اللہ تعالیٰ انسان کو انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں سطحوں پر سدھار اور تلافی کے مواقع مہیا کرتا ہے اور خوش قسمت وہی ہوتے ہیں جو ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے معاملات کو درست کر لیتے اور مزید نقصان سے بچ جاتے ہیں۔ پشاور کے سانحۂ عظیم کے ہوش ربا صدمے نے قوم کو نئے سرے سے نہ صرف دشمن کے خلاف متحد کردیا ہے بلکہ اپنے بعض پیچیدہ اور نازک مسائل سے نپنٹے کا بھی ایک راستہ کھول دیا ہے‘ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ ع
خدا شرّے بر انگیزد کہ خیرِ ما درآں باشد
غم کا یہ اتنا بڑا پہاڑ تھا کہ اب مزید کسی ابتری کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ عمران خان کے دھرنا ختم کرنے کے عمل نے جہاں ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کیا ہے‘ حالانکہ ان کے کارکن اس فیصلے پر بے اختیار روتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں بلکہ حکومت کے لیے ایک ایسی فضا بھی پیدا کردی ہے کہ آپسی تنازعات و معاملات کو ایک بہت بہتر ماحول میں خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر لیا جائے ورنہ بعض وزرائے کرام کی شعلہ بیانیاں اگر جاری رہتیں تو مذاکرات کی کامیابی کوئی معجزہ ہی ہو سکتا تھا۔ جبکہ وزیراعظم نے بھی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے لوگوں کو دھرنے کے موضوع پر بات کرنے سے روک دیا ہے۔ مبادا یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ خود حکومت کے بقول اب تک دھرنے کی وجہ سے ملکی معیشت کو زبردست دھچکا لگا ہے اور اربوں کا نقصان پہنچ چکا ہے اور اس نقصان کو یہیں پر روک لینا اب حکومتی رویے پر ہی منحصر ہے کہ وہ اس تنازعہ کے حل میں کس قدر سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں اس کی کارگزاری کیا رہتی ہے کیونکہ عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ اگر معاملات حل نہ ہوئے تو وہ پھر دھرنے پر آ بیٹھیں گے۔ اب یہ تو پورے پاکستان کو معلوم ہے کہ انتخابات میں شدید اور منظم دھاندلی روا رکھی گئی‘ صرف اس کی تصدیق ہونا باقی ہے جس کے ڈر سے اب تک اس ضمن میں کسی طرح کی پیش رفت سے پہلو تہی کا ارتکاب کیا جاتا رہا۔ اس لیے حکومت جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا ختم کرنے پر نہ صرف مطمئن ہو گئی تھی بلکہ اپنے رویے میں مزید سختی کا مظاہرہ کرنے لگی تھی‘ امید ہے کہ اب یہ غلطی نہیں دہرائی جائے گی۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اگر اب بھی عمران خان کے جائز مطالبات سے اغماض برتا جاتا ہے تو یہ طوفان ایک نئی طاقت اور شدت کے ساتھ ابھرے گا کیونکہ حکومت اپنا اخلاقی جواز مزید کھو دے گی اور اس کے پاس بچائو کا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا جبکہ لوگوں میں ایک نیا اشتعال پیدا ہو جانا ایک یقینی بات ہوگی اور جس مالی نقصان کی دہائی دی جاتی رہی ہے‘ اس میں کئی گنا اضافہ ہونے کا مزید خطرہ پیدا ہوگا۔ حکومت کا یہ نعرہ بھی کھوکھلا ہو کر رہ جائے گا کہ دھرنوں سے حکومت کا نہیں‘ ملک کا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ یہ بات بھی سب کے علم میں آ جائے گی کہ اس نقصان میں حکومتی کردار کا تناسب کیا ہے۔
اور‘ یہ جو سپیکر صاحب کے حلقے سے متعلقہ تھیلے کھلنا شروع ہو گئے ہیں تو سارا بھید اسی سے کھل جائے گا اور باقی حلقوں کے تھیلے کھولنے کی شاید نوبت ہی نہ آئے‘ لیکن حکومت سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ اس اشارے کو کافی سمجھے گی کیونکہ مچھلی پتھر چاٹ کر ہی پیچھے ہٹتی ہے؛ چنانچہ اگر حکومت اپنے سپیکر اور دوچار وزراء سے محروم بھی ہو جاتی ہے اور سارا الیکشن دھاندلی زدہ ہونے سے بچ جاتا ہے تو بھی حکومت کو اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ بصورت دیگر اُسے کسی اس سے بھی بڑے نقصان کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
تاہم اس سب کچھ کا انحصار اس پر ہے کہ وزیراعظم کا آئندہ طرزِ عمل محض ان کی کچن کیبنٹ کے مشوروں پر منحصر ہوگا یا اس میں کسی اجتماعی شعور کا عمل دخل بھی ہوگا کیونکہ حالات کی نوبت جہاں تک پہنچ چکی ہے، اس کے بارے میں بھی اطلاعات یہی ہیں کہ سارا کچھ انہی چند چہیتوں ہی کے فیصلوں کے تحت ہوتا ہے جبکہ پارلیمنٹ چھوڑ‘ کابینہ کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی‘ کسی معاملے میں پارٹی کو بھی ملوث کرنا تو بہت دور کی بات ہے کیونکہ پارٹی کا وجود صرف کاغذات پر ہی موجود چلا آتا ہے کہ یہ ایک آئینی ضرورت اور پابندی ہے ورنہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کو بادشاہت کا طعنہ نہ سننا پڑتا۔
اب اس میں تو کوئی شک و شبہ ہے ہی نہیں کہ عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے خاص طور پر ارکان اسمبلی کی حد تک ''بادشاہی‘‘ رویے میں قابلِ ذکر تبدیلی آئی ہے اور اب نہ صرف انہیں شرفِ ملاقات بخشا جا رہا ہے بلکہ ان کے مسائل اور ضروریات سے بھی آگاہی حاصل کی جاتی ہے۔ کابینہ کے اجلاس بھی ہونے لگے ہیں جبکہ اب تک صاحبِ موصوف سینیٹ میں تو ایک بار بھی جلوہ افروز نہیں ہوئے تھے بلکہ اب تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس تک بھی نوبت پہنچ چکی تھی اور یہ بھی کسے معلوم نہیں کہ اپوزیشن کا صحیح کردار بھی عمران خان ہی ادا کر رہے تھے جبکہ لیڈر آف دی اپوزیشن تو وزیراعظم کی حفاظت ہی کا علم بلند کیے ہوئے تھے۔
اور‘ اب جبکہ عمران کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سید خورشید شاہ بھی اس طرح کے بیانات دینے لگے ہیں کہ وزیراعظم کو اپنے سپیکر اور چند وزراء کی قربانی دے کر اپنی حکومت اور جمہوریت کو بچا لینا چاہیے تو حکومت کا اس پر کان دھرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ عمران خان کے حوالے سے جیسی ہوا چل پڑی ہے‘ سیاسی برادری نے اب کھلم کھلا اس کا نوٹس لینا شروع کردیا ہے ۔ عمران خان کے جلسوں نے صورت حال کو مکمل طور پر واضح کردیا ہے‘ اور دوسری جماعتوں کے اندر وزیراعظم کو بچانے کے لیے وہ اگلا سا والہانہ پن نہیں پایا جاتا اور حکومت خود بھی اس سے بے خبر نہیں ہے کیونکہ پُلوں کے نیچے سے اس دوران کافی پانی گزر چکا ہے۔
چنانچہ حکومت کے پاس اب حقیقت پسندی ہی کا راستہ باقی رہ گیا ہے جس سے وہ جتنی بھی چشم پوشی کرے گی اس کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے اتنا ہی نقصان رساں ثابت ہوگا۔ اور‘ صاحبِ موصوف کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘‘ دوبارہ سچ ثابت نہیں ہوگا۔
آج کا مقطع
الجھن ہے ظفرؔ یہ بھی کوئی اور طرح کی
آپس ہی میں الجھی ہوئی اشیاء سے الجھنا