آج کل شاعری کی زیادہ تر مایوس کن کتابیں موصول ہو رہی ہیں؛ تاہم سیالکوٹ سے آنے والا یہ مجموعہ ''محبت بدلتی رہتی ہے‘‘ جس کے خالق شجاع شاذ ہیں اور جس کا پس سرورق شہزاد نیّر نے لکھا ہے اور جسے ادارۂ فکرو دانش لاہور نے شائع کیا ہے اور قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے۔ مجھے بہتر لگا ہے‘ آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے اس سے منتخب اشعار پیش ہیں:
کنول کا بیج ہوں اور خاک میں پڑا ہوا ہوں
دعا کرو میں کسی جھیل تک پہنچ جائوں
جب کوئی اور بدن پورا نہیں آئے گا
مجھ سے بچھڑی ہوئی پوشاک مجھے ڈھونڈے گی
میں آفتاب پہ چلتا ہوں اور سوچتا ہوں
تمہارے حسن کی قندیل تک پہنچ جائوں
زندگی کا اچانک سبب مل گیا
دل میں ہی خواہش خودکشی رہ گئی
مجھ کو بھی کوئی شاذؔ نہ لے جائے شاخ سے
پھولوں کی ہر دکان سے لگتا ہے ڈر مجھے
سانس لیتا ہوں‘ خون جلتا ہے
آگ شامل نہ ہو ہوا میں کہیں
آخر آنا پڑا زمیں پہ مجھے
آشیانہ نہ تھا فضا میں کہیں
میں چاہتا تھا جیت لے وہ زندگی کی جنگ
میدان میں کھڑا تھا میں شمشیر کے بغیر
میں گردِ رہ کی طرح اس کے ساتھ ساتھ تھا شاذؔ
بڑے جتن سے ہوا وہ مری نظر سے دور
چھپ گئے عیب مرے بھی سارے
تیرے دربار کی چادر ہُوا میں
شاذؔ ٹھوکر بھی ہے اعزاز مرا
اُس کے رستے کا جو پتھر ہوا میں
پیار کر کے مجھے تباہ کیا
یعنی کاٹا مجھے شجر کر کے
میں سمجھتا تھا تیری منزل ہوں
تو بھی گزرا ہے رہگزر کر کے
شاذؔ خاموش نہیں‘ محو ہوں دھڑکن میں کہیں
دل دھڑکتا ہے تو لگتا ہے صدا اُس کی ہے
زندگی جس پر سکوں سے سو رہی تھی
مجھ کو حیرت ہے وہ بستر موت کا تھا
شاذؔ آنسو بچھا کر مری راہ میں
وہ سفر میرا دشوار کرنے لگا
تعبیر کی شدید اذیت میں مر گیا
مرنا تھا خواب میں جو حقیقت میں مر گیا
دیمک سا کھا رہا تھا جدائی کا غم اِسے
چُپ چاپ دل کسی کی محبت میں مر گیا
زمیں پہ چاند اتارا نہیں کسی نے شاذؔ
جو تم کرو تو یہ اعزاز بس تمہارا ہے
اپنے دل کا دروازہ کھول کر میں بیٹھا ہوں
سب اسی میں رہتے ہیں جن کا گھر نہیں ہوتا
مصروفِ عشق گر نہیں‘ بیکار ہے یہ دل
اک بحر لازمی ہے سفینے کے واسطے
جب کچھ نہیں ملا تو وہاں بیج بو دیئے
کھودی تھی جو زمین دفینے کے واسطے
لڑکھڑاتے ہوئے جھونکے نے کہا
تم بھی موسم سا بدلتے مرے ساتھ
زخم نیا بھی دو تو کیا
ہم کو بھُلا بھی دو تو کیا
دریا پیاسا رہتا ہے
دشت پِلا بھی دو تو کیا
ہنستے اچھے لگتے ہو
مجھ کو رُلا بھی دو تو کیا
چلنے والے تو چلتے ہیں
بوجھ بڑھا بھی دو تو کیا
صحرا صحرا رہتا ہے
پھول کھلا بھی دو تو کیا
راکھ تو یوں بھی راکھ ہی ہے
راکھ اُڑا بھی دو تو کیا
حال یہ ہے کہ تری یاد کا صحرا اب تو
میری آنکھوں سے چھلکتا ہے سمندر کی طرح
میں کہانی ہوں اُجالوں کی‘ مرا دُکھ یہ ہے
رات کے ہاتھ سے تحریر مجھے ہونا ہے
پھر تعاقب میں تمہارے ہے ستارہ میرا
پھر کسی رات کا رہگیر مجھے ہونا ہے
کیا شخص تھا کہ جس کو نہیں جیت پائے ہم
کیا شخص تھا کہ ہم سے جو ہارا نہیں گیا
آج کا مطلع
جو لگا ہی نہیں ہے دل پہ داغ
میں اسی کا لگا رہا ہوں سراغ