تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     20-12-2014

چمن کی فکر کرو‘ آشیاں کا غم نہیں

پاکستان اکیسویں صدی کے آغاز ہی سے بوجوہ شدید مشکلات کا شکار رہاہے ۔9/11کے بعد اُس وقت کے ہمہ مُقتدر صدرِ پاکستان نے امریکہ کی غیرمشروط اطاعت قبول کی ،اُس کے مابعد(Post 9/11) اثرات سے ابھی تک ہماراملک نکل نہیں پایا ۔بڑے زلزلے کے بعد جو جھٹکے (After Shocks) آتے ہیں ،اُن کا سلسلہ ابھی تک جاری وساری ہے ۔حکومتیں بیک وقت داخلی اور خارجی مشکلات کا شکار رہی ہیں ۔9/11کے بعد امریکہ نے اپنی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہمارے خطے کو بنایا اور جو جنگ ابتدامیں امریکہ کی جنگ تھی، اب وہ ہماری جنگ بن چکی ہے ۔دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ کے سب سے زیادہ اثرات بھی پاکستان پر پڑے ہیں۔ آج تک ہمارے جانی ومالی نقصان کے صحیح اور مُصدّقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔ حکمران اور میڈیا بھی صرف تخمینوں اور اندازوں پر مبنی بات کرتے ہیں۔امریکہ اور اہلِ مغرب، جن کی خاطر پاکستان نے یہ جنگ اپنے سرلی ،کبھی بھی ہم سے مطمئن نہ ہوپائے۔ 
علامہ اقبال کے بقول ؎
وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی 
مرے کام کچھ نہ آیا، یہ کمالِ نَے نوازی 
16دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ،ہردل ملول ہوااور ہرآنکھ اشکبار ہوئی۔ اِس کا واحد اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے پہلی بار بالغ نظری (Maturity)کا ثبوت دیا اور باہمی نفرتوں کو بالائے طاق رکھ کر ملکی اورقومی مفاد میں بروقت سرجوڑ کر بیٹھے۔ اللہ کرے کہ یہ علامتی یکجہتی ہمارے حقیقی ملی اتحاد میں تبدیل ہو جائے۔ ہمارے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی آپس کی منافرت اور ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی خواہش کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ،یہ حقیقت سب پر عیاں ہے ۔لیکن اگر ہمیں یہ راز سمجھ میں آجائے کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہماری عزت وآبروپاکستان کے وقار سے وابستہ ہے تو ہماری مشکلات کافی آسان ہوسکتی ہیں،بقول شخصے :''چمن کی فکر کرو ،آشیاں کا غم نہ کرو‘‘۔ چمن شاد و آباد رہے تو ہرایک اپنی پسند کا آشیانہ بناسکتا ہے ،لیکن اگر خدانخواستہ چمن ہی ویرانہ بن جائے تو آشیانے کہاں بنیں گے ۔ 
جناب عمران خان نے قومی مفاد میں یک طرفہ طورپر اپنا 126دنوں پر محیط دھرنا ختم کیا اور اپنی تحریک کو موقوف کیا۔ یہ اُن کی طرف سے ایک اچھا اقدام (Gesture)ہے اور اِس کی وزیرِ اعظم نوازشریف کی طرف سے پذیرائی بھی کی گئی ہے ،جو مناسب طرزِ عمل ہے‘ لیکن وہ اپنے مطالبات سے دست بردار نہیں ہوئے‘ لہٰذا اب حکومت کی ذمے داری ہے کہ فریقین کے درمیان جو اُمور طے پائے تھے‘ وہ حالات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن سے پیچھے نہ ہٹے ۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ سنجیدگی کے ساتھ جاری رہنا چاہئے، اگرچہ حکومت وقتی طورپر دباؤ سے نکل آئی ہے ،لیکن جناب عمران خان نے یک طرفہ اقدام کرکے ایک طرح سے اَخلاقی اعتبار سے برتری (Edge)حاصل کی ہے اور اس کا جواب بھی اُسی انداز سے دینا چاہئے۔ 
