جو ہوا ہے‘ وہ تو ہونا تھا۔
اگر ہمیں خبر نہیں تھی تو پھر قصور اپنا ہی سمجھیں ۔ جب ہم نے قاتلوں کے حمایتیوں کو یہ موقع دیا کہ وہ ٹی وی اور اخباری کالموں میں اپنے ''ناراض بھائیوں‘‘ کے مظالم کا جواز پیش کریں جو اب تک پچاس ہزار بے گناہ لوگوں کا خون بہا چکے تھے، تو پھر آج یہ رونا کیوں؟ جنہوں نے صوفی محمدکا دفاع کیا وہ آج کیوں روتے ہیں؟ جو پارلیمنٹ صوفی محمد اور مسلم خان کی دھمکی سے ڈر کر نظام عدل کے نام پر مالاکنڈ میں ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم کرنے پر تیار ہوئی، اس کے نمائندے آج کیوں آنسو بہاتے ہیں؟ جب شیری رحمن کہتی ہیں کہ طالبان کے اعمال کا جواز پیش کرنیو الے ان بچوں کے قاتل ہیں تو وہ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ اس طرح کا جواز پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور اے این پی نے مل کر قومی اسمبلی میں بھی پیش کیا تھا۔ تب کیا شیری رحمن نے جرأت دکھائی تھی؟ نہیں جناب نہیں ۔ ایم کیو ایم اکیلی جماعت تھی جس نے اصرار کیا تھا کہ مت سرنڈر کریں ۔ دوسری آواز چکوال کے بہادر سپوت ایاز امیر کی تھی کہ ریاست غلط کام کرنے جارہی ہے۔ اس دن ہمارے اخبارات نے فرنٹ پیج پر نمایاں سرخیاں شائع کی تھیں کہ مسلم خان کا کہنا ہے جس ممبر نے مخالفت کی اسے نہیں چھوڑا جائے گا ۔
اور پھر سب نے دیکھا پوری پارلیمنٹ دھڑام سے نیچے آگری۔
آج وہ سیاسی مفادپرست پشاور میں والدین کے آنسو پوچھنے گئے ہیں ۔ جنرل مشرف نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔ اس نے بھی طالبان کے گاڈفادرز کو خیبر پختون خوا کا وزیراعلیٰ بنایا اور طالبان کو کھلی چھٹی دی کہ وہ جو چاہیں صوبے میں کرتے رہیں۔ طالبان کے سب سے بڑے حامی مولانا فضل الرحمن کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنایا تاکہ وہ اسے ووٹ دے کر اقتدار میں زندہ رکھیں ۔ سب تنخواہیں عوام سے لیتے رہے اور وکالت طالبان کی کرتے رہے۔ مولانا فضل الرحمن کتے تک کو شہید اور منور حسن ملک کے مسائل کا حل عوام کے قتال میں تلاش کرتے رہے... آج وہ قتال شروع ہوگیا۔
ہمارا میڈیا سب کچھ دکھاتا اور سناتا رہا ۔ جس دہشت گرد نے بموں سے بندے اڑائے‘ اسے بھی ٹی وی پر اینکرز نے فون پر لیا کہ وہ تفصیل سے بیان کرے کیسے اور کیوں مارا گیا ۔ جاتے جاتے شکریہ بھی ادا کیا گیا کہ آپ نے وقت نکال کر ہمارے ساتھ بات کی اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہوتی رہے گی ۔
ان مشہور کالم نگاروں اور صحافیوں کے نام ہم بھول گئے ہیں جو اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد والے گھر سے ملے تھے جو اسامہ کے خیال میں القاعدہ کے خیالات کے حامی تھے اور ان کو القاعدہ اور طالبان کو اپنے پریس ریلیز بھیجنے چاہئیں۔ وہ اپنے کالموں اور ٹاک شوز میں جنہیں سناتے رہے۔ کسی دن آپ وہ نام گوگل کر کے پڑھ لیں تو آپ کے ہوش اڑ جائیں کہ کون کون سا کالم نگار طالبان کے لیے رائے عامہ ہموار کر رہے تھے۔ وہ آج اس ملک کے ممتاز کالم نگار اور صحافی ہیں اور اب وہی بیٹھ کر رونا بھی رو رہے ہیں ۔ یہ لوگ جب چاہیں طالبان کے ساتھ مل جائیں اور جب جی چاہیں یہ ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
