تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     20-12-2014

ایک ہی ذہنیت کار فرما ہے!

پشاور کے ایک ہائی سکول پر طا لبان کا خونریز حملہ‘ جس میں زیادہ تر بچوں سمیت 145 افراد شہید ہوئے بظاہر شمالی وزیرستان میں دہشت کاروں کے خلاف حالیہ فوجی کارروائی کا ردعمل لگتا ہے مگر اس نے قوم کو متحد کر دیا ہے۔تحریکِ انصاف کے لیڈر عمران خان نے‘ جو جمعرات کو ''ملک بند‘‘ کرنے والے تھے‘ اپنا احتجاج ملتوی کیا اور پشاور میں پارلیمانی پارٹیوں کے ایک اجلاس میں شریک ہوئے جو وزیر اعظم نواز شریف نے بلایا تھا۔ اجلاس کے بعد آرمی چیف راحیل شریف کابل روانہ ہوگئے۔افغان دارالحکومت سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ‘ عجلت میں منظم کی گئی اس میٹنگ میں صدر اشرف غنی‘ جنرل راحیل شریف اور افغانستان میں اتحادی فوجوں کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایف کمپبل شریک ہوئے۔میٹنگ کے بعد صدر غنی نے بیان دیا: ''وقت آگیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان دہشت گردی سے مقابلے میں موثر اور دیانتدارانہ کارروائی کریں۔‘‘ انہوں نے پاکستان پر حملے کو افغانستان او ر ہر جگہ مسلمانوں پر حملہ قرار دیا: ''حملہ آور وہی ہیں جنہوں نے گزشتہ مہینے پکتیا میں ایک والی بال میچ پر ہلہ بول کر پینتالیس افراد کو مار ڈالا تھا۔‘‘
جنرل راحیل شریف نے‘ جو حملہ آوروں کے محل وقوع کا ثبوت ساتھ لے کر گئے تھے‘ رجائیت ظا ہر کی کہ صدر غنی اور امریکی اتحاد دونوں ان پاکستانی طالبان لیڈروں کو نشانہ بنانے میں مدد کریں گے جو افغانستان میں چھپے بیٹھے ہیں۔ ایک فوجی بیان ظاہر کرتا ہے کہ جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھیوں نے پشاور حملے کے بارے میں '' اہم خفیہ معلومات‘‘ افغان لیڈر کو دیں‘ جنہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی سرزمیں کو دہشت گردی میں استعمال ہونے سے روکیں گے۔ان اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر حامد کرزئی‘ ریٹائرڈ جنرل عتیق اللہ عامر خیل اور کئی دوسرے افغان ‘ پاکستان کے مقاصد کے بارے میں متشکک تھے۔
جون میں جب دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوئی تو ایسا لگتا تھا کہ قوم میانہ روی اور انتہا پسندی میں بٹی ہوئی ہے اور حکومت ‘ طوعاً و کرہاً فوج کے پیچھے چل رہی ہے مگر طالبان نے حملہ کرکے نہ صرف اپنے آپ کو دنیا میں تنہا کیا بلکہ پاکستانیوں کو بھی اس نکتے پر یکجا کر دیا کہ انہیں یہ جنگ مل کر لڑنی اور جیتنی ہے۔ بھارت میں سکول کے بچوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی اپیل پر نہ صرف دو منٹ کی خاموشی اختیار کی بلکہ منہ پر سیاہ پٹیاں باندھیں اور شام ہونے پر پاکستانی بچوں کی یاد میں شمعیں بھی روشن کیں۔ ملالہ یوسف زئی نے لندن سے ایک بیان جاری کیا جس میں پوچھا گیا ہے کہ یہ لوگ بچوں کو پڑھنے کیوں نہیں دیتے ؟ انہی لوگوں کے ڈر سے پاکستان میں ملالہ کو نوبیل پرائز ملنے پر کوئی جشن نہیں منایا گیا۔
سالہا سال کی خود کش بم باری‘ بازاروں‘ ہوٹلوں اور فوجی چھاؤنیوں پر حملوں کے بعد طالبان حد سے آگے نکل گئے تھے۔ آرمی پبلک سکول پر اس حملے نے قوم اور حکومت کی ہچکچاہٹ دور کردی ہے۔ دسمبر 2009ء میں جی ایچ کیو کی مسجد پر جو حملہ ہوا اور جس میں تیس آدمی جاں بحق ہوئے‘ اس پر قوم کا رد عمل ملا جلا تھا اور حکومت کسی فوجی کارروائی میں متامل تھی۔اس سے پہلے 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی واپسی پر کراچی میں ان کے جلوس پر جو حملہ ہوا‘ اور جس میں ڈیڑھ سو افراد مارے گئے اس معاملے میں بھی حکومت الزام تراشی میں ہوشیار مگر عمل میں سست تھی۔پشاور کے اجلاس میں ایسی سستی دکھائی نہیں دی۔اس میں علاوہ دوسری باتوں کے سزا یافتہ دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔پا کستان میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی تعداد 8,500 کے لگ بھگ ہے جن میں نو سو سے زیادہ دہشت گردی کے مجرم ہیں۔2007ء سے کسی کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا گیا۔پاکستان میں کئی جیلیں توڑی گئیں اور دہشت کاروں کو رہا کرایا گیا۔جن قیدیوں نے دہشت گردی کے ارتکاب اور بے گناہ لوگوں کو جان سے مارنے کا اعتراف کیا تھا اور جن کی اپیلیں خارج ہو گئی تھیں انہیں قید رکھا گیا تھا۔ یہ غالباً اس دھمکی کا نتیجہ تھا جو دہشت پسندوں کے ساتھیوں نے حکمرانوں کو دی تھی مگر حکومت نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی آڑ لی جس میں موت کی سزا کی ممانعت کی گئی تھی اور جس پر یورپ میں عمل بھی ہو رہا ہے مگر امریکہ سمیت باقی دنیا نے اسے رد کر دیا ہے۔ کسی قیدی کو معاشرے کے نام پر موت کے گھاٹ اتا را جاتا ہے اور جب کوئی معاشرہ ایسی انتہا پسندی کے لئے تیار نہ ہو تو انتہائی سزا نہیں دی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اب ایسی سزا دنیے کے لئے تیار ہے۔ 
اگر پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی میں امتیاز روا رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی تو چند ماہ میں ضرب عضب کے دباؤ میں معدوم ہو جائے گی اور اجڑے ہوئے لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے مگر انتہا پسندی کے استیصال میں وقت لگے گا جیسا کہ امریکہ اور یورپ میں ہوا۔ پولیس اور فوج پر حملوں کے بعد اب سکول پر دہشت کاروں کی یلغار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف نرم ( سافٹ) نشانوں کی تلاش میں ہیں مگر ان کے بروقت پکڑے نہ جانے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کا ٹوٹا پھوٹا نیٹ ورک اب بھی قائم ہے۔ 
پشاور سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق‘ دسویں جماعت تک کے طلبا پر حملے کی منصوبہ بندی‘ افغانستان میں کی گئی اور اس میں طالبان کے علاوہ کوئی نصف درجن تنظیموں نے حصہ لیا۔بد قسمتی سے ان میں کچھ کے نام کے ساتھ ''اسلام‘‘ جڑا ہوا ہے حالانکہ بچوں پر حملے کی اجازت اسلام کیا کوئی بھی مذہب نہیں دیتا۔وہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔وہ سب ایک ہی ذہنیت کے نام ہیں جو اپنے آپ کو راہ حق پر سمجھتے ہیں اور قبا ئلی علاقے کے ایک قطعہ کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بقول صدر اوباما ایک ''نفرت انگیز‘‘ کام تھا جو طالبان کی '' بد تہذیبی‘‘کا پتہ دیتا ہے۔ سات حملہ آوروں نے اپنی گاڑیاں جلا دی تھیں۔ان میں سے بعض خود کش جیکٹیں ساتھ لائے تھے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو ہلاک کرنے کے در پے تھے۔ وزیراعظم نواز شریف‘ جو اٹھارہ ماہ پہلے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے‘ کہہ رہے تھے ''اپنے بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ قبائلی علاقوں میں خون کا بدلہ خون ہے‘ اور جنرل راحیل شریف نے کہا: ''اس وبا سے نبٹنے کے عزم کو نئی زندگی ملی ہے‘‘۔
جنرل راحیل شریف گزشتہ ماہ تقریباً ایک ہفتہ امریکہ میں ٹھہرے‘ جو کسی بھی پاکستانی آرمی چیف کا طویل ترین دورہ تھا۔اس دوران ‘انتہا پسندی اور دہشت گردی کا صفایا کرنے کا عزم باندھنے پر وائٹ ہاؤس اور کانگرس نے ان کی تعریف کی۔ جنرل راحیل شریف نے افغان طالبان کی ان تنظیموں کے خلاف اپنے پیشروئوں سے زیادہ معروضیت کے ساتھ اقدام کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ حقانی گروپ کو پہلی بار گولی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور حال ہی میں ایک اعلیٰ افغان کمانڈر نے کا بل میں کہا کہ گروپ کے بخیے ادھڑ گئے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری سے صدر اشرف غنی کی حکومت سے ان کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ طالبان کئی سال تک ان تین ملکوں کے ناسوروں پر پلتے رہے ہیں۔اب بالآخر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ تینوں حکومتوں کا تعا ون‘ انتہا پسندوں پر زیادہ اثر ڈالے گا۔پشاور کا سانحہ ‘ پاکستانی لیڈروں پر ایسے دباؤ ڈالے گا جو ملک کے موثردفاع کے لئے ضروری ہیں۔وزیر اعظم اور آرمی چیف کے مابین گہرا تعاون ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نوازشریف ‘ دہشت گردی کے توڑ کی ایک نئی ہیئت حاکمہ کو مضبوط تر کریں اور فوج کو اس میں شامل کریں۔جنرل راحیل شریف بلاامتیاز تمام انتہا پسند تنظیموں کے خلاف قدم اٹھا کر ان وعدوں کا پاس کریں جو وہ واشنگٹن میں کرکے گئے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved