تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-12-2014

دہشت گردی کے خلاف افپاک اور چین کا اتحاد

سیاست دانوں سے زیادہ‘ سخت دل کوئی نہیں ہوتا۔ سانحہ پشاور کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیاست دان بھی اقتدار کی جنگ‘ بھول کر اہل دل کی طرح‘ اس عظیم المیے کے دکھ میں ڈوب گئے۔ درندے بھی اس قدر سفاک نہیں ہوتے کہ بلاوجہ خون بہائیں۔ وہ صرف اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔ یہ کیسے درندے تھے؟ جو معصوم بچوں کا خون بہا کر بھی مطمئن نہیں ہو رہے تھے۔ سکول میں عجیب منظر تھا۔ وحشی درندے‘ عمارت کے اندر دندناتے پھر رہے تھے۔ نازک اور پھول جیسے بچوں پر‘ اندھا دھند گولیاں برساتے‘ چاروں طرف نشانے باندھ رہے تھے۔ بچے‘ فرنیچر کے نیچے چھپ رہے تھے۔ میزوں کی اوٹ میں جا رہے تھے۔ بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بعض بچے‘ پتہ نہیں کس طرح دیوار پر چڑھ کر‘ روشن دانوں کے اندر جا بیٹھے۔ جلاد صرف موت پر ہی قناعت نہیں کر رہے تھے‘ بچوں کے جسموں کے اعضا کو بھی کاٹ کاٹ کر پھینکتے رہے۔ صحافیوں کے ایک گروپ میں جانے والے شخص نے لکھا کہ ہال میں بوریوں کے اندر‘ بچوں کے اعضا بھرے ہوئے پڑے تھے۔ وہ ایک ایک کمرے میں جھانکتے پھر رہے تھے۔ کچھ معصوم بچوں نے اپنی ایک ٹیچر کو بچانے کی کوشش کی تو درندوں نے اسے آگ لگا کر جلا ڈالا۔ یہ عجیب و غریب دہشت گرد تھے‘ جنہوں نے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ حملے کا کوئی مقصد نہیں بتایا۔ وہ صرف قتل برائے قتل کر رہے تھے۔ خون برائے خون بہا رہے تھے۔ اس المیے کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں مودی جیسے مسلم دشمن شخص‘ نے بھی دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ بھارت کے سکولوں میں بچوں نے منہ پر سیاہ پٹیاں باندھ کر‘ اہل پاکستان کے غم میں شرکت کی۔ خود ایک افغان دہشت گرد لیڈر‘ ذبیح اللہ مجاہد نے بھی شدت ِغم سے کراہتے لفظوں میں کہا ''ہم اس المیے پر غم زدہ ہیں اور ان خاندانوں کے دکھ میں شریک ہیں‘ جن کے بچے ان درندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے‘‘۔ طالبان کی جس تنظیم نے بھی یہ اقدام کیا‘ اس کے پاس کسی قسم کا کوئی جواز نہیں تھا۔ وہ‘ پاکستان سے کچھ حاصل بھی نہیں کر سکے‘ ماسوائے اس کے کہ پاکستانی قوم جو انتشار میں مبتلا تھی‘ تمام گلے شکوے بھول کر‘ متحد ہو گئی اور دہشت گردی کے خلاف طویل مدت سے جاری جنگ کے دوران‘ کبھی اتنا اتفاق رائے پیدا نہیں ہوا تھا‘ جتنا اس ایک سانحے کی وجہ سے ہو گیا۔ جو پاکستانی اس دل سوز واقعے کے بعد بھی‘ نام نہاد طالبان سے ذرا بھی ہمدردی رکھتا ہے‘ وہ اسلام ہی نہیں دائرہ انسانیت سے بھی خارج ہے۔ بعض مذہبی سیاست دان‘ اگر مگر کر کے دہشت گردوں کی صاف مذمت کرنے سے پہلو کتراتے ہیں‘ وہ بھی درحقیقت بد نیت لوگ ہیں لیکن اب طالبان کی مخالفت میں اتنی شدت اور تلخی آ گئی ہے کہ کوئی بھی عوام کے سامنے‘ اپنے مذموم خیالات کے اظہار کی جرات نہیں کر پا رہا۔
