تکبر اور زعم سے اللہ انھیں بچائے رکھے۔ جنرل راحیل شریف، میاں محمد نواز شریف سے کس طرح مختلف ہیں؟ ایک اپنے فرائض کی بجا آوری میں مگن، دوسرا اپنی ذات کی محبت میں سرشار۔ گاہے کتنا غیر معمولی فرق قبیلے کے ایک اور دوسرے آدمی میں ہوتا ہے۔
جی ایچ کیو میں وزیر اعظم روٹھے روٹھے سے کیوں نظر آئے؟ یہ سوال میرے ذہن میں نہیں اُٹھا۔ کراچی میں ہوں۔ ٹی وی دیکھ نہ سکا۔ اخبار پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈالی۔ تب برادرم رانا آصف نے میاں صاحب کی وہ تصویر دکھائی، جنرل راحیل شریف کے ساتھ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ایک ہزار لفظوں پر بھاری ہوتی ہے لیکن کبھی وہ دھوکا دے سکتی ہے۔ فقط ایک لمحہ اُس میں متشکل ہوتا ہے، لازم نہیں کہ پورا ماحول بھی۔ اتنے میں مکرّر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں خاکی وردی والوں کے درمیان انہیں دیکھا۔ حیرت ہوئی اور تشویش بھی ؎
بگڑے بگڑے مرے سرکار نظر آتے ہیں
گھر کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں
ایک فوجی افسرے سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے۔ رنج سے اس نے کہا: میں تو وہاں موجود نہ تھا لیکن اوّل دن سے میاں صاحب کا عالم یہی ہے۔ نجیب آدمی کی آواز میں ایک حسرت سی بول اُٹھی۔ سانحۂ پشاور کے بعد سبھی کی طرح، ایک گداز لہجہ ـــاور اس لہجے نے یہ کہا: ''کاش، وہ ادراک کر سکیں کہ تاریخ نے کیسی بھاری ذمہ داری ان پر عائد کر دی ہے۔ کیسی عظیم امانت انھیں سونپ دی ہے۔ بیس کروڑ انسانوں کے مستقبل کا بہت کچھ انحصار ان پر ہے ـــــ اور وہ اپنی ہی محبت میں مبتلا!‘‘
اندازِ فکر کی بات ہوتی ہے اور افتادِ طبع کی۔ سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: آدمی کی قدر و قیمت اس کے ہنر کے مطابق ہوتی ہے۔ مگر وہ جو حسرتیں پالتے ہیں اور کھیلنے کو چاند مانگتے ہیں۔
ایک اعتبار سے حسرت ہی وزیر اعظم کو زیبا ہے۔ فیصلہ سازی سپہ سالار کے ہاتھ میں چلی گئی۔ پالیسیوں کے تعین میں پیش قدمی اب وہ کرتے ہیں۔ ملّاح اگر چپّو نہ چلائے، پائلٹ اگر اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے تو کوئی دوسرا کرے گا۔ کشتی کو ڈوبنے اور جہاز کو گرنے کے لیے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ خلا باقی نہیں رہتا۔ کارِ حکمرانی میں تو کیا، ایک چھوٹے سے گھر میں بھی ہرگز نہیں۔ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ ایک قوم ایک حکمران کی خواہشات اور امنگوں پر قربان نہیں ہوتی بلکہ حکمران اس پر فدا ہوتے ہیں۔ اسی کا نام قیادت ہے:
آغشتہ ایم ہر سرِ خارے بہ خونِ دل
قانونِ باغبانیٔ صحرا نوشتہ ایم
ہر کانٹے کو اپنے دل کے لہو سے میں نے تر کیا۔ صحرا میں گُل کھلانے کا دستور میں نے اپنے خون سے لکھ دیا۔
سبحان اللہ، فارسی کے ایک دوسرے شاعر نے کیا بات کہہ دی ہے:
حاصلِ عمر نثارِ رہ یارے کردم
شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم
عمر کی ساری پونجی، دوست کی راہ میں لٹا دی۔ اپنی زندگی پہ نازاں ہوں کہ آخر کار ایک کارنامہ کر ہی دکھایا۔ قرآن کریم میں سرکارﷺ کے باب میں ایک لفظ یکایک اس طرح نمودار ہوتا ہے کہ فکر کا کارواں ششدر کھڑا رہ جاتا ہے۔ ''لعمرک‘‘ اے پیمبر! تیری عمرِ عزیزکی قسم۔ حیرت آدمی کی متاع ہے، بہت بڑی متاع۔ میرؔ کا شعر ہم پڑھتے ہیں اور معانی کا ایک جہاں طلوع ہوتا ہے:
حیرتِ گُل سے آبِ جو ٹھٹکا
بہے بھیتر‘ اپر بہا بھی جائے
ظہیر کاشمیری مرحوم بڑے ہی بلند پایہ شاعر تھے، بایں ہمہ بے لچک بہت۔ اردو شاعری کا سبق پڑھاتے ہوئے اس نالائق شاگرد سے کبھی بگڑ جاتے اور ارشاد کرتے: بعض اشعار پر تم بے خود ہو جاتے ہو۔ خود کو میں تھامنے کی کوشش کرتا لیکن سدا کا گستاخ۔ عرض کیا: انحصار اس پر ہے کہ خیال کا رہوار کس قدر اور کتنی پرواز کرتا ہے، پھر یہ بھی ہے کہ اساتذہ میں سے بعض کو اپنا خیال بہت عزیز ہوتا ہے۔ اپنی ہی دنیا کے سحر میں مبتلا۔ میرؔ صاحب جب ایک منظر بیان کرتے ہیں تو ایک نئی دنیا برپا ہوتی ہے۔
''لعمرک‘‘۔ اے پیمبر، تیری عمرِ عزیز کی قسم۔ وہ زندگی جس میں کوئی ادنیٰ ساعت نہیں۔ ہمہ وقت پاکیزہ، ہمہ وقت تخلیقی، ہمہ وقت شکر گزاری، غوروفکر، درد مندی، ہمہ وقت نجابت، حصولِ علم کی پیہم آرزو اور ہمہ وقت انکسار۔
سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ نے سرکارؐ کا سراپا بیان کیا تو ایسی ایک بات کہہ دی کہ سیرت پر لکھی گئی کئی کتابوں پہ بھاری ہے۔ کہا: آپؐ زمین پر بیٹھتے، زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے، بکری کا دودھ دوہتے اور جو کی روٹی پر غلام کی دعوت قبول فرماتے‘‘۔
کپتان مجھے بتایا کرتا: خدمت کے لیے اپنی انا کی قربانی دینا ہوتی ہے۔ مقبولیت کی لہر اُٹھی تو چار ماہ تک کنٹینر پر کھڑے ہو کر اپنی مدح اور مخالفین کی ہجو کرتا رہا۔ آخر آخر میں تو پرویز رشید کی سطح پر اُتر آیا۔ میاں محمد نواز شریف کے کارندے اگرچہ کردار کُشی پہ تُلے رہے۔ ذاتی طور پر مگر وزیر اعظم کا لہجہ شائستہ رہا۔ مستقل طور پر ان کا رویہ مگر یہی ہے کہ قوم کو ان کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ایک سے زیادہ بار اپنے حامیوں کو بر سر عام طعنہ دیا کہ میرے ساتھ وفا کے تقاضے تم نے پورے نہ کیے۔ تین برس ہوتے ہیں، جلسۂ عام میں ''قدم بڑھاؤ نواز شریف‘‘ کے نعرے برپا تھے، تب ارشاد کیا: قدم میں نے بڑھایا تھا لیکن پلٹ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ تختہ اُن کا ایک جنرل پرویز مشرف نے اُلٹا تھا اور وہ انہی کا انتخاب تھے۔ زیادہ سے زیادہ کتنے لوگ اس جرم میں شریک تھے، پانچ؟ سات؟ ناراض وہ پوری فوج سے ہیں۔ مظفر آباد میں کھڑے ہو کر یہاں تک کہہ دیا کہ کشمیریوں کو اتنا نقصان بھارت نے نہیں پہنچایا جتنا پاکستانی فوج نے۔ ان کی رائے نہیں‘ یہ اظہارِ ناراضگی تھا۔ بچے کا کھلونا ٹوٹ جائے تو ایسا ہی وہ بگڑتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں کسی نے کہا تھا: ان کا بس نہیں چلتا وگرنہ اپنے آپ کو سجدہ کریں۔ اپنی ذات سے آدمی کو محبت ہو جاتی ہے۔ ادنیٰ لوگوں کے ہجوم میں اپنے محاسن کی خیالی دنیا جب وہ تعمیر کر لیتا ہے تو زندگی اور اس کے حقائق اس کی نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ اپنی ذات سے جو اوپر نہ اٹھ سکے، قوم کی قیادت تو کیا، خود کو بھی سنبھال اور سنوار نہیں سکتا۔ تہذیب نفس خود تنقیدی کے سوا کیا ہے؟ پھر یہ کہ لیڈر کو اپنی مثال سے رہنمائی کرنا ہوتی ہے۔ نرگسیت کا مریض کیسے یہ کر پائے گا۔ میاں صاحب کے ساتھ اگر کوئی مخلص ہے تو انھیں جتلائے: حضور! اﷲ نے ایک تاریخی مہلت آپ کو دی ہے۔ اپنے آپ سے اوپر اٹھیے، اپنے تعصبات کو خیرباد کہیے اور وہ کارنامہ کر دکھائیے کہ مخلوق تو کیا خالق کی بارگاہ میں آپ سُرخ رو ہوں۔ بو علی سینا نے کہا تھا: اپنے زخم جو یاد رکھتا ہے، اس کے زخم ہرے رہتے ہیں۔
آدم خور شیر کی طرح اسلام آباد کی سرکاری مسجدکے امام مولانا عبدالعزیز دھاڑ رہے ہیں۔ اپنے وزیر اعظم سے پاکستان کا ایک شہری پوچھتا ہے کہ اب تک وہ برطرف کیوں نہیں ہوئے؟ اپنے اور میرے دوست بیرسٹر اکرم شیخ سے میاں صاحب پوچھ لیں، موصوف ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہیں۔ قانون قائم ہو تو پھانسی سے بچ نہیں سکتے۔
اغماض اور فرار نہیں، کار حکمرانی چیلنج کا سامنا کرنے کا نام ہے۔ قائد اعظمؒ کے سب سے پسندیدہ کشمیری لیڈر چوہدری غلام عباس نے کہا تھا: ''وقت کو ماتھے کے بالوں سے پکڑنا ہوتا ہے‘‘۔ چیف آف آرمی اسٹاف بھی ایک کشمیری گھرانے کے فرد ہیں... قومِ چرب دست و تر دماغ۔ کردار مگر اقوام اور قبائل کا نہیں، خاندان کا بھی نہیں بلکہ فرد کا ہوتا ہے۔ یہ خالصتاً ایک شخصی چیز ہے۔ سید علی گیلانی کشمیری ہیں تو ایاز صادق اور پرویز رشید بھی۔
تکبر اور زعم سے اللہ انھیں بچائے رکھے۔ جنرل راحیل شریف، میاں محمد نواز شریف سے کس طرح مختلف ہیں؟ ایک اپنے فرائض کی بجا آوری میں مگن، دوسرا اپنی ذات کی محبت میں سرشار۔ گاہے کتنا غیر معمولی فرق قبیلے کے ایک اور دوسرے آدمی میں ہوتا ہے۔