غیرمتوقع حادثوں اور المیوں کے نتیجے میں افراد اور جماعتوں کے مابین تعلقات میں جو اچانک تبدیلی آتی ہے‘ دیرپا نہیں ہوتی۔ صدموں کے اثرات ‘ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یادوں کی گہرائیوں میں ڈوبتے جاتے ہیں۔ جو جذبات اور خیالات خارجی اثرات کے تحت دب جاتے ہیں‘ دوبارہ اپنے اپنے مقام پر پہنچ کرحرکت میں آ جاتے ہیں اور پرانی کیفیت بحال ہو جاتی ہے۔ دانشمندی اسی میں ہوتی ہے کہ اچانک حادثوں کے دبائو میں آ کر‘ تعصبات کی عارضی فراموشی کا جو موقع ملتا ہے‘ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ دوررس فیصلے کر لئے جائیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں حزب اقتداراور حزب اختلاف کے دو ہی فریق ہیں۔ نوازشریف اور عمران خان۔ باقی سیاسی رِنگ کے سارے کھلاڑی‘ نوازشریف کے حامی یا کاسہ لیس ہیں۔ عمران خان تن تنہا واحد اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے سامنے آ کر کھڑے ہو چکے ہیں۔ ساری کی ساری اپوزیشن‘ جو ماضی میں نوازشریف یا پیپلزپارٹی کے خلاف انتخابات لڑتی رہی ہے‘ اپنی ماضی کی شناختیں گم کر کے‘ نوازشریف کے کیمپ میں آ چکی ہے۔ اب اس کے سارے گروہ جس شکل میں بھی سامنے آئیں گے‘ اپوزیشن کا مقام حاصل نہیں کر سکیں گے۔ آئندہ انتخابات‘ صرف دو پارٹیوں کے درمیان ہوں گے۔ نوازشریف کی مسلم لیگ اور عمران خان کی تحریک انصاف۔ اگر ہم اس سیاسی تقسیم کو‘ جو حقیقت میں وجود پذیر ہو چکی ہے‘تسلیم کر لیں‘ خصوصاً نوازشریف اور عمران خان‘ تو آنے والے دنوں میں پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں اور ملک بھی‘ مفادات پر مبنی کش مکش اقتدار سے کافی عرصے تک محفوظ ہو سکتا ہے۔ عمران خان اور نوازشریف‘ دونوں کے لئے بہتر یہی ہو گا کہ وہ ایک عظیم سانحے کے نتیجے میں حاصل شدہ وقت کا فائدہ اٹھائیں اور بلاتاخیر باہمی مذاکرات شروع کر دیں۔ ان مذاکرات میں ‘ انہیں اپنی سیاسی ٹیموں کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں۔ آج کے لمحے میں صرف یہی دونوں ہاتھی ہیں۔ باقی سب کے پائو ں‘ ان دونوں ہاتھیوں کے پائوں میں سما جائیں گے۔
ان دونوں لیڈروں کا مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ دونوں کا صرف یہ ہے کہ وہ معاشرے اور معیشت کو اپنی اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ جو فلسفہ‘ نظریہ‘ آدرش اور فارمولا‘ رائج الوقت نظریاتی تقسیم میں تلاش کیا جائے گا‘ وہ محض فنی اور کتابی بحث کی حیثیت میں ہی رہے گا۔ ان دونوں کے پاس ایسا کوئی نظریہ نہیں‘ جو دنیا میں آزمائے گئے یا زیرعمل سیاسی یا عمرانی نظریات میں سے‘ کسی ایک کی تعریف میں سمٹ آئے۔ ان کے اپنے خیالات ہیں۔ جن کو علم جھاڑنے کا زیادہ شوق ہو‘ وہ ان کی سیاست کو جس نظریے کا نام چاہیں دے دیں۔ میں نے دونوں لیڈروں کے ساتھ کام کیا ہے‘ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف۔ میں دونوں کے نظریات کی تشریح کرتا رہاہوں۔ ان کے لئے مروجہ اصطلاحوں کا بھی ڈٹ کر استعمال کیا۔ مگر سچ یہ ہے کہ بھٹو صاحب کا نظریہ وہی تھا‘ جو ان کے خیال میں ‘ ان کے اقتدار کے لئے موزوں تھا اور یہی معاملہ نوازشریف کے ساتھ ہے۔ نوازشریف آزمائے جا چکے ہیں۔ وہ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں بے نظیربھٹو کہا کرتی تھیں کہ ''بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں بڑے بڑے کمیشن ملتے ہیں۔‘‘ وہ کہا کرتی تھیں کہ ''ہم غریبوں کی تنخواہیں بڑھاتے ہیں۔ انہیں روزگار دیتے ہیں۔ ان کے لئے فلاحی کام کرتے ہیں۔ ان کاموں میں اہلکار کرپشن کر جائیں تو کر جائیں‘ پالیسی سازوں کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ یہ اور بات ہے کہ بی بی شہید نے بھی‘ اپنے دوسرے فارمولے میں حسب ضرورت ردوبدل کر ہی لیا تھا۔ جہاں تک عمران خان کا سوال ہے‘ وہ ابھی تک ایک ثابت خربوزے کی طرح ہیں۔ جب تک اقتدار کی چھری اس خربوزے کے اندر کا ذائقہ چکھنے کا موقع نہیں دیتی‘ کوئی نہیں جان سکتا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کیسے نکلیںگے؟ نوازشریف نے اپنے حالیہ ڈیڑھ سالہ دوراقتدار میں عدم کارکردگی کے جو ریکارڈ قائم کئے ہیں‘ ان کی وجہ سے عوام کے اندر کافی مایوسی پیدا ہوئی ہے اور اس مایوسی کو عمران خان امید میں بدلنے کے موقعے سے پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ گئی کہ دونوں کی منزل کرسی ہے۔ دونوں ہی اپنی اپنی ذاتی حیثیت میں حکمرانی کا ذائقہ چکھ چکے
ہیں۔ نوازشریف ایک صنعتکار کی حیثیت میں اپنے اداروں پر جیسے چاہتے تھے حکم چلایا کرتے تھے اور عمران خان کپتان کی حیثیت میں اپنے احکامات منوایا کرتے تھے۔ ابتدائی درجے کی حکمرانی کا مزہ چکھنے کے بعد ہر کسی کے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ وہ حکمرانی کے اعلیٰ ترین درجے تک کیوں نہیں پہنچ سکتا؟ کوئی سیاستدان کسی بھی حیثیت میں ہو‘ اپنی ذاتی رائے میں‘ وہ خود ہی اعلیٰ سطح کی قیادت کا اہل ہوتا ہے۔ اگر سیاست کے ذریعے بلند ترین کرسی تک پہنچنا ہو‘ تو عوام کی مرضی کو دیکھنا پڑتا ہے اور اگر کوئی آمر آ کر بیٹھ جائے‘ تو وہ اپنے نائب کا کوئی بھی نام رکھے‘ اس وقت پوزیشن حاصل کرنے کے خواہش مندوں کا شمار کر کے‘ بہت لطف آتا ہے۔ مجھے جب بھی کسی فوجی آمر کی حکومت سازی دیکھنے کا موقع ملا‘ وزارت عظمیٰ کے ایسے ایسے امیدوار دیکھنے میں آئے‘ جن کا نام کبھی میرے ذہن میں بھی نہیں آیا تھا۔ اچانک جب اس طرح کا کوئی شخص وزارت عظمیٰ کا امیدوار بن کر سامنے آیا‘ تو میں حیرت سے یہی کہہ سکا ''ارے! تم بھی؟‘‘ سیاستدانوں میں حکومت سازی کا سب سے زیادہ تجربہ نوازشریف کو ہے‘ جبکہ عمران خان کے تمام قابل ذکر ساتھی‘ اسی خیال میں ہیں کہ وزارت عظمیٰ کے لئے وہ عمران خان سے زیادہ اہل اور تجربہ کار ہیں۔ کوئی بھی ایسا سینئر سیاستدان جو تحریک انصاف میں بیٹھا ہے‘ اسے ٹٹول کے دیکھئے‘ تو اندر سے تروتازہ اور بے تاب وزارت عظمیٰ کا امیدوار نکلے گا۔ وہ سینئر سیاستدان جو ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان میں اتحاد کے لئے کوشاں رہتے تھے‘ ایک دن انہوں نے اپنی پریشانی بتائی ''عجیب مشکل ہے۔ میں تو وزیراعظموں کو سنبھالتے سنبھالتے تھک چکا ہوں۔ ایک وزیراعظم کو مطمئن کرتا ہوں‘ تو دوسرا بے چین ہو جاتا ہے۔ دوسرے کو مطمئن کرتا ہوں‘ تو مزید کئی پریشان ہو جاتے ہیں۔‘‘ یہ بات چوہدری شجاعت حسین نے نہیں کہی‘ باقی آپ کسی کا نام بھی اپنے ذہن میں لا سکتے ہیں۔
سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے‘ اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ نوازشریف حکمرانی کا بہت تجربہ کر چکے۔ استفادہ بھی‘ جتنا چاہا کر لیا۔ اب اگر وہ اپنے لئے صرف یہ فیصلہ کر لیں کہ پاکستانی سیاست میں آئندہ حقیقی جمہوری روایات قائم کر لی جائیں‘ تو ہم اپنے ملک کی ان گنت اور بے بہا نعمتیں دریافت کر کے‘ ایک مضبوط ملک کی بنیادیں کھڑی کر سکتے ہیں۔ تو اس میں دونوں کا فائدہ اور سب کا بھلا ہے۔اس کا واحد نسخہ جمہوریت کا بہترین شکل میں عمل پذیر ہونا ہے۔ عوامی احتساب کا راستہ ہر وقت کھلا رکھنا چاہیے اور کسی بھی سرکاری منصب پر فائز شخص کو‘ عوامی احتساب سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ ہر ایک حساب لینے والا ہو اور ہر کوئی حساب دینے کا پابند ہو۔ اس کے باوجود کوئی ڈنڈی مار جائے‘ تو اس کی قسمت۔ ہرنظام میں تھوڑے بہت استثنیٰ کی گنجائشیں رکھنا پڑتی ہیں۔ اگر نوازشریف اور عمران آپس میں بیٹھ کر طے کر لیں کہ آئندہ ہم دونوں اپنے ملک کو منصفانہ اور شفاف انتخابات دینے میں‘ مخلصانہ تعاون کریں گے‘ تو سمجھ لیں کہ سمجھوتہ ہو گیا۔ باقی تمام رکاوٹیں انا کی پیدا کردہ ہیں۔عمران خان کوگزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے قصے بھول کر انہیںکالعدم قرار دینے اور ازسرنو انتخابات کرانے کا مطالبہ چھوڑ دینا چاہیے۔ نوازشریف یہ بات کبھی نہیں مانیں گے کہ وہ غیرقانونی اور غیرآئینی وزیراعظم ہیں۔لیکن اگر انہیں اس پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ معقول عذر تلاش کر کے‘ قبل ازوقت انتخابات کا آبرومندانہ راستہ خود ہی تلاش کر لیں‘ تو عمران خان کو انہیں یہ راستہ فراہم کر دینا چاہیے۔ بطور وزیراعظم نوازشریف کو ہر وقت یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی لمحے‘ کسی بھی وجہ سے نیا مینڈیٹ لینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جاپان اور کئی جمہوری ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘ جہاں وزیراعظم کسی بھی وجہ سے فوری انتخابات کا اعلان کر سکتا ہے۔ اس طرح کسی پر الزام نہیں آتا۔ کسی پر تہمت نہیں لگتی۔ کسی کی انا کو ٹھیس نہیں پہنچتی۔ عوام کو دوبارہ فیصلہ دینے کا موقع مل جاتا ہے اور لیڈروں کو نیا مینڈیٹ لے کر‘ نئی اخلاقی اور قانونی طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔ خطے میں سکیورٹی کا جو نیا ماحول پیدا ہوا ہے‘ اس میں حکومت کو واقعی نیا عوامی مینڈیٹ لینے کی ضرورت ہے۔ نوازشریف سکیورٹی کی صورتحال کی بنا پر پوری طرح حکومت نہیں کر پا رہے اور حکومتی اختیارات جس طرح سے مختلف مراکز میں منتقل ہو رہے ہیں‘ اس کی آئین میں گنجائش نہیں۔ نیا مینڈیٹ یہ جھگڑے ختم کر دے گا۔ دونوں امیدوار اپنی اپنی واضح خارجہ اور مالیاتی پالیسیاں عوام کے سامنے پیش کر کے‘ مینڈیٹ لیں اور پھر دھڑلے سے ان کے مطابق پوری اتھارٹی کے ساتھ فیصلے کریں۔ موجودہ پارلیمنٹ اپنا وقار کھو چکی ہے۔ اس
کے مشترکہ اجلاس کے فیصلے بھی اب کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ دوبارہ انتخابات کی ضرورت بہرحال آ چکی ہے۔ تبدیلی اپنا راستہ مانگ رہی ہے۔ اسے خود راستہ فراہم کر دیا جائے‘ تو سب خوش رہیں گے اور اگر اس نے زبردستی راستہ بنایا‘ تو راستہ روکنے والے بھی خسارے میں رہیں گے اور راستہ بنانے والے بھی اپنا سب کچھ گنوا بیٹھیں گے۔تجربہ یہ ہے کہ منتخب حکمران‘ عوامی تائیدوحمایت سے محروم ہو کر زبردستی اقتدار پر فائز نہیں رہ سکتا۔یہ طاقت صرف فوجی حکمران کو ملتی ہے۔ منتخب حکمران کو نہیں۔ کمزور منتخب حکمران‘ طاقت کے دوسرے مراکز کو ناجائز خواہشوں کی طرف دھکیل دیتا ہے اور اگر عوام کی طرف رجوع کر لیا جائے‘ تو ناجائز خواہشیں رکھنے والوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