طالبان کے امور سے واقفیت رکھنے والوںکا کہنا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب نے طالبان کی تمام قابل ذکر تنظیموں کو شدید ضرب لگائی ہے۔ ان کے باہمی رابطے بھی ٹوٹ گئے ہیں اور وہ منظم حملے کرنے کے بھی قابل نہیں۔ یہ حملہ‘ خراسانی اور ملا فضل اللہ کی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ ملا فضل اللہ کو امریکیوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان نے تمام طالبان گروہوں کے ساتھ‘ کھلی جنگ کا اعلان کر کے جو خطرہ مول لیا ہے‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر ہمیں امریکیوں کی مدد حاصل نہیں ہوتی تو پاکستان کا فرسودہ ریاستی ڈھانچہ‘ ان جدید گوریلوں کے نئے ٹیکنیکل حربوں اور آلات کا مقابلہ کر پائے گا؟ ہمیں امریکیوں سے امید کرنا چاہئے کہ وہ بھی ملا فضل اللہ اور اس کے ٹولے کو نیست و نابود کر کے‘ اپنے اس دعوے کا پاس کریں گے کہ امریکہ ہر قسم کی دہشت گردی کا مخالف ہے۔ ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کی حالیہ ایک بڑی کارروائی کے بارے میں افغان حکومت کے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان ابھی تک افغان حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے‘ ایسی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اگر اس قسم کی شبہات موجود رہیں گے‘ تو دونوں ملک‘ دہشت گردوں سے کبھی نجات حاصل نہیں کر پائیں گے۔ دونوں ملکوں کی سرحدیں‘ اتنی لمبی اور دشوار گذار ہیں اور علاقے اتنے وسیع اور پُر خطر ہیں کہ دہشت گرد‘ سرحد کے دونوں طرف سرحدی نگہبانوں کی نظروں 
سے بچ کر‘ آسانی سے آمدورفت کر سکتے ہیں۔ سانحہ پشاور کے فوراً بعد جنرل راحیل شریف نے جس طرح کابل جا کر‘ افغان حکام سے بات چیت کی‘ امید ہے اس میں دونوں حکومتوں کی انڈرسٹینڈنگ بہتر ہو گئی ہو گی۔ دونوں ملکوں کو اپنی تمام توجہ باہمی بداعتمادیاں دور کرنے پر مرکوز کرنا چاہئے جب تک ہم آپس میں مخلصانہ تعاون نہیں کریں گے‘ دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہو گا۔ پاکستان کے اندر بھی‘ طالبان گروپ مکمل طور سے ختم نہیں کئے جا سکے۔ گو ان کا منظم اور آزادانہ طور سے متحرک ہونا‘ اب ممکن نہیں رہ گیا لیکن وہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بکھرے ہوئے‘ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ پشاور میں کارروائی کرنے والے‘ دہشت گردوں کا ٹولہ بھی مختلف گروپوں کے افراد پر مشتمل تھا۔ ان میں ازبک بھی تھے‘ خراسانی اور ملا فضل اللہ کے لوگ بھی اور اس آپریشن میں وزیرستان‘ مہمند ایجنسی اور اورکزئی قبیلوں سے تعلق رکھنے والے گروپوں کا بھی کردار ہے۔ منگل باغ‘ نے خیبر ٹرائبل ایجنسی میں مضبوطی سے قدم جما رکھے ہیں۔ وہ اپنی پرائیویٹ جیلیں چلا رہا ہے اور بڑے بڑے تاجروں کو اغوا کر کے تاوان میں بھاری رقوم بھی وصول کرتا ہے۔ جن طالبان لیڈروں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے‘ ان کے مطابق یہ ضربِ عضب کے ردعمل میں ہے۔ اس فوجی آپریشن میں طالبان نے تمام قابل ذکر گروہوں کو‘ جن کے مراکز شمالی وزیرستان میں موجود تھے‘ پوری طرح سے تتر بتر کر دیا ہے۔ نواز شریف حکومت بھی طالبان کے حوالے سے فیصلہ کن رویہ اختیار کرنے سے گریزاں تھی۔ اس حکومت کا خیال ہے کہ طالبان کے ساتھ‘ مذاکرات کا جو سلسلہ اس نے شروع کیا تھا‘ اسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا گیا اور فوج نے جلد بازی میں آپریشن شروع کر دیا‘ لیکن اس سفاکانہ حملے کے بعد‘ نواز شریف کی پارٹی نے بھی کھل کر‘ طالبان کی مخالفت شروع کر دی ہے اور نواز شریف نے واضح پوزیشن اختیار کرتے ہوئے‘ صاف کہہ دیا ہے ''اب اچھے اور برے طالبان کی کوئی تقسیم نہیں کی جائے گی۔ دہشت گرد کسی بھی گروپ سے ہو‘ بہرحال وہ دہشت گرد ہے‘‘۔
اس حملے سے پاکستان کو بہت بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ چین نے پاکستان اور افغانستان کے اندر‘ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے‘ عملی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سانحہ پشاور پر‘ فوراً چین کے صدر اور وزیر اعظم‘ دونوں کے مذمتی بیانات جاری ہوئے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ''چین کو اس سانحہ سے گہرا دھچکا لگا۔ چین‘ دہشت گردوں کے خلاف مضبوطی سے پاکستانی عوام اور حکومت کے ساتھ‘ کھڑا ہو گا اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ہر طرح سے تعاون کرے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ استحکام کے تحفظ اور ملک و عوام کی سلامتی کے لئے‘ ہر قسم کی امداد کرے گا‘‘۔ چینی ترجمان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ''چین اور پاکستان‘ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں باہمی تعاون کریں گے‘‘۔ پاکستان اور چین دونوں کو سال رواں کے دوران‘ دہشت گردی کے بڑے حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں تازہ ترین پشاور کے آرمی سکول پر حملہ ہے۔ کراچی میں فریگیٹ جنگی جہاز کے اغوا کی ایک بڑی لیکن ناکام کوشش کی گئی۔ کراچی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کر کے‘ 18 افراد شہید کئے گئے۔ اسی طرح چین میں کومنگ ریلوے سٹیشن پر حملہ کر کے‘ دہشت گردوں نے 29 شہریوں کو ہلاک اور 140 کو زخمی کر دیا۔ مئی میں اورمچی کے پُررونق علاقے میں‘ دہشت گردوں نے31 چینیوں کو ہلاک اور 100 کو زخمی کیا۔ ان بڑے حملوں نے پاکستان اور چین کو دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون میں اضافے پر مجبور کر دیا۔ امریکہ جس تیز رفتاری سے افغانستان سے اپنے فوجیوں کو واپس بلا رہا ہے‘ اس کے بعد‘ ان دونوں ملکوں کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جائیں گی۔ امکان یہ ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد‘ افغانستان کے دہشت گرد اور ان کے غیر ملکی اتحادی‘ دہشت گردی کی کارروائیوں میں یقیناً اضافہ کریں گے اور ان کا نشانہ تینوں ملک چین‘ پاکستان اور افغانستان بیک وقت بنیں گے۔ خطرے کی نوعیت کا تقاضا ہے کہ تینوں ملکوں کی حکومتیں‘ جلد از جلد مشترکہ طور پر‘ انسداد دہشت گردی کے لئے‘ باہمی تعاون کو ایک تنظیمی ڈھانچے کے تحت‘ بروئے عمل لائیں۔ چین‘ جس تیز رفتاری سے پورے خطے میں ترقیاتی منصوبے‘ مکمل کرنا چاہتا ہے‘ اس کے لئے جلد از جلد امن کا قیام بے حد ضروری ہے۔ یہی ترقیاتی منصوبے‘ ان دونوں ملکوں میں بڑے پیمانے پر روزگار کے وسائل مہیا کریں گے۔ اقتصادی استحکام میں دہشت گردی کے رجحانات بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved