تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-12-2014

آخر کار سبھی تھک جاتے ہیں

ابدیت سفرکو ہے ، مسافرکو نہیں ہے ۔ 
جنابِ سرتاج عزیز کو کیا سوجھی ؟ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کو سانحۂ پشاور کے سلسلے میں انہوں نے بے گناہ کیسے قرار دے دیا؟ ان کا بیان قبل از وقت اور پرلے درجے کی عدمِ احتیاط کا مظہر ہے ۔ آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کے قتلِ عام کا واقعہ تو ایسا المناک اور سنگین ہے کہ پاکستانی قوم کا اندازِ فکر ہی بدل گیا ۔ ترجیحات ہی بدل گئیں۔ اس سے بھی کم تر واقعات میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)تشکیل دی جاتی ہے ۔ آئی ایس آئی ، ملٹری انٹیلی جنس اور خفیہ کاری کے سول اداروں پر مشتمل ۔ ایک ایک پہلو کا خوردبینوں سے جائزہ لیا جاتاہے ، شواہد کی بنیاد پر پھر رائے صادر کی جاتی ہے ۔ جے آئی ٹی ابھی تشکیل ہی نہیں پائی ، تحقیقات کا آغاز تک نہیں ہوااور خارجہ امور کے قومی ترجمان نے اعلان فرمادیا : بھارت ملوّث نہیں ۔ ممکن ہے واقعی نہ ہو مگر اس مرحلے پر یہ اعلان ؟ کیا یہ ایک مضحکہ خیز حرکت نہیں ؟ 
کیا یہ ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت پر ممکنہ بھارتی ردّعمل روکنے کی کوشش ہے ؟ عدالتی فیصلوں پر براہِ راست تبصرہ زیبا نہیں مگر یہ تو واضح ہے کہ ناموزوں وقت پر یہ واقعہ رونما ہوا ۔ کیا عدالتوں سے یہ درخواست کی جا سکتی ہے کہ ایسے معاملات میں نزاکتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ذکی الرحمن لکھوی کو تیس دن کی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیااور یہ ایک موزوں قدم ہے ۔ قومی سلامتی کے معاملات میں ہر ملک حساس ہوتاہے۔ خاص طور پر وہ واقعات، جن پر عوامی جذبات بھڑک اٹھیں ۔ ممبئی کے المناک حادثے نے بھارتی عوام کی نفسیات پر اسی طرح کے اثرات مرتّب کیے تھے، جیسے سانحۂ پشاور نے پاکستانی عوام پر۔ پاکستان کے باب میں سر تاپا منفی جذبات رکھنے والی بھارتی قیادت کی ناز برداری ہمارا مسئلہ نہیں ۔ ارضی حقائق کو مگر ملحوظ رکھنا چاہیے۔ بھارتی عوام کو ہم بدگمان کیوں کریں ؟ پشاور کے خونی حادثے کے بعد بھارت میں عام آدمی ہی نہیں ، سرکاری سطح پر ظاہر کیا جانے والا ردّ عمل بھی ہمدردانہ رہا۔ ان حالات میں کوئی منفی پیغام نہ جانا چاہیے۔ 
بایں ہمہ سرتاج عزیز صاحب کا اظہارِ خیال حیران کن ہے ۔ اس سے پہلے بھی ایسی ہی ایک حرکت وہ فرما چکے ۔ جس پر انہیں خفّت اٹھانا پڑی اور ایک کے بعد دوسری وضاحت وہ پیش کرتے رہے ۔ماہِ گزشتہ جنرل راحیل شریف کے دورۂ امریکہ کے دوران اچانک اور غیر متوقع طور پر انہوں نے یہ کہا تھا : ہم ان طالبان کے خلاف کارروائی کیوں کریں ، پاکستان سے جو متصاد م نہیں ۔ انہی دنوں وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک سرکاری تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے واشنگٹن کے بارے میں جارحانہ گفتگو کی‘ امریکی انتظامیہ کے اس پیہم طرزِ عمل کے با ب میں ، پاکستان قوم جس پہ ناخوش ہے ۔ عام حالات میں ان کی رائے کا خیر مقدم کیا جاتا۔ ٹھیک اس وقت ، چیف آف آرمی سٹاف جب پاکستان اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش میں تھے‘ امریکہ کی فوجی اور سیاسی قیادت کو جب وہ باور کرا رہے تھے کہ دہشت گردی پہ افغانستان میں بھارت کا کردار منفی ہے ۔ اس وقت خواجہ آصف اور ان سے 
زیادہ سرتاج عزیز کے غیر محتاط اور غیر ذمہ دارانہ تبصروں سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ۔ بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ ان دونوں نے جنرل کے دورے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ۔ اس ناچیز کی رائے مختلف ہے ۔ اسے یقین ہے کہ دونوں لیڈر معاملے کی نوعیت کا ادراک نہ کر سکے ۔ خواجہ آصف نے تو فقط وقت کے انتخاب میں غلطی کی ۔ گمان یہ ہے کہ عملاً کوئی نقصان اس سے نہیں پہنچا۔ بزرگ لیڈر سرتاج عزیز نے البتہ جو کچھ ارشاد کیا ،اسے نہ صرف بے وقت کی راگنی کہا گیا بلکہ بنیادی طور پر غلط اور بالکل غلط ۔ ایک برس ہونے کو آیاکہ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کی پالیسی بدل چکی اور خود اس گروپ کی ترجیحات بھی ۔ اب وہ القاعدہ اور پاکستان میں انتشار پھیلانے پر تلے ، القاعدہ کے حلیف فرقہ وارانہ گروہوں سے مراسم رکھتے ہیں ۔ ضربِ عضب شروع ہوتے ہی واضح ہوگیا کہ پسندیدہ اور نا پسندیدہ طالبان کا امتیاز ختم ہو چکا ۔ یہ بات اگر اس معمولی اخبار نویس کو معلوم تھی ، جس کا کام صرف دفاعی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہے تو جہاندیدہ سیاستدان کو کیوں نہیں۔ میری پختہ رائے یہ تھی اور اب بھی یہ ہے کہ ساری زندگی احتیاط اور شائستگی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے والے سرتاج عزیز بزرگی کو پہنچ چکے۔ بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں ، لاہور کے اسلامیہ کالج میں مجید نظامی کے ہم جماعت تھے ۔ سن و سال کے اعتبار سے 85سالہ آدمی کی صحت اب بھی اچھی ہے مگر خارجہ امور کی نازک ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے ان کے اعصاب اب کافی مضبوط نہیں ۔ تجربہ قیمتی ہوتا ہے اور اس کا کوئی بدل نہیں مگر اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آدمی کے حواس سلامت ہوں ۔ جذباتی توازن اس میں کارفرما ہو او رتجزیہ کرنے کی پوری استعداد وہ بروئے کار لا سکے ۔ اس اداس شاعر فانی بدایونی نے کہا تھا ؎ 
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
قرآنِ کریم انسانی زندگی کے ادوار کا ذکر کرتاہے ۔ بچپن، جوانی ، کہولت اور پھر وہ ارزل عمر ، جب آدمی پھر سے بچّہ بن جاتاہے ۔ اعصاب تھکنے لگتے اور مستقل طور پر زوال پذیر ہوتے ہیں تو انسان ماضی میں پناہ لیتا ہے ۔ شدید بیماری کی حالت میں بھی قلب و دماغ میں بچپن گاہے جاگ اٹھتا ہے ۔ خیالات میں ربط باقی نہیں رہتا۔ آج کی بجائے ذہنی طور پر وہ گزرے ہوئے کل میں جیتا ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ سرتاج عزیز صاحب ایسی ہی کیفیت کا شکار ہیں۔ کیا اب انہیں اپنا آرام بڑھا لینا چاہیے اور مشعل دوسروں کے حوالے کر دینی چاہیے؟ 
بے پناہ ولولے اوربے پناہ آرزو مندی کے ساتھ عملی زندگی کے میدان میں آدمی قدم رکھتا ہے ۔ ایک کے بعد دوسری منزل وہ سر کرتا چلا جاتاہے لیکن آخر کار وہ تھک جاتا اور سپر ڈالتاہے ۔ یہ کبھی نہ بدلنے والی حقیقت ہے اور اس کا انکار کرنے والے خسارہ پاتے ہیں ۔ تاریخ کے سب سے بڑے سپہ سالار ، اپنی شمشیر سے جنہوں نے نئے زمانے لکھے ، آخرِ کار مدینہ منوّرہ کی گلیوں میں گھومتے تھے۔ بسترِ مرگ پہ ان کی آنکھیں نم تھیں ۔ کہا : جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ، جس پہ تلواروں کے زخم نہ ہوں مگر آج بستر پہ جان دے رہا ہوں ۔ جنگجو کا ملال برحق تھامگر تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے انہیں سیف اللہ کہا تھا۔ عالمِ انسانیت کے سب سے بڑے فاتح وہ تھے ۔ اللہ کی شمشیر کسی منکرِ خدا کی تلوار کے سامنے سرنگوں کیسے ہو جاتی ۔ دلیل کو دائم ملحوظ رکھنے والی تقدیر کیسے یہ گوارا کرتی کہ کوئی ادنیٰ حریف ان پہ غلبہ پائے ۔ تاریخ کی ہمیشہ باقی رہنے والی لوح پر اسے مقتول لکھا جائے۔ جنابِ خالد بن ولیدؓ کی زندگی تو خدا کو ایسی عزیز ہو گئی تھی کہ شام کے شہر حمص میں جب انہوں نے زہر پھانک لیا تو بھی وہ محفوظ و مامون رہے تھے ۔ ہتھیار ڈالنے والے عیسائیوں کے ترجمان پادری نے یہ کہا تھا: آج اگر معاہدہ نہ ہوتا تو وہ یہ زہر کھا لیتے ۔ اس پر خالدؓ نے وہ پڑیاں ان سے جھپٹ لیں ، نگل ڈالیں اور یہ کہا : موت ہمیشہ لکھے ہوئے وقت پہ آتی ہے ۔ بندے کے اس ولولہ انگیز ایمان پہ خالق نے زہر کی تاثیر ہی بدل ڈالی۔ ایمان ہر چیز پہ غالب آ سکتا ہے۔ 
خیر ، یہ تو ایک دوسرا موضوع ہے ۔ آج یہ ہے کہ آخر کار سبھی تھک جاتے ہیں ۔ آخر کار سبھی دستبردار ہوتے ہیں ۔اس سے پہلے کہ حکماً انہیں ہٹا دیا جائے ، بزرگ لیڈر کو اپنی شمشیر خود ہی نیام کر لینی چاہیے۔ ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved