وزیراعظم کا یہ کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کااتحاد دہشت گردی کو کچلنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ پہلا قدم بہت پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا لیکن بوجوہ ایسا نہیں کیاگیا۔ الطاف بھائی نے سالہا سال پہلے طالبانائزیشن کے خطرے سے آگاہ کیا تھا لیکن کسی نے اس پر کان نہ دھرا بلکہ ایک آدھ کو چھوڑ کر جملہ سیاسی جماعتوں میں سے کچھ تو علی الاعلان اس طبقے کے ساتھ ہم آواز تھیں اور کچھ ان کے ساتھ دلی ہمدردی کے جذبات سے مالا مال ‘حتیٰ کہ رائٹ کی ساری کی ساری ‘خصوصاً دینی سیاسی جماعتیں اپنے جذبات کو چھپانے کی بھی روا دار نہیں تھیں‘ اور تو اور گزشتہ عام انتخابات کی مہم کے دوران بعض کالعدم تنظیموں کے ارکان جلسوں میں سٹیج پر بیٹھے بھی نظر آئے اور اب الطاف بھائی نے داعش کی پاکستان میں موجودگی اور خفیہ سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا لیکن حکومتی سطح پر اس سے باقاعدہ انکار کیاگیا‘ حالانکہ اس جماعت کی طرف سے وال چاکنگ کے واقعات ملک کے کئی حصوں میں رونما بھی ہوچکے ہیں۔ چنانچہ اب جب طالبان کا سرطان جسدقومی میں پوری طرح پھیل چکا ہے تو اس کے قلع قمع کی جانب پہلا قدم اٹھنے کی خوشخبری سنائی جارہی ہے!
اس کے ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ سب پر عیاں ہے ‘لیکن برائی کