تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     22-12-2014

سری لنکن انتخابات میں تشدد کاخطرہ

جس دوران سری لنکا میں آٹھ جنوری کو ہونے والے صدارتی انتخابات کا طبل بجا چاہتا ہے، انتخابی دوڑ میں کشیدگی کا عنصر غالب آتا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے طے شدہ وقت سے دوسال پہلے انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ دانائی پر مبنی دکھائی نہیں دیتا، لیکن اگر بیرونی دنیا سے آنے والا کوئی سیاح اس جزیرے کے جنوبی ساحل پر اترے تو اُسے احساس ہوگا کہ ان انتخابات میں حصہ لینے والے واحد امیدوار مہندا راجا پاکسی ہیں۔ ہر موڑ اور ہر چوک پر مسکراتے ہوئے رہنما کے پوسٹر ز اور تصاویر دکھائی دیں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ قدو قامت میں اس جزیرے پر ان کے مقابل کوئی نہیں۔ اگرچہ سری لنکا میں بھی انتخابی مہم پر ہونے والے اخراجات کی حدود متعین ہیں لیکن صدارتی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ پوسٹر صدر کے حامی افراد نے اپنے ذاتی اخراجات پر لگائے ہیں۔ 
یہ ابھی دیکھا جانا ہے کہ کیا یہ تشہیر مسٹر راجا پاکسی کو انتخابات میں فائد ہ پہنچا پاتی ہے یا نہیں۔ دوسری طرف ان کے حریف مسٹر متھرائی پالا سری سینا(Mr. Maithripala Sirisena)، جنہیں ''عام امیدوار‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اتنی تشہیر توکرتے دکھائی نہیں دیتے لیکن وہ کوئی گمنام شخص نہیں ہیں۔ اُن کی تمام سیاسی عمر موجودہ حکمران جماعت SELF کے ساتھ گزری، اور وہ اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے تک جا پہنچے، لیکن اب وہ اسے خیرباد کہہ کر مشترکہ اپوزیشن کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ 
اپنی صفوں میں محسوس کیے جانے والے اس نقصان کا حساب برابر کرنے کے لیے حکومت نے اپوزیشن ، UNP ، کے سیکرٹری جنرل کو ترغیبات دیتے ہوئے اپنی صفوں میں شامل کرلیا اور اُنہیں وزارت ِصحت تحفہ کی جو اس سے پہلے مسٹر سری سینا کے پاس تھی۔ ان اقدامات سے بہت سے رہنمائوں کا ''کراس اوور‘‘ دیکھنے میں آرہا ہے اور سیاسی اتحادوں میں نت نئی تبدیلیاں برپا ہورہی ہیں۔ کم و بیش ہر کیس میں، وفاداری تبدیل کرنے والے نے کہا کہ ''ضمیرکے بوجھ‘‘ کو مزید برداشت نہ کرتے ہوئے وہ پرانے اتحادکو چھوڑ نے پر مجبور ہوا، تاہم کولمبو میں ہونے والی گپ شپ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ ''ضمیر کے بوجھ‘‘ میں بھاری رقوم کا وزن بھی شامل تھا۔ 
اس صورت ِحال کی وضاحت سری لنکا کے اخبار ''سنڈے ٹائمز ‘‘ نے ایک دیومالائی کہانی میں اس طرح بیان کی ۔۔۔''سری لنکا کا ایک شہری فوت ہوجاتا ہے۔ مرنے کے بعداُس کی ملاقات جہنم میں موت کے دیوتا ، Yama ،سے ہوتی ہے۔ دیوتا کے ہاتھ میں بہت سے کلاک ہوتے ہیں جو مختلف رفتار سے حرکت کررہے ہوتے ہیں۔ اس نے دیوتا سے پوچھا کہ اس کے پاس اتنے کلاک کیوں ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہر کلاک کسی ایک ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کی سوئیاں اُسی رفتار سے چلتی ہیں جس رفتار سے اس ملک کے لوگ اپنے اصولوں کو تبدیل کرتے ہیں۔ اُس آدمی نے نگاہ دوڑائی اور پوچھا کہ سری لنکا کی نمائندگی کرنے والا کوئی کلاک دکھائی نہیں دیتا ، تو دیوتا نے ایک تیز رفتار پنکھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کلاک کو پنکھے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘
اس ملک میں تنقیدی صحافت کم و بیش جامد ہوچکی تھی کیونکہ بہت سے رپورٹروں اورمدیروں کی ٹھکائی کی گئی جبکہ کچھ کو اغوااور قتل بھی کیا گیا تھا لیکن اب انتخابات کی تاریخ قریب آتے ہی ملک میں تنقیدی صحافت سرگرم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز سیاسی مباحثے کے پروگرام نشر کررہے ہیں۔ ان میں حکومت اور اپوزیشن کے رہنمائوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ''سنڈے ٹائمز ‘‘ نے ایک معلومات افزا مضمون شائع کیا جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ انتخابی دھاندلی کے لیے کون کون سے ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اس کا مقصد غالباً اپوزیشن کو خبردار کرنا تھا کہ حکمران جماعت کامیابی کے لیے کیا کچھ کرسکتی ہے۔ ایک تو کالم ان ذرائع کی تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا اور دوسرا اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ پاکستانی قارئین ان سے بخوبی واقف ہیں۔ ان میں سے اکثر ہمارے ہاں استعمال ہوتے ہیں۔
تاہم انتخابات سے قبل دھاندلی(پری پول رگنگ)کا ایک طریقہ مضمون نگار نے بیان نہیں کیا جو صدر کے حامی استعمال کررہے ہیں ۔۔۔ یہ طریقہ فی الحال پاکستان میں استعمال نہیں کیا جاتا۔چونکہ صدر کے حامیوں کو انتخابات کی تاریخ‘ جبکہ ابھی اس کا باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا، کا علم تھا اس لیے اُنھوں نے ملک بھر میںایسے میدانوں کو ایڈوانس بک کرالیا ہے جہاں انتخابی جلسے منعقد کیے جائیں گے۔ مختلف تنظیموں کے فرضی ناموں سے ان میدانوں کو مسلسل بک کرلیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب وہاں اپوزیشن کو جلسے کرنے کی تاریخ نہیں ملے گی۔ مترا (Matra) میں ہونے والی اپوزیشن کی ایک ریلی کے دوران سائونڈ سسٹم کے لیے دی جانے والی بجلی کی سپلائی پراسرار طور پر معطل ہوگئی۔ 
انتخابات کی تاریخ کو سیاحت کے سیزن کے درمیان میں رکھنے کی وجہ سے سری لنکا کی سیر کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگئی ہے۔ سری لنکا میں سیاحت غیر ملکی زرِ مبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہے، چنانچہ بہت سے ٹور آپریٹرز دبائو کا شکار ہیں۔ بہت سی حکومتوں نے اپنے شہریوں کو انتخابات کے موقع پر سری لنکا جانے سے خبردار کردیا ہے۔ روسی شہریوں کی ایک بڑی تعداد سری لنکا کی سیر کرتی تھی، لیکن روبل کی قدر میں کمی کا سری لنکا کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اُس طرف سے سیاحوں کی آمد تعطل کا شکار ہے۔ 
فی الحال مسلمان اور تامل سیاسی تنظیموں نے اپنے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا ۔ سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے پڑنے والے دبائو سے بچنا چاہتے ہیں۔ تاہم امکان ہے کہ آٹھ جنوری کوان دونوں قومیتوں کے افراد اپوزیشن کے امیدواروں کو ووٹ دیںگے۔ چونکہ ماضی قریب میں مسلمان اور کیتھولک عیسائیوں کو بدھ مذہب کے انتہا پسندوں کے حملوں کا سامنا رہا ہے، اس لیے وہ کسی طور پر راجا پاکسی کو ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ اُنھوں نے ان کا تحفظ کرنے کی کوئی کوشش 
نہیں کی ۔ اسی طرح تامل باشندے بھی جنگ ختم ہونے کے پانچ سال بعد بھی اس کے زخموں کی کسک محسوس کررہے ہیں۔ حالیہ دنوں'' سنٹر فار پالیسی الٹر نیٹوز‘‘ کی طر ف سے کیا جانے والا ایک آن لائن سروے چلنے والی ہواکی کچھ نشاندہی کرتا ہے۔ اس سروے میں مختلف عمرکے چودہ سو کے قریب افراد نے اپنی رائے دی۔ اس کے مطابق چوبیس فیصد کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت جیتے گی، لیکن زیادہ تر کا خیال تھا کہ چونکہ رائے دہندگان کے ذہن میں حکمران جماعت اور خاندان کی طرف سے کی جانے والی دھاندلی ہوگی ، اس لیے وہ اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ تاہم اس آن لائن سروے میں بدھ انتہا پسندوں کی رائے شامل نہیں تھی ، اس لیے راجا پاکسی کی انتخابی پوزیشن اتنی کمزور نہیں جتنی یہ سروے ظاہر کرتا ہے۔ ''سنڈے ٹائمز ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں انورا گھن سکرا(Anura Ghanasekra) لکھتے ہیں۔۔۔ ''اس ملک کی حکومت ایک خاندان کے ہاتھ میں رہی۔ اس سے تعلق رکھنے والے افراد اور ان کے دوستوں نے جی بھر کے مفاد حاصل کیا ۔ اس خاندان کے سامنے عدلیہ اور عسکری ادارے دبے ہوئے ہیں جبکہ پولیس اور سول انتظامیہ ان کی سرپرستی میں کام کرتی ہیں۔ ان کے ذریعے حکمران، یعنی خاندان کے افراد، کی مرضی ہی چلتی ہے۔ ‘‘اس طرح موجودہ سری لنکا میں ہونے والی انتخابات میں ناقدین کو تشدد کا عنصر غالب دکھائی دیتا ہے ۔ انہیں خدشہ ہے کہ مسلمان اور تامل علاقوں میں خونریزی ہوگی۔ اگرچہ غیر ملکی الیکشن آبزرورز پہنچنا شروع ہوگئے ہیں لیکن انہیں حکومت اور اس کے فراہم کردہ مترجم حضرات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ دھاندلی کے اپنائے جانے والے اُن ''جدید طریقوں‘‘ سے ناواقف ہیں جو دنیا کے اس خطے میں مستعمل ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved