وحشت...! بربریت...! سفاکیت۔ یہ الفاظ اس سانحے کو بیان کرنے سے قاصر ہیں جو 16 دسمبر 2014ء کو پھولوں کے شہر پشاور میں ہوا۔
سکول کے محفوظ درو دیوار کے اندر‘ کلاس رومز میں حصول علم میں مگن‘ پیارے معصوم بچوں کو درندوں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ ماں کے ہاتھ کی دھلی ہوئی سفید قمیضیں... یونیفارم کے سبز کوٹ خون میں نہلا دیئے گئے! مائوں نے تو صبح اپنے جگر گوشوں کو تیار کر کے سکول بھیجا تھا۔ سکول جسے سیکنڈ ہوم کہا جاتا ہے۔ جہاں بچے گھر کی طرح محفوظ ہوتے ہیں۔ مائوں نے بچوں کو علم کے حصول کے لیے بھیجا تھا اور والد اپنے بیٹوں کو خود سکول کے دروازے تک چھوڑ کر آئے تھے۔ مائوں نے بچوں کی حفاظت کی دعائیں بھی پڑھی ہوں گی... واپسی کے انتظار میں‘ اپنے جگر گوشوں کی پسند کے لنچ تیار کرنے میں مصروف مائوں کو کیا خبر کہ آج انہوں نے اپنے دل کے ٹکڑے کو آخری بار گلے سے لگا کر سکول بھیجا ہے!
آج سکول جانے کا وقت تو ہے مگر بچوں کی واپسی نہیں ہوگی۔ مائوں کو کیا خبر کہ انہوں نے بچپن سے لڑکپن کی حدود میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے سنہری وجود آخری بار اپنے ہاتھوں سے چھوئے ہیں! آج ا ن کی آنکھوں نے اپنے بیٹوں کے سجیلے چہروں کا آخری بار طواف کیا ہے۔
سکول کی تیاری کا الارم آج آخری بار بجا ہے!
آج آخری بار ماں نے لنچ باکس تیار کیا ہے... اور وہ معمول کی تمام نصیحتیں بھی ماں نے آج آخری بار کی ہیں!
ماں نے اپنی پیار بھری خفگی کے ساتھ آج اس روز بھی صبح صبح سمجھایا ہوگا: بیٹا وقت سے تیار ہوا کرو۔ ناشتہ تو ڈھنگ سے کرو۔ دیکھو کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا تو دودھ کا ایک گلاس ہی پی لو۔ پڑھ پڑھ کہ کیسا چہرہ اُتر گیا ہے مرے لعل کا! اور ہاں سکول میں لنچ ضرور کھا لیا کرو۔ بیٹا تم نے تو ناشتہ بھی نہیں کیا ہوتا۔ خالی پیٹ پڑھائی کیسے ہوگی۔
شاید جواب میں ماں کے لاڈلے نے بھی کچھ فرمائش کی ہوں‘ ہمیشہ کی طرح ناشتے سے دامن چُرا کر ماں کو ستایا ہو... یا پھر امی بابا کو کوئی وعدہ یاد دلایا ہو کہ آج سکول سے واپسی پر آپ کو مجھے میرا فلاں تحفہ دلانا ہوگا! جانے ان سارے پیارے بچوں کے 16 دسمبر کی شام کیا کیا پروگرام ہوں گے! لیکن اس قاتل دوپہر نے بڑی بے رحمی‘ بڑی بے دردی کے ساتھ ماں اور بچوں‘ بچوں اور بابا کے سارے خواب لہو میں نہلا دیے!
مائوں کو کیا خبر تھی کہ اپنے بیٹوں کے مسکراتے ہوئے خوب صورت چہرے‘ خوابوں سے روشن پیاری آنکھیں۔ آج آخری بار نظر آئی ہیں۔ پھر سکول جانے والے بچوں کو کبھی چھٹی نہیں ملے گی۔ سکول کی وہ گھنٹی اب کبھی نہیں بجے گی جو گھر کے راستے کی خبر دیتی ہے۔ گھر کا راستہ‘ جو مائوں کی آغوش اور باپ کی مضبوط بانہوں تک لے جاتا ہے! اور پھر وہ سکول کی وہ گھنٹی اب کبھی نہیں بجے گی۔
ان گھروں کے دروازوں پر ہجر میں روتی ہوئی آنکھیں ہمیشہ کا انتظار کا موسم دیکھیں گی۔ اس لیے کہ اب کے تقدیر نے موت کی گھنٹی بجا دی تھی! نوجوانی کی تپش سے روشن۔ ایسے سجیلے سنہری وجود۔ علم کے حصول کے راستے پر جانے والوں کے پاکیزہ خوب صورت چہرے‘ دہشت گردوں نے کس سفاکی سے بارود کی نذر کر دیئے! صرف ایک ماں ہی جان سکتی ہے کہ کیسے اس کی سانس‘ اس کے بچے کے وجود کے ساتھ اس کی سانسوں کے ساتھ بندھی ہوتی ہیں‘ ماں اور بچے کے درمیان محبت کا ایک پُراسرار رشتہ ہوتا ہے جس کی گہرائی کو الفاظ کے پیرائے میں شاید نہ ڈھالا جا سکے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کے وجود کے ساتھ بندھی ہوتی ہیں۔ مرنے والے بچوں کی مائیں ساتھ ہی مر گئی ہوں گی۔ گیارہ بجے کے قریب دہشت گردی کا یہ سفاک سانحہ شروع ہوا۔ اور کتنے گھنٹوں تک دہشت گرد درندے نہتے معصوم طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔ اس قیامت کی خبر کیسے مائوں تک پہنچی۔ ان کے دلوں پر کیا قیامت گزری ہوگی یہ سوچ کر دل دہل جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے جگر گوشے کو تیار کر کے سکول یونیفارم میں سکول بھیجنے والی ماں نے کس دل کے ساتھ ہسپتال کی ٹھنڈی راہداریوں میں پڑی لاشوں کے درمیان اپنے لعل کی شناخت کی ہوگی! موت کی بے رحم بانہوں میں‘ اپنے شہزادے کا ٹھنڈا وجود... زندگی سے محروم اور کھلی خالی آنکھیں لہو میں بھیگا ہوا یونیفارم... لاوارث پڑا ہوا سکول کا بستہ۔ ہر لمحہ ایک نئی قیامت اس کے دل پر ٹوٹی ہوگی! مائوں نے اپنے لعل‘ مٹی کے سپرد کر دیئے ہیں۔ مگر یہ مائیں جو مملکت پاکستان کی شہری ہیں اور جن کے جان اور مال کی حفاظت قانوناً مملکت کی ذمہ داری ہے‘ کس سے حساب مانگیں؟ جن کی عمر بھر کی کمائی اس بے دردی سے لٹ گئی!
حساب تو ان سے بھی لینا ہوگا‘ جو پھولوں کی کیاری کو بارود سے اڑانے والوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ جنہوں نے اچھے طالبان کی اصطلاح ایجاد کی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں ہم ایک پیچیدہ اور گمبھیر صورت حال سے دوچار ہیں۔ جو زخم اس سانحے نے دلوں پر لگائے ہیں وہ کبھی نہیں بھر سکیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سانحے پر ہر اہلِ دل رو رہا ہے۔ پاکستان کے ہر گھر میں ان شہید بچوں کا سوگ ہو رہا ہے۔ خوف‘ سہم اور سوگ کی کیفیت ہر گھر میں ہے۔ ہر گھر سے بچے سکولوں کو جاتے ہیں اور والدین بڑے اعتماد کے ساتھ بچوں کو سکول بھیجتے ہیں کہ سکول تو ان کا دوسرا گھر ہے مگر آج ان حالات میں سب والدین ایک شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ خدا ہمارے حالات پر رحم کرے!
آخر میں ان مائوں کے لیے دعا‘ جن کے جگر گوشے اس دہشت گردی کی نذر ہو گئے۔
مائیں اب بھی انتظار میں ہیں
چھٹی کی گھنٹی بجے گی اور شہزادے گھروں کو لوٹیں گے
لیکن راج دلارے‘ پیارے پیارے شہزادوں نے اب کے
دور، بہت ہی دور چلے جانے کی ٹھانی ہے!
امی کی پیار بھری خفگی سے دور!
بابا کی بانہوں سے دور
چھٹی کی گھنٹی سے دور!
(اے رب کریم مائوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو ڈھارس اور صبر جمیل دے! آمین)