؔ از سید معین الرحمن‘ طبع اول‘ ستمبر 2000ء صفحہ 21)
''میں ایک کتاب شائع کرنا چاہتا ہوں ''اردو کے تین دروغ گو‘‘۔ اس سلسلے کی ایک کڑی تو حضرت ڈاکٹر نثار احمد فاروقی ہیں‘ دوسرے صاحب ہیں ڈاکٹر سید معین الرحمن‘ تیسرے دروغ گو آل احمد سرور صاحب ہیں‘‘۔
''ایک بڑے مزے کی خبر سنیے۔ سید قدرت نقوی صاحب نے ملتان میں سکول کی ملازمت ترک کردی‘ وہاں ایک سو روپے ماہانہ ملتا تھا۔ حقی صاحب نے حقِ دوستی یوں ادا کیا کہ جوش صاحب کو ترقی بورڈ سے نکالا اور ساڑھے چھ سو روپے ماہوار پر قدرت صاحب کا تقرر کیا۔ جوش صاحب کا نعم البدل (کذا) کیا خوب تلاش کیا ہے۔ اب قدرت صاحب لغت نویسی پر مامور ہیں۔ ایک منشی فاضل پاس اور لغت نویس۔ انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔
''1946ء سے اب تک معلوم نہیں کتنے ادبا شعراء سے ملا ہوں۔ کم لوگوں کو اچھا انسان پایا۔ ہمارے ادیبوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو اچھے انسان نہیں۔ ترقی پسند ناقدین نے کتنے ہی شعرا اور افسانہ نگاروں کو بانس پر چڑھایا۔ ساحر لدھیانوی ہوں یا قتیل شفائی‘ ہیں تیسرے درجے کے شاعر‘ مگر آپ دیکھیے ہمارے ناقدین نے انہیں کیا ثابت کیا؟ میں شروع کے 11 سال کراچی رہا ہوں اور ترقی پسند مصنفین کے پہلے جلسہ سے لے کر آخری تک ہر ایک میں شریک ہوا ہوں۔ اگر اس زمانہ میں جن لوگوں سے ملتا تھا‘ ان کے بارے میں لکھوں تو سوائے رسوائی کے کیا ہاتھ آئے گا۔ ایک معمولی سا واقعہ سنیے‘ بند روڈ پر جس فلیٹ میں ترقی پسند مصنفین کے اجلاس ہوا کرتے تھے‘ اس فلیٹ کو عزیز اثری صاحب نے پگڑی پر اٹھا دیا اور جو رقم ملی وہ لے کر لاہور چلے گئے۔ کسی نے اس بات کو نہیں لکھا۔ اگر اب آپ میرا یہ خط شائع کردیں تو ظاہر ہے اثری صاحب کو میرا یہ سچ اتنا ہی کڑوا لگے گا جس طرح نثار احمد فاروقی صاحب کو یا ان ادیبوں کو لگے گا جن کے بارے چند فقرے بے تکلفی میں لکھ گیا ہوں‘‘۔
''اردو خطوط کی اگر تاریخ مرتب کی جائے تو آپ دیکھیں گے کہ عام طور پر لوگوں نے تصنع برتا ہے‘ مثلاً اقبال ایک کانشیئس آرٹسٹ تھا۔ اسے اپنی عظمت کا احساس تھا؛ چنانچہ ہر لفظ تراش خراش کر لکھتا۔ غالبؔ کو بھی اپنی عظمت کا احساس تھا مگر اقبال اور غالب کے احساس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ غالبؔ کو ڈومنی سے عشق تھا تو چھپایا نہیں۔ اقبال اگر عطیہ کو چاہتے تھے تو چھپاتے تھے۔ شبلیؔ کا بھی یہی حال تھا۔ غالبؔ جسے جو کچھ کہنا چاہتا کہہ گزرتا‘ لکھ ڈالتا مگر یہ بات کسی اور کو نصیب نہیں ہو سکی‘‘۔
''... باقی رہی غالبؔ کی چغل خوریوں کی بات تو بھائی غالب بڑے دنیادار بھی تھے۔ شاعری ذریعۂ عزت نہ سہی‘ پیٹ کے معاملات بھی تھے۔ ایک ہی قصیدے کو ہر آنے والے مختلف حکمران کا نام ڈال کر آگے بڑھانے والا حصولِ کرسی ٔ و زر کے لیے لگائی بجھائی کیوں نہیں کر سکتا...‘‘
''میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں جو آپ نے نیازؔ صاحب کے بارے میں میری رائے طلب کی ہے۔ اردو ادب سے جو لگائو مجھے پیدا ہوا اس کے ذمہ دار تین حضرات ہیں‘ نیاز صاحب‘ مجنوںؔ گورکھپوری اور جوشؔ۔ شاعری کو پڑھنا اور لطف اندوز ہونا جوش کی شاعری کا عطا کردہ تحفہ ہے۔ نیازؔ صاحب کی تحریروں سے شعر کے حسن و قبح پر نظر ڈالنا آیا مجنوںؔ کی تحریروں سے میں نے افسانوی ادب کا مطالعہ کیا۔ ان تینوں بزرگوں کا میرے دل میں بڑا احترام ہے‘ جوش صاحب اور مجنوںؔ سے نیاز حاصل کر سکا ہوں۔ نیازؔ صاحب کے سامنے جانے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔ مگر ان تینوں کی جانب سے دل میں ایک کسک بھی ہے۔ ان تینوں حضرات نے ہجرت کر کے ہندوستان کے مسلمانوں کو دکھ پہنچایا۔ تینوں نے اپنی تحریروں سے پاکستان کی مخالفت کی اور پھر یہیں آئے...‘‘
''اقبالؔ کا غیر مطبوعہ کلام مہرؔ صاحب کے گھر نہیں‘ اقبال کی اولاد کی تحویل میں ہے۔ یہ بڑے بڑے تالوں میں بند ہے۔ مہرؔ صاحب فرماتے تھے‘ جو کلام چھپ گیا ہے اس کی رائلٹی اتنی ہے جو ورثاء سے کھائے نہیں کھائی جاتی تو وہ غیر مطبوعہ کلام کیوں نکالیں اور کیوں چھاپیں...‘‘
''نثار احمد فاروقی صاحب ایک کے بدلے ایک کتاب طلب نہیں کرتے‘ ایک کے بدلے سو کتابیں چاہتے ہیں‘ اسے مبالغہ نہ جانیے۔ تین باتیں مختصر طور پر لکھتا ہوں۔ میں نے دو ہزار نقد انہیں دلوائے اور یہ گزارش کی کہ میری خالہ صاحبہ کو بیس روپے ماہانہ بھیجتے رہیں۔ صرف دو سو چالیس روپے بھیجے‘ باقی سب ہضم کر گئے اور خالہ صاحبہ ایک ایک نوالے کو ترستی رہیں اور آخر وہ بیوہ‘ ضعیف اور بیمار خاتون اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ ایک بار ملاقات ہوئی‘ فرمایا انجمن ترقیٔ اردو کراچی‘ ڈاکٹر گیان جین کو تین سو روپے بھجوانا چاہتی ہے‘ تم دے دو‘ انجمن تمہیں دے دے گی۔ میں نے روپے دے دیئے۔ ڈاکٹر جین کو آج تک روپے نہیں ملے۔ طفیل صاحب رسول نمبر چھاپ رہے تھے۔ فاروقی صاحب تشریف لائے‘ ان کی پسندیدہ ساڑھے چھ ہزار روپے کی کتابیں خرید کر طفیل صاحب نے بذریعہ ہوائی جہاز دلی بھجوائیں۔ جب کتابیں پہنچ گئیں تو دلی سے موصوف کا خط آیا کہ دس ہزار روپے اور بھجوائو تو مضامین لکھوائوں گا۔ وہ رقم بھی ڈوبی۔ بیاضِ غالبؔ بخطِ غالبؔ کے تین سو نسخے میں اور طفیل صاحب سرحد تک پہنچا کر آئے تھے۔ ساتھ فہرست دی تھی کہ فلاں فلاں ادارے اور اصحاب کو بھیج دیں۔ ایک بھی نسخہ کسی کو نہیں دیا۔ تین سو روپے فی نسخہ کے حساب سے تمام جلدیں فروخت کردیں اور پیسہ ہضم...‘‘
کتاب کے مرتب ہمارے دوست سید انیس شاہ جیلانی ہیں۔ فکشن ہائوس لاہور سے شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 240 روپے ہے۔
نوٹ: کل مجھے شاعر شہزاد نیّر کا فون آیا۔ کہنے لگے وہ ڈاکٹر نہیں میجر ہیں۔ اس لیے انہیں میجر شہزاد نیّر لکھا جائے۔
آج کا مقطع
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے، ظفرؔ
کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے