گولیوں نے میرا سینہ ادھیڑ کے رکھ دیا تھا۔ میرا بہت سا خون بہہ چکا تھا۔ میں اپنی کلاس کے ٹھنڈے فرش پر پڑا تھا۔ میرے سینے پر میر ا کلاس فیلو محمد علی گرا پڑا تھا۔ وہ شاید مر چکا تھا۔ میری ٹانگوں پر اشرف گرا ہوا تھا جس نے اب تڑپنا بند کر دیا تھا‘ شاید وہ بھی مرگیا تھا۔ میری آنکھیں بھی بند ہو رہی تھیں اور میں مرنے والا تھا۔ میرے ارد گرد میرے دوستوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ یہ میری کلاس ہے یا میری قبر، یہ میرا سکول ہے یا قبرستان؟ قبر کے بارے میں تو سن رکھا ہے کہ وہ بہت تنگ ہو گی۔ یہ میرا کلاس روم ہے جس کی دیواروں پر میرے کلاس فیلوز کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے چارٹ سجائے گئے تھے۔ ایک چارٹ پر لکھا تھا ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ دوسرے چارٹ پر آویزاں تھا ''شاد باد منزلِ مراد‘‘۔ رنگین چارٹس سے سجائی گئی دیواریں میرے کلاس فیلوز اور میری ٹیچر کے خون کے چھینٹوں سے بھی سُرخ تھیں۔ آتشیں اسلحہ بردار گولیاں برساتے ہوئے چیخ رہے تھے۔ انہیں ہم سے اتنی نفرت کیوں تھی۔ وہ ہمیں قتل کیوں کر رہے تھے۔ اسلحہ برداروں نے خود کش جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ انہوں نے دھماکے سے خود کو اڑایا تو نجانے کتنے معصوموں کے ننھے جسموں کے چیتھڑے بھی اڑ گئے۔ گولیوں اور بموں کے دھماکوں سے میرے کان بند ہو چکے تھے۔ نیم مردہ کلاس فیلوز کی آخری آوازیں سنتے ہوئے میں بھی مر گیا۔
پشاور آرمی سکول میں ننھے فرشتوں کے قتل عام کے سفاکانہ واقعہ سے یوں لگا جیسے میں بھی زندہ نہیں ہوں اور بچپن میں ہی مجھے میرے کلاس فیلوز کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔ پرائمری تک میں گجرانوالہ کے دو سکولوں میں زیر تعلیم رہا۔ اول پرانے ریلوے سٹیشن سے ملحقہ میاں بدرالدین پرائمری سکول اور دوم پولیس لائن پرائمری سکول۔ مجھے اپنے دونوں سکول اور کلاس فیلوز یاد آتے رہے۔ لڑکے اور لڑکیاں‘ دونوں میرے کلاس فیلوز تھے۔ مجھے ایک ایک کلاس فیلو یاد آرہا تھا، اشرف، نوازش موٹا، ندیم، آصف بٹ، افتخار عرف ہڈ حرام، سعید، حنیف اور نعمان بٹ چیکو کے علاوہ عذرا، شمیم، شگفتہ، روبینہ اور تانی۔ سب مجھے یونیفارم کے بجائے کفن اوڑھے دکھائی دے رہے تھے۔ ماں کی گود اور سکول دونوں ایک سے مقام ہیں‘ ان بچوں کی قسمت سے متعلق کیا کہیں جنہیں ماں کی گود سے موت گور میں لے گئی۔
سانحہ پشاور میں زندہ سلامت بچ جانے والے میٹرک کے سٹوڈنٹ مہتاب زیب نے اپنے چھوٹے بھائی کو موضع ڈگری مسلم میں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ مہتاب نے بتایا: 'ہماری جونیئر نویں کلاس کی طرف سے میٹرک کے سٹوڈنٹس کو الوداعی پارٹی دی جا رہی تھی، ہم سب انجوائے کر رہے تھے کہ اچانک دھماکے سے دروازے ٹوٹ گئے اور دہشت گرد اندر داخل ہوئے اور انہوں نے ہم پر وحشیانہ فائرنگ کر دی۔ تمام دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ تھا‘ جس سے وہ ہم پر آگ برسا رہے تھے‘۔ مہتاب نے روتے ہوئے بتایا: 'میرے کلاس فیلوز کے جسموں کے لوتھڑے میرے سامنے اڑ رہے تھے اور میں اس لئے زندہ رہا کہ اپنے دوستوں کی لاشوں کے نیچے دب گیا تھا‘۔
کہا جا رہا ہے کہ سانحہ پشاور اور ننھے پھولوں کی قربانی نے پاکستان کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ تاریکیوں سے اجالوں اور موت سے زندگی کی امیدیں لگانے والے نیک دل حضرات کا کہنا ہے کہ قومیں قربانیوں کی کٹھالی سے کندن بن کر نکلتی ہیں۔ خیبر پختونخوا وہ دھرتی ہے دہشت گردوں نے جس پر سب سے زیادہ مظالم ڈھائے، آفرین ہے یہاں کے لوگوں پر جن کے ارادوں کو موت بھی شکست نہیں دے پائی۔ مائیں اپنے بیٹوں کی لاشوں پر بین کرنے کی بجائے کہہ رہی ہیں: 'خدا ہمارے بیٹوں کی قربانی قبول کرے اور اس کے صدقے ہمارا ملک سلامت رہے‘۔ باپ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو گنوا کر ٹوٹنے کی بجائے پختہ عزم کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ آرمی چیف راحیل شریف‘ جو بیانات سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے ہیں‘ نے 6 دہشت گردوں کے ڈیٹھ ورانٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔ قاتلوں کو اگلے کسی بھی لمحے پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے گا۔ 120 دہشت گردوں کی رحم کی اپیلیں مسترد کر دی گئی ہیں۔ پہلے مرحلے میں جی ایچ کیو، کامرہ بیس، پشاور ایئرپورٹ اور دیگر تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو پھانسی دی جائے گی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 60 ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قربانی کے بعد بھی سفاک قاتلوں نے ننھے فرشتوں کو اپنے وحشی پن کا نشانہ بنایا‘ لیکن اب پاکستان بدل گیا ہے۔ ریاست پاکستان کا ہر ادارہ اور ہر شہری دہشت گردی کے خلاف آخری جنگ لڑنے کے لئے میدان میں نکل چکا ہے۔ سانحے کے اگلے روز ہی آرمی چیف نے اس جانب اڑان بھری جہاں اس قبیح واردات کے ڈانڈے ملتے تھے۔ انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ ایساف کے کمانڈر سے بھی فیصلہ کن ملاقات کی۔ آرمی چیف نے افغان صدر سے سانحہ پشاور کے ماسٹر مائنڈ ملا فضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ بتایا گیا ہے کہ افغان صدر کے حکم پر ملا کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور اسے پاتال سے بھی نکال کر عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان ناصرالملک نے کہا ہے کہ ملک بھر میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی سماعت کی رفتار تیز کرانے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں گے اور دہشت گردی کے مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جائے گا۔ سزائے موت پر قانون کے مطابق عمل ہو گا، اس ضمن میں چاروں صوبوں کی ہائیکورٹس کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے متعلق ایڈمنسٹریٹرز کا اجلاس بلا لیا گیا ہے تاکہ اس سلسلہ میں حکمت عملی طے کی جا سکے۔ وطن عزیز کا ماحول اس وقت کچھ اس طرح کا بن گیا ہے کہ ریاستی اداروں سمیت، حکومتی ذمہ داران، اپوزیشن، میڈیا اور عوام دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرنے کیلئے صدق دل سے کوشاں ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ کو امریکی ظالمانہ کارروائیوں
کا ردعمل قرار دینے والی روایتی آوازیں بھی دب گئی ہیں۔ یہ سنگدل ہر قسم کے ظلم کو امریکہ کے خلاف ردعمل کا نام دے کر دہشت گردوں کو بچ نکل جانے کا راستہ دکھاتے رہے لیکن ننھے فرشتوں کے سفاکانہ قتل عام کو دہشت گردی کے پائوں پر کلہاڑا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس روح فرسا واردات نے قوم کو اکٹھا کر دیا ہے۔
ملک کی سیاسی قیادت نے بھی درد دل کے ساتھ ذمہ دارانہ سیاسی روایات کا خیال رکھا ہے۔ اس مشکل گھڑی میں عمران خان نے دھرنا ختم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اس وقت ملک اپوزیشن کا متحمل نہیں ہو سکتا، ہم سب نے مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنی ہے‘ اس کے بعد ہم اپوزیشن کا کردار بھی نبھائیں گے‘‘۔ عمران کے اس رویے پر پوری قوم نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ایسا کرنے سے عمران کا سیاسی قد اور بھی اونچا ہو گیا ہے۔ حکومت سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل کو بھی صدق دل سے حل کرے گی۔
حساس اداروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کا اگلا نشانہ پنجاب خصوصاً لاہور ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی ایک پیچیدہ جنگ ہے‘ جس میں پہل دشمن نے کرنی ہوتی ہے۔ اس جنگ کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دشمن شکل و شباہت سے غیر دکھائی نہیں دیتا‘ جس وجہ سے اسے پہچاننے میں مشکل پیش آتی ہے۔ دشمن اپنا ہو یا بیگانہ‘ وہ باہر سے آکر کسی کو نشانہ نہیں بنا سکتا‘ جب تک کوئی اپنا اسے ''تھڑا ‘‘ (Facilitate) نہ کرے۔ ہمیں یہ جنگ لڑتے ہوئے بیگانوں کے ساتھ اپنوں پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی۔ پروردگار کے حضور دعا ہے کہ ننھے فرشتوں کی قربانی کے بعد ہمیں دہشت گردی کے اس عذاب سے نجات دلا۔ آمین!