کینیڈا میں طویل عرصے سے جاری خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں کیوبا اورامریکہ نے 1961ء سے منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان 17دسمبر کوکیا ہے۔ 19دسمبرکو کیوبا کی''عوامی طاقت کی قومی اسمبلی‘‘(پارلیمنٹ ) نے متفقہ طور پر قرارداد منظورکر کے اس فیصلے کی توثیق بھی کر دی ‘لیکن اس معاملے میں جہاں امریکی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں وہاں کیوبا کے عوام بھی تحفظات اور تذبذب کا شکار ہیں۔
سامراجی میڈیا پر جوکیوبا دکھایا جاتا ہے اس میں 1950ء ماڈل کی گاڑیوں اور پرانی عمارات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس بات کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے کہ کیوبا میں علاج اور تعلیم بالکل مفت ہیں۔ 1959ء میں امریکی کٹھ پتلی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے انقلاب کے بعد صرف ایک سال میں ہنگامی پلان کے تحت کیوبا میں سے ناخواندگی کا خاتمہ کردیاگیا تھا۔کیوبا کا پبلک ہیلتھ کیئر سسٹم دنیا بھر میں بہترین اور مؤثر ہے اور خود سی آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق اوسط عمر امریکہ سے زیادہ ہے۔ غذائی قلت کا تصور نہیں ، نصف دہائی سے امریکہ کی تجارتی پابندیوں میں جکڑے، معدنی وسائل سے عاری اور تکنیکی طور پر پسماندہ ملک میں یہ سب حاصلات سرمایہ داری کے خاتمے کی وجہ سے ممکن ہوئے۔
امریکہ سے سفارتی تعلقات کی بحالی پرکیوبا کے عوام کے ردعمل کے بارے میں 18دسمبر کو شائع ہونے والی جرمن خبر رساں ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ''کچھ لوگوں میں جہاں تعلقات کی بحالی کی خواہش ہے وہاں تشویش کا عنصر بھی بڑے پیمانے پر حاوی ہے۔ اکثریتی آبادی اس خدشے کا اظہارکر رہی ہے کہ اس سے کیوبا پر ثقافتی یلغار ہوگی، جرائم اور منشیات کو فروغ ملے گا۔ تعلیم اور علاج کے شعبوں میں ترقی یافتہ ترین ممالک کو مات دینے والے اس ملک میں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے‘‘۔
سفارتی تعلقات کی بحالی کا یہ معاہدہ درحقیقت امریکی سامراج کی ناکامی کا غماز ہے۔ وائٹ ہائوس نے اعتراف کیا ہے کہ ''کیوبا پر معاشی پابندیوں اور تعلقات منقطع کرنے کی پالیسی 'بہتر ارادے‘ سے اختیار کی گئی تھی لیکن بے اثر رہی ہے ‘‘۔ پچھلے 55 سال کے دوران امریکی سامراج نے کیوبا کے انقلاب کو کچلنے کے لیے براہ راست مسلح مداخلت سے لے کر تجارتی و معاشی پابندیوں اور زہریلے پروپیگنڈے جیسے طریقے استعمال کیے ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے 685 ملین ڈالرکا نقصان کیوباکو ہر سال برداشت کرنا پڑا ہے۔
کیوباکی75فیصد صنعت اور70 فیصد زرعی زمین امریکی اجارہ داریوں کے تسلط میں تھی ‘جسے انقلاب کے بعد قومی تحویل میں لے کر سامراجی ڈاکہ زنی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ منڈی کے معیشت کے خاتمے کے بعد منصوبہ بند معیشت رائج کی گئی جس سے تیز سماجی و معاشی ترقی ہوئی۔ اس ترقی میں سوویت یونین سے ملنے والی تجارتی سبسڈی اور تکنیکی امداد کا بھی عمل دخل تھا لیکن سوویت یونین کے اثر و رسوخ کے کچھ منفی پہلو بھی تھے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد 1991ء تا 1994ئکیوبا کی معیشت کو شدید دھچکا لگا لیکن تمام تر نامساعد حالات کے باوجود عوام نے قربانیاں دے کر منصوبہ بند معیشت کا تحفظ کیا۔ آج بھی عوام کی اکثریت ہر حال میں انقلاب کی حاصلات کا دفاع کرنا چاہتی ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد ''سوشلزم ختم ہوچکا‘‘ کے سامراجی پروپیگنڈے کے خلاف کیوبا کے عوام ڈٹے رہے۔ اسی دوران 1998ء میں ہوگوشاویز وینزویلا کا صدر منتخب ہوا ‘جس سے کیوبا کی معیشت کو ایک نئی زندگی ملی۔ وینزویلا نے کیوبا کو سستا تیل فراہم کرنا شروع کیا ‘جس کے بدلے کیوبا نے وینزویلا میں مفت علاج کا جدید نظام تعمیر کرنے میں مدد فراہم کی‘ لیکن عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے غلبے میں ایک ملک کے اندر سرمایہ داری سے متضاد معاشی نظام کو طویل عرصے تک قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ سوویت یونین کی زوال پزیری اور انہدام نے اس مارکسی تناظرکو منفی انداز میں درست ثابت کیا ہے۔کیوباکو آج بھی اسی خطرے کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر تنہائی کی شکار معیشت کو سامراجی حکمران اپنی تلخ اقتصادی اور تجارتی شرائط کے ذریعے مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘جس کے نتیجے میں حکمران بیوروکریسی میں ایسے رجحانات ابھرتے ہیں جو ''چینی ماڈل‘‘ کی طرز پر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ یہ ''چینی ماڈل‘‘ اپنے تضادات کے تحت ٹوٹ کے بکھر رہا ہے لیکن کمیونسٹ پارٹی آف کیوبا میں اس سے متعلق خوش فہمی رکھنے والے رجحانات موجود ہیں۔
کیوبا کی طرف رویے میں امریکی سامراج کی یہ تبدیلی درحقیقت واردات کا دوسرا طریقہ کار ہے۔ مارکس کے الفاظ میں اب کیوبا پر ''سستی مصنوعات کے توپ خانے سے بمباری‘‘ کی جائے گی۔ نیویارک ٹائمز 15دسمبر کے اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ''کیوبا کی قیادت میں معاشی پالیسیوں پر پھوٹ جنم لے چکی ہے۔ پرانے نظریاتی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ منڈی کی معیشت کیوبا کو عدم مساوات اور انتشار کا شکار کر دے گی، واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ ''اصلاح پسند‘‘ دھڑے کو مضبوط بنائے، کیوبا کے نئے سرمایہ داروں کو مالی امداد اور تربیت فراہم کرے‘‘۔ لاطینی امریکہ کی مشہور کہاوت ہے : ''امریکہ میں فوجی بغاوت اس لیے نہیں ہوتی کہ وہاں امریکی سفارت خانہ نہیں ہے‘‘۔ اور امریکی سفارت خانہ اب کیوبا میں کھلنے جارہا ہے۔ اگر سرمایہ داری بحال ہوئی تو کیوبا کے عوام غربت اور بیروزگاری کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہو جائیں گے۔
کیوبا میں 1959ء کا سوشلسٹ انقلاب کمیونسٹ پارٹی نے نہیں بلکہ فیڈل کاسترو اور چی گویرا کی قیادت میں ''26 جولائی کی تحریک‘‘ نامی گوریلا تنظیم نے برپا کیا تھا۔ اس وقت کی روس نواز ''کمیونسٹ پارٹی‘‘ کے تین وزیر بیٹسٹا کی وحشی آمریت کا حصہ تھے۔ یکم جنوری کو انقلابی فوج کے دارالحکومت ہوانا میں داخل ہونے سے قبل ہی محنت کشوں نے ایک خود رو تحریک سے امریکی اور مقامی سرمایہ داروں کی صنعتوں پر قبضہ کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا۔ انقلابی حکومت کو مجبوراً اس عمل کی توثیق کرنا پڑی۔ بعد ازاں امریکی سامراج کے مقابلے میں کیوبا کو سوویت یونین سے مدد طلب کرنی پڑی۔ سوویت یونین پر براجمان سٹالنسٹ قیادت، اس انقلابی حکومت کو اپنی طرز کے ''ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کے افسرشاہانہ ریاستی ڈھانچے میں تبدیل کرنے لگی۔ چی گویرا کا تعلق چونکہ ارجنٹینا سے تھا، لہٰذا مارکسزم سے انحراف کرتے ہوئے قوم پرستانہ بنیادوں پر فیڈل کاسترو کو ریاست کا سربراہ بنا دیا گیا ،اگرچہ کاسترو اس وقت مارکسسٹ یا کمیونسٹ نہیں تھا۔اس کا ہیرو ولادیمرلینن نہیں بلکہ ریڈیکل امریکی صدر تھامس جیفرسن تھا۔ موجودہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کا جنم انقلاب کے 6سال بعد 3اکتوبر 1965ء کو ہوا تھا۔
چی گویرا مبہم انداز میں ہی سہی لیکن مارکسی بین الاقوامیت کے زیادہ قریب تھا لہٰذا روسی افسر شاہی سے اس کے اختلافات ناگزیر تھے‘ لیکن چی کی مقبولیت کی وجہ سے ماسکو نے اس پرکوئی وار نہیںکیا۔کیوبا کے بعد بین الاقوامی انقلاب کے نظریات کے تحت چی گویرا نے افریقہ اور لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک میں سامراج اور سرمایہ دارانہ مخالف تحریکوں اور گوریلا جنگوں میں بھرپور کردار ادا کیا۔ سی آئی اے نے 9اکتوبر1967ء کو اسے بولیویا میں قتل کروا دیا۔ 2006ء میں اسی بولیویا میںایوومورالس کی سوشلسٹ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد چی گویرا کو پورے لاطینی امریکہ کے انقلابی ہیرو کا درجہ دیا گیا اور اس کی یاد میں تقاریب منعقد ہوئیں۔
محنت کش اور مظلوم عوام کی بین الاقوامی جڑت کی وہی پالیسی آج کیوبا کے انقلاب کی بقا کے لیے ضروری ہے جسے چی گویرا اپنے آخری ایام میں لیون ٹراٹسکی کی تصانیف پڑھ کر نکھار رہا تھا۔ امریکی سامراج کی منافقانہ سفارت اور سرمایہ دارانہ تجارت دونوں مل کر وہ کچھ کر سکتے ہیں جو نصف صدی کی تجارتی پابندیاں اور فوجی جارحیت نہیں کر پائی۔ ان حالات میں وینزویلا، بولیویا، ایکواڈور اور لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک میں سوشلزم کا ابھارکیوباکے انقلاب کو نئی شکتی دے سکتا ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کیوبا کو محنت کش عوام کی انقلابی تحریکوں کے ساتھ جوڑ کر ہی سرمایہ داری کی بربادی سے بچایا جاسکتا ہے۔