کمال سنگدلی پائی ہے ان لکھاریوں نے بھی ۔
کل ہی چار امریکی صدور کے ایڈوائزر بروس ریڈل کی انکشافات سے بھرپور کتاب ختم کی ہے۔ کیا آپ وہ سب کچھ پڑھنا چاہیں گے؟ کہ ہم نے بربادی کا سفر کیسے طے کیا تھا یا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے جینا چاہتے ہیں؟
بروس ریڈل لکھتا ہے: ایک دن جنرل ضیاء نے کہا ''یہ ہمارا حق ہے کہ افغانستان میں ہماری مرضی کی حکومت ہو۔ ہم نے فرنٹ لائن کے طور پر خطرات مول لیے تھے اور ہم یہ کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان پہلے کی طرح ہوجائے اور وہاں پر بھارتی یا روسی اثرورسوخ ہو اور وہ ہمارے علاقوںپر دعویٰ کریں ۔ افغانستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگی جو اسلامی نشاۃ ثانیہ کو دوبارہ اجاگر کرے گی اور ایک دن ہم روس کی اسلامی ریاستوں کو بھی فتح کریں گے‘‘۔
اور پھر افغانستان اور روس کو فتح کرنے اور پوری دنیا کو مسلمان کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تبلیغ کی بجائے بموں اور دہشت گردی کا راستہ اپنایا گیا۔ ملک میں مذہبی مدرسوں کے قیام کے لیے کام شروع ہوا ۔ جنرل ضیاء نے مدرسوں سے پڑھے طلباء کی ڈگریاں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے برابر کر دیں۔ 1971ء میں مدرسوں کی تعداد 900 تھی جو 1988ء میں 8000 ہو چکی تھی جب کہ اس وقت غیر رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد پچیس ہزار بتائی گئی تھی۔ اب تو ان مدرسوں کی تعداد بھی گنتی سے آگے نکل گئی ہے۔ جنرل ضیاء دور کی آرمی کا پاکستانی معاشرے میں رول بڑھ گیا۔ ایوب خان کے دور میں فوجیوں کو زمینیں الاٹ کرنے کا کام شروع ہوا تھا، ضیاء نے مہنگی کمرشل جائیدادیں شہروں میں الاٹ کرنی شروع کیں اور جنرل مشرف نے جب بغاوت کی تو وہ اس وقت تک سب رئیل اسٹیٹ کے سب سے بڑے گروپ بن چکے تھے۔ افغانستان کے نام پر ہر ملک سے امداد لی گئی ۔ اسرائیل سے خچر تک منگوائے گئے۔ اس دوران امریکہ نے جہاں ڈالر دینے شروع کیے‘ وہیں اسلحہ بھی ملا۔ 1984ء تک سی آئی اے جنرل ضیاء کو سالانہ 250 ملین ڈالر فراہم کررہی تھی۔ 1988ء تک یہ امداد 400 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ جارجیا میں مونگ پھلی کے باغات کے تاجر امریکی صدر جمی کارٹر کے بعد جب ریگن صدر بنا تو اس نے ڈالروں کا منہ کھول دیا ۔ چار ارب ڈالروں کا ایک نیا پیکیج تیار کر کے پاکستان کو دیا گیا۔ ہم امریکہ سے ڈالر لیتے رہے مگر ہمیں اتنا پتہ نہ تھا کہ اس کی قیمت کیا ادا کرنی ہوگی۔
چالیس لاکھ افغانی مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا ۔ دنیا بھر سے عربی، تاجک، ازبک گوریلے لائے گئے اور پاکستان میں بسائے گئے۔ پاکستانی قبائلی لڑکیوں سے شادیاں کرائی گئیں ۔ افغان شہر افغانیوں سے خالی ہوگئے۔ صرف قندھار کی آبادی ڈھائی لاکھ سے کم ہوکر پچیس ہزار رہ گئی تھی ۔ یہ افغان پاکستان میں پھیلتے گئے اور خیبر پختون خوا، بلوچستان اور قبائلی علاقے ان افغانیوں کے ہاتھوں برباد ہوتے گئے جو اپنے ساتھ کلاشنکوف اور ہیروئن لائے تھے۔ ڈرگ ٹریفکنگ کلچر بن گئی۔ روسی اور افغانی ایجنسیوں نے بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے علاقوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا۔
پاکستان کے لہولہان ہونے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔
اس دوران جنرل ضیاء کی دوستی امریکی کانگریس مین چارلی ولسن سے ہوگئی۔ وہ اس کمیٹی کا ممبر تھا جو سی آئی اے کے خفیہ آپریشن کے لیے پیسوں کی منظوری دیتی تھی۔ چارلی نے چالیس کے قریب دورے کیے۔ اسی نے پاکستان کو اسرائیل سے خچر تک لے کر دیے۔
بروس ریڈل اپنی کتاب میں انکشاف کرتا ہے کہ جنرل ضیاء نے چارلی ولسن کو خفیہ طور پر پاکستان آرمی کے ''فیلڈ مارشل‘‘ کا درجہ دیا ہوا تھا۔ جس دن جنرل ضیاء کی موت ہوئی‘ اس دن چارلی ولسن پھوٹ پھوٹ کر رویا اور جنرل حمید گل کو بتایا تھا کہ وہ آج یتیم ہوگیا ہے۔ بروس ریڈل کے بقول‘ چارلی ولسن نے پاکستانی میں شادی کرنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا ۔ اس نے جنرل ضیاء کو قائل بھی کر لیا تھا کہ وہ خیبر پاس میں اپنی شادی توپوں اور گنوں کی گھن گرج میں عالیشان تقریب منعقد کرے گا جس میں دنیا بھر سے مہمانوں کو بلایا جائے گا۔ اسرائیل سے بھی مہمانوں نے آنا تھا؛ تاہم یہ شادی جنرل ضیاء کی موت کی وجہ سے نہ ہوسکی تھی ۔
اس دوران جب افغانستان میں ہماری ہی مذہبی جماعتوں کی مدد سے غریب بچوں کو مروایا جارہا تھا‘ تو اس وقت جنرل ضیاء اور جنرل اختر نے اپنے بچوں کوامریکہ بھیج دیا تھا ۔آج ان کے بچے ارب پتی ہیں۔ ایک دن صدر ریگن کے سپائی ماسٹر بل کیسی نے پاکستان کا دورہ کیا تو جنرل ضیاء نے اسے نقشہ دکھاتے ہوئے فخر سے بتایا کہ امریکنوں کو سمجھنا ہوگا اصل میدان جنگ پاکستان ہے۔
ہمارے فوجی اور سویلین دانشوروں نے ہمیں یقین دلا دیا تھا کہ ہم جو کچھ افغانستان میں کررہے تھے‘ وہ درست تھا، تو پھر جو کچھ آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے وہ کیسے غلط ہوسکتا ہے؟ اپنی مرضی سے جنگ شروع تو کی جاسکتی ہے لیکن اپنی مرضی سے ختم نہیں کی جاسکتی ۔ جنرل ضیاء کی فلاسفی کے پیروکار آج بھی اپنے کالموں، ٹی وی ٹاک شوز اور تبصروں میں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ افغانستان کی فتح کے بعد روس کی ریاستوں کو فتح کرنا ہے۔ جنرل ضیاء بے شک26 برس قبل فوت ہو گئے تھے لیکن ہم آج تک افغانستان فتح کررہے ہیں‘ اور اس دوران خود لہولہان ہو چکے ہیں۔ ہمارے ''اچھے طالبان‘‘ افغانستان میں جنرل ضیاء کے خواب کی تکمیل کررہے ہیں‘ چاہے وہاں وہ بے قصور افغان عورتوں، بچوں اور عام لوگوں کو ہی کیوں نہ ماریں۔
آج جنرل ضیاء کی صدر ریگن کے سپائی ماسٹر بل کیسی کو کہی گئی بات سچی نکلی ہے۔ پاکستان ہی اصل میدان جنگ تھا۔ جنرل ضیاء کے اس خونی خواب کی تعبیر ڈھونڈتے ڈھونڈتے پہلے پاکستانی معاشرہ تباہ ہوا، پھر پچاس ہزار بے قصور پاکستانی مارے گئے اور آج 140 بچے گولیوں سے چھلنی ہوئے اور وہ بموں کے ان گنت ٹکڑے اپنی معصوم چھاتیوں پر سجائے قبروں میں جا لیٹے ہیں...!