پہلے حکومت کا واویلا یہ تھاکہ خان صاحب گن پوائنٹ پر باتیں منوانا چاہتے ہیں ،اُنہیں چاہئے کہ مذاکرات کے دوران احتجاج موقوف کریں۔ اب قدرت کی طرف سے سرِ دست تلوار نیام میں ڈال دی گئی ہے اور گن اَن لوڈ کردی گئی ہے، اب حکومت پر لازم ہے کہ وہ شرحِ صدر کے ساتھ اِس مسئلے کے حل کی طرف قدم بڑھائے اور اِس میں دوچار غیر جانبدار ماہر ِ آئین وقانون شخصیات کو سہولت کار(Facilitator) کے طورپر شامل کیا جائے ۔اِن شخصیات کی غیر جانبداری اور حق پسندی اِس قدر واضح ہو کہ وہ کسی بھی فریق کے غلَط کو غلَط کہہ سکیں اور دو انتہاؤں میں درمیانی راہ نکال سکیں۔
ہماری فہم کے مطابق سَرِ دست حکومت کا موقف یہ ہے کہ اگرکسی اتھارٹی کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت 2013ء کے قومی انتخابات میں دھاندلی ثابت ہوجائے ،تو پھریقیناً مجموعی طورپر انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کا اعتبار (Crediblity) قائم نہیں رہے گا اور نئے انتخاب کی طرف جانا ہوگا اور اگر دھاندلی بعض مقامات پر افراد کی طرف سے ہوئی ہے ،تو جہاں جہاں دھاندلی ثابت ہو ،اُس حلقۂ انتخاب کا فیصلہ مُروّجہ عدالتی نظام کے ذریعے اَزخود ہوجائے گا۔ بظاہر حکومت کا موقف مناسب معلوم ہوتاہے؛ البتہ اگر انتخابی قوانین میں کہیں اِبہام ہے ،تو اُسے قانون سازی کے ذریعے دورکیاجانا چاہئے‘ جبکہ اِس حوالے سے جناب عمران خان کا موقف کچھ واضح نہیں ہے ،اُنہیں اِس مسئلے میں جنابِ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد اور جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کو پورے اختیارات دے کر مذاکراتی عمل میں شریک کرنا چاہئے ،صرف سیاسی رہنماؤں کے مذاکرات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ،اِسی طرح حکومتی ٹیم میں بھی آئینی وقانونی ماہرین شامل ہونے چاہئیں،کیونکہ قدم قدم پر قانونی موشگافیاں پیداہوں گی ۔ 
مزید گزارش یہ ہے کہ وزیرِ اعظم میاں نواز شریف پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتوں کے ساتھ بھی دہشت گردی کے مسئلے پر ایک نشست کا اہتمام کریں تاکہ کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ ایک طبقے کو نظر اندازکیاجارہاہے اورنہ ہی کسی میں احساسِ محرومی پیداہو ۔قوم کے تمام عناصرِترکیبی کو عظیم تر دینی ، ملی اور قومی مقاصد کے لئے آپس میں جوڑے رکھنا اور سب کو ایک لڑی میں ممکن حدتک پروئے رکھنا حاکمِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے ،ایسانہ ہوکہ بقولِ علامہ اقبال ؎
کوئی کارواں سے ٹوٹا ،کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خُوئے دل نوازی 
ہماری سیاسی ساخت کا المیہ یہ ہے کہ انتخابی سیاست اوراحتجاجی سیاست کے عناصر جدا جداہیں اور یہ تقسیم شاید کافی عرصے تک جاری رہے گی، کیونکہ جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی کا فقدان ہوتاہے ،وہاں یہ سیاسی کلچر جاری رہتاہے ۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت کے لئے پہلی ترجیح پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنا اور اُن کے مابین ایک اِجماعی سوچ پیداکرنا ہوتاہے اور ایساہونا بھی چاہئے‘ لیکن پارلیمنٹ سے باہر کے عناصر اور تنظیموں کو بھی اعتماد میں لے لیاجائے اور اُنہیں یہ احساس دلایاجائے کہ قومی اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے لئے اُن کی اہمیت بھی مُسلّم ہے ،تو اِس میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔
پشاور کے سانحے کے حوالے سے بعض سرکردہ علماء کا بیان قومی اخبارات میں اِس سُرخی کے ساتھ شائع ہواہے کہ: ''مسلمانوں کا باہمی قتال کافروں والا کام ہے ‘‘ ۔ قتال کے معنیٰ ہیں : ''دو افراد یا دو جماعتوں کا ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہونا‘‘۔اب اِس وقت جس قتال کی صورت کا پاکستان کو سامنا ہے ،وہ ہے بعض عناصر یا تنظیموں کا حکومت کے خلاف یاپاکستان کی مُسلّح افواج کے خلاف لڑنا، تو سوال یہ ہے کہ کیادونوںکا شرعی حکم ایک ہے ؟۔ 
پاکستان میں حکومت یا مُسلح افواج سے برسرِ پیکار عناصر وقتاً فوقتاً مُسلح افواج اور دفاعی تنصیبات کے علاوہ سویلین کو نشانہ بناتے ہیں ، اِس حوالے سے اُن کا موقف یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے اُن کے ہمنوانہیں ہیں یا حکومت کے حامی ہیں ، لہٰذاایسے سب لوگ اِن کے نزدیک واجب القتل ہیں ۔اِس لئے حکومت کی ذمے داری ہے کہ اِس مسئلے میں تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء سے فتویٰ حاصل کریں کہ آیا حکومت اور مُسلح افواج اور اُن سے مُحارِب (Combatant)کی حیثیت ایک ہے ؟۔
اِن مواقع پر حکومت سہل پسندی سے کام لیتی ہے اور جو علماء بھی آسانی سے دستیاب ہوجائیں ،اُن کو جمع کرکے ایک بیان جاری کرادیاجاتاہے۔ اِس طرح کے بیانات کی نتیجہ خیزی(Productivity)صفر ہوتی ہے ۔پس لازم ہے کہ اُن علماء سے رابطہ کیاجائے جو اپنے اپنے مسالک میں مُسلّم ہیں اور جنہیں اپنے مسلک کے علماء اور عوام میں یکساں طورپر علمی اور فقہی استناد (Authority)کادرجہ حاصل ہے۔اِس مسئلے کی طرف متوجہ کرنا میں نے اِس لئے ضروری سمجھاکہ ہمارا وطنِ عزیز گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے امریکہ کی مُسلط کردہ ایک داخلی جنگ میں اُلجھا ہواہے اور ہماری مُسلح افواج کا اَفرادی نقصان بھارت کی مُسلط کی ہوئی1965ء اور 1971ء کی باقاعدہ جنگوںسے بھی زیادہ ہے ۔ ایک عام سپاہی سے لے کر جنرل کے Rankتک ہماری اَفواج نے قربانیاں دی ہیں اور دشمنوں کا نشانہ بنی ہیں۔ اِسی طرح دفاعی تنصیبات کا نقصان بھی غیرمعمولی ہے ۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے محدود مالی وسائل کا ایک مُعْتَدبِہِ (Sizeable) حصہ ہماری داخلی سلامتی پر خرچ ہورہاہے ، اِ س میں اہم سرکاری اور غیرسرکاری اَفراد ،اِداروں ،سفارت کاروں اور سفارت خانوں اور تنصیبات سب کا تحفظ شامل ہے اور اس کے باوجو بدامنی کا سلسلہ جاری ہے ،لہٰذا اِس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیاجانا چاہئے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved