کل آفتاب سکیٹنگ کر رہا تھا کہ دو فائر میں نے بھی نکال دیئے لیکن وہ گناہِ بے لذت ہی رہا کہ سامنے نہ تو کوئی پرندہ تھا نہ جانور۔ آفتاب تو امیر آدمی ہے‘ میں نے تو جوانی میں بھی بس واجبی واجبی ہی شکار کھیلا‘ زیادہ تا ایئر گن کے ساتھ‘ کیونکہ شاٹ گن کی نوبت تو کبھی کبھار ہی آتی تھی۔ شاٹ گن کا ایک لطیفہ یہ رہا کہ ایک بار میں گندم کے کھیت میں سے تیتر کی امید میں گزر رہا تھا کہ وہ پھڑپھڑا کر اُڑا۔ اس کے اُڑتے ہی میں نے اسے دھر لیا۔ نیچے آیا تو وہ تیتر نہیں‘ بٹیر تھا‘ لیکن کافی پلا ہوا۔ یعنی بظاہر بٹیر تھا لیکن وزن کے لحاظ سے کوئی نصف تیتر جتنا تھا‘ آپ اسے آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر بھی کہہ سکتے ہیں!
ایئر گن سے زیادہ معاملہ (امن کی) فاختائوں کے ساتھ ہی رہا۔ آغا نثار میرے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ آپ ڈاکٹر وزیر آغا کے بھتیجے تھے اور کسمپرسی کے عالم میں اوکاڑہ میں مقیم تھے۔ ٹی بی کے مریض تھے۔ دادا کی جائداد میں سے اپنے حصے سے بوجوہ محروم ہونے کی بنا پر ڈاکٹر صاحب نے ان کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جو بس گزارے لائق ہی تھا اور میری سفارش پر جس میں اضافہ بھی کردیا گیا تھا۔ بیمار تو رہتے ہی تھے۔ اوپر سے ان کا اکلوتا اور نوجوان بیٹا بیڈمنٹن کھیلتے ہوئے تھکاوٹ سے اس قدر نڈھال ہو گیا کہ کورٹ میں ہی گر کر انتقال کر گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ صدمہ ان کی برداشت سے باہر تھا‘ چنانچہ تھوڑے عرصے بعد خود بھی چل بسے۔
اس کے علاوہ تلیئروں پر بھی طبع آزمائی ہوتی رہی جو زیادہ تر بڑ اور پیپل کے درختوں پر ہی دستیاب ہوتے۔ یہ دو طرح کے ہوتے ہیں‘ یعنی تیتروں کی طرح‘ کالے اور بھورے۔ کالے تلیئر جھُنڈ کی صورت میں یا تو اڑتے ہوئے نظر آئیں گے یا بجلی کے تاروں وغیرہ پر بیٹھے‘ جبکہ بھوری رنگت والے‘ جن کا کچھ حصہ نسواری رنگ کا ہوتا ہے‘ بالعموم بڑ کے درخت پر اپنی دھوم مچائے رکھتے ہیں اور تلیئروں کی یہی وہ قسم ہے جن کا شور باقاعدہ ایک محاورے اور مثال کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ فاختہ اور کبوتر تو بعض اوقات چھرہ لگنے کے بعد بھی گرنے کی بجائے راہِ فرار اختیار کر جاتے ہیں لیکن تلیئر ایسے عدم تعاون کا ارتکاب نہیں کرتا۔
میں نے اکثر و بیشتر حلال پرندے ہی شکار کیے جبکہ دوسرے پرندے میری دستبرد سے محفوظ رہے‘ حتیٰ کہ کوّے بھی میرے ہاتھوں محفوظ رہے۔ کوا ویسے بھی بہت چالاک چیز ہے‘ بندوق کو دیکھ کر ہی راہِ فرار اختیار کر لیتا ہے‘ بلکہ شاٹ گن کی مار پر آنے سے پہلے‘ دوران پرواز ہی اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ اسے ہمیشہ بُرے لفظوں ہی سے یاد کیا جاتا ہے لیکن باحیا اتنا ہے کہ اکثر دوسرے پرندوں کے برعکس اسے اپنی مادہ کے ساتھ ملاپ کرتے کسی نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ عدیم ہاشمی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے ؎
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیے ہیں پرندے شجر میں بیٹھے ہوئے
جبکہ مرغے اور چِڑے اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی بے حیا واقع ہوئے ہیں!
کوئی اور شکار نہ ملتا تو سیہڑوں پر ہاتھ صاف کیا جاتا۔ اس کے علاوہ شارقیں بھی حلال قرار دی گئی ہیں۔ کبوتر کا چونکہ سائز بڑا ہوتا ہے اس لیے اس کو ہدف بنانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر عمارات کی منڈیروں اور روشندانوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ البتہ فاختہ کی ایک قسم جو سائز میں ذرا چھوٹی ہوتی ہے اور قُمری کہلاتی ہے‘ اس کا گوشت تاثیر میں سخت گرم ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے عربی زبان میں حمام کہتے ہیں۔ اس کی آواز بھی فاختہ سے مختلف ہے۔
پرندوں کا یہ بیان کچھ اتنا زیادہ تفصیل طلب نہیں تھا لیکن چونکہ کالم سے آج پھر چھٹی کا دن ہے‘ اس لیے ضروری سمجھا کہ قارئین کی ان معلومات میں بھی اضافہ کردیا جائے جو انہیں پہلے ہی حاصل ہیں کیونکہ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کبوتروں اور فاختائوں سے متعارف نہ ہو‘ بلکہ اب تو یار لوگ ان کے شکار کے لیے جال کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے کم از کم فاختائیں اب خال خال ہی نظر آتی ہیں اور یہ پرندہ ناپید ہونے کے قریب ہے کیونکہ جہاں ایئرگن سے آپ ایک ایک پرندے کو نشانہ بناتے ہیں تو جال کے ذریعے پورا غول کا غول ہی ہتھے چڑھ جاتا ہے جو زیادہ تر ایسی جگہوں پر چُگتا ہوا پایا جاتا ہے جہاں سے تازہ تازہ کوئی بیج دار فصل برداشت کی گئی ہو؛ تاہم‘ آپ کی معلومات میں غیر ضروری اضافہ اس تازہ غزل کی صورت میں بھی پیش ہے!
کئی دن سے ترے ہونے کی سرشاری میں رہتا ہوں
میں کیا بتلائوں آسانی کہ دشواری میں رہتا ہوں
ہمیں اک دوسرے سے کام تو کوئی نہیں‘ لیکن
یہ کیا کم ہے کہ میں تیری عملداری میں رہتا ہوں
ترا گھر دور ہے اور دور تر بھی ہوتا جاتا ہے
بھلے میں جس قدر بھی تیز رفتاری میں رہتا ہوں
کسی کے ناز اٹھانے میں بھلا کیا عار ہو مجھ کو
ہوں مزدورِ محبت‘ بار برداری میں رہتا ہوں
بہت کچھ کر گزرنے کی ابھی ہمت بھی ہے مجھ میں
تمہارے سامنے جتنی بھی لاچاری میں رہتا ہوں
سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے کیوں ہوتا نہیں مجھ سے
وگرنہ کچھ نہ کچھ کرنے کی تیاری میں رہتا ہوں
یہ عزت میں نے آخر کس طریقے سے کمائی تھی
معزز ہو کے بھی جو اس قدر خواری میں رہتا ہوں
رہائش کا زیادہ مسئلہ کوئی نہیں میرا
کہ میں بے روزگاری اور بیکاری میں رہتا ہوں
ظفرؔ، ویسے تو میں بیزار ہی پھرتا ہوں سڑکوں پر
مگر پھر بھی کسی شے کی طلبگاری میں رہتا ہوں
آج کا مقطع
اس نے تردید کبھی کی نہ محبت کی، ظفرؔ
نہ کبھی میں ہی اس الزام سے باہر نکلا