پشا ور سکول میں کمانڈو آپریشن کے دوران ہی جنرل عاصم باجوہ نے ٹویٹر پر یہ بیان جاری کر دیا تھا: آرمی چیف کا کہنا ہے کہ درندوںکا سرحد پار تک پیچھا کیا جائے گا۔ اچانک اور غیر متوقع طور پر جنرل راحیل شریف افغانستان گئے اور افغان سرحدی علاقے میں موجود تحریکِ طالبان کی کارروائیوں پر بات کی۔ ملّا فضل اللہ سمیت سینکڑوں نہیں، ہزاروں پاکستانی طالبان افغان سرحدی علاقے میں موجود ہیں ۔ گزشتہ برسوں میں سوات اور جنوبی وزیرستان سمیت مختلف ایجنسیوںمیں آپریشن کے دوران جنگجوئوں کی بڑی تعدادشمالی وزیرستان اور افغانستان منتقل ہو گئی تھی ۔ شمالی وزیرستان آپریشن میں غیر معمولی تاخیر کے دوران وہ افغانستان منتقل ہو گئے ۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن ، جماعتِ اسلامی اور سب سے بڑھ کر عمران خان نے اس فوجی کارروائی کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کر دی تھی ۔ دہشت گردوں کو معصوم قرار دیا گیا ۔ کپتان کا موقف تو یہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے خوامخواہ قبائلی علاقے میں فوج جا گھسائی وگرنہ وہاں امن و امان کا کبھی کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں ۔ یہ بھی کہ قبائلی علاقے سے افواج کو واپس بلاتے ہوئے امریکی جنگ سے اظہارِ لا تعلقی کر دیا جائے تو فوراً ہی دہشت گردی کامسئلہ حل ہو جائے گا۔
اندازِ حکمرانی ، بالخصوص خارجہ پالیسی میں جنرل پرویز مشرف کی حماقتوں سے قطع نظر، زمینی حقائق یہ تھے کہ پاک افواج کو قبائلی علاقے میں بھیجا ہی اسی لیے گیا تھا کہ طالبان اور القاعدہ سمیت دنیا بھر کے دہشت گردوہاں دندناتے پھر رہے تھے ۔ سرحدی علاقوں میں موثر اور معزز لوگوں کو قتل کیا جا رہا تھااور حکومتی مشینری جام تھی ۔ دوسری طرف حکومت اور فوج بھی عوام تک اپنا نقطہ ء نظر پہنچانے میں ناکام رہے ۔ حد یہ تھی کہ جنوبی وزیرستان کا کمانڈر نیک محمد ڈرون حملے میں مارا گیا تو اس کی ریاست مخالف کارروائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔
تحریکِ انصاف اور نون لیگ نے تو 2013ء کی انتخابی مہم میں مذاکرات کو بطور حکمتِ عملی استعمال کیا۔ اس دوران تحریکِ طالبان نے اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم کے اجتماعات کو وہ نشانہ بنائیں گے ۔ اے این پی بڑے پیمانے پر ان کارروائیوں کا نشانہ بنی ۔ تحریکِ انصاف، نون لیگ ، جماعتِ اسلامی او ردائیں بازو کی دوسری جماعتیں بڑی سہولت کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلاتی اور اس صورتِ حال سے محظوظ ہوتی رہیں ۔تب یہ کہنے کی توفیق کسی کو نہ ہوئی کہ نظریاتی اختلافات سے قطع نظر، دہشت گردی کے خلاف ساری سیاسی جماعتیں متحد ہیں ۔ طالبان کو نشانہ بنانا ہے تو سبھی کو بنائیں یا کسی کو نہیں ۔ جہاں تک نون لیگ کا تعلق ہے ،اس کے قائدین نے جلسہ ٔعام میں طالبان سے درخواست کی تھی پنجاب کو وہ نشانہ نہ بنائیں کہ نون لیگ طالبان کے موقف کی حامی ہے ۔
یہ وہ پسِ منظر ہے ، جس میں دائیں بازو کی جماعتوں ، بالخصوص تحریکِ انصاف کے لاکھوں پرجوش نوجوان امریکی مخالفت میں اس قدر آگے بڑھتے چلے گئے کہ طالبان سے انہیں ہمدردی ہونے لگی ۔یہ ہے وہ پسِ منظر ،جس میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا اور فوجی ہیلی کاپٹر میں اسے ہسپتال منتقل کیا گیا تو پاک فوج اور امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی حد تک بگڑے ہوئے تعلقات کے باوجود سوشل میڈیا نے اسے شمالی وزیرستان آپریشن کا جواز گھڑنے کے لیے ایک ڈھونگ قرار دیا۔ برسبیلِ تذکرہ ، یہاں ملالہ کے نوبل انعام کی کہانی بھی سنتے چلیے ۔ایک طالبہ کی زبانی ملّا فضل اللہ کے سوات کا ماجرا معلوم کرنے کا فیصلہ عالمی نشریاتی ادارے نے خود کیا تھا ۔ملالہ کے والد کو یہ کام سونپا گیا تھا لیکن جان کے خوف سے جب متذکرہ طالبہ نے انکار کر دیا تو انہوں نے اپنی ہی بیٹی کو طالبان کی مذمت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کا یہ موقع فراہم کیا...اور وہ اسے نوبل انعام تک لے گیا۔
قبائلی علاقوں میں خرابی اور پاکستان میں دہشت گردی کی بنیادیں کس نے اور کب کھودیں ؟ یہ گزشتہ 35برس پہ پھیلی ہوئی وہ خون آلود کہانی ہے ، پاکستانی دانشوروں کی اکثریت جنرل ضیاء الحق کو جس کا مصنف قرار دیتی ہے ۔ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کو وہ کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں او ردیں بھی کیسے ؟ اس زمانے میں یہ لوگ انقلابی کہلاتے تھے ۔پاکستان ہی نہیں ، سوویت یونین کا دسترخوا ن یورپ سے لے کر امریکی ہمسایہ ملک کیوبا تک پھیلا ہوا تھا۔توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والا سوویت یونین دنیا کے کتنے ہی ممالک میں اپنی فوجی اور مالی سرپرستی میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر چکا تھا ۔
جنرل عاصم باجوہ کے بیان اور جنرل راحیل شریف کے دورہ ٔ افغانستان کایک سطری خلاصہ یہ ہے : پاک فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔ افغانستان کی طرف سے خاطر خواہ قدم نہ اٹھانے اور بڑے دہشت گردوں کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع ملنے پر وہ سرحد پار ہدف کو نشانہ بنائے گی ۔اپنے مثبت طرزِ عمل سے قطع نظر، صدر اشرف غنی ایک کمزور حکمران ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ افغان طالبان کی صورت میں وہاں ایک متوازی حکومت قائم ہے بلکہ افغان ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس کو بھارت نواز سمجھا جاتاہے ۔ اندازہ امریکی ریڈیو ''فری افغانستان ‘‘کے روبرو افغان آرمی چیف کے انٹرویوسے لگائیے ۔ جنرل شیر محمد کریمی کا کہنا ہے : جنرل راحیل شریف نے دورہ ٔافغانستان میں ملّا فضل اللہ کی حوالگی کاکوئی ذکر نہیں کیا اور افغان فوجی قیادت کو یقین دلایا کہ پاکستان تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑنے میں مخلص ہے ۔ یہ بھی کہ پاکستانی فوج اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف تعاون اور رابطے بڑھانے کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ افغان آرمی چیف کے مطابق پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے پسِ منظر میں جنرل راحیل شریف کا ہنگامی دورہ ٔ افغانستان یقین دہانیاں کرانے تک محدود تھا ۔کیا واجبی سی عقل رکھنے والا کوئی بھی انسان یہ بات تسلیم کر سکتاہے ؟ اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے لگتایہ ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوںمیں پاک افغان افواج میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے ۔
جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے ، ہم لوگ امریکی تسلّط سے آزادی کو ان کا حق قرار دیتے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑی ہی جاہل اور انتہا پسند مخلوق ہے ۔اس نے دنیا بھر میں اسلام کا پرتشدد تصور پیش کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قبائلی علاقہ افغانستان سے منسلک ہے اور دونوںاطراف کا امن ایک دوسرے سے مشروط۔حقیقت یہ ہے کہ افغان صدارتی انتخابات میں تمام تر دھمکیوں کے باوجود عام افغانیوں کی بڑے پیمانے پر شرکت یہ بات واضح کرتی ہے کہ خدا کی مخلوق ان اسلحہ بردار وحشیوں سے بے زار ہے ۔جہاں تک پاکستان میں دہشت گردی کی طویل ہوتی ہوئی جنگ کا تعلق ہے ، صدر زرداری اور ان کے اے این پی جیسے اتحادیوں کی پانچ سالہ حکومت کو سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا، جس دوران بلٹ پروف جیکٹوں اور بارود کی نشاندہی کرنے والے سکینروں تک کی خریداری میں پیسہ بنایا گیا۔ جہاں تک مسلم لیگ نون کی حکومت کاتعلق ہے ، اس نے پولیس اورسول انٹیلی جنس میں میرٹ پر تقرری ، تبادلے ، بہتر ٹریننگ اور سازو سامان مہیّا نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔ اس کا مینڈیٹ سڑکیں کھودنے اور سریے کے مینار تعمیر کرنے تک محدود ہے ۔
یہ ہے وہ پسِ منظر ، جس میں امریکہ نے پاکستانی فوج کو ملک و قوم کو جوڑے رکھنے والی بائنڈنگ فورس قرار دیا تھا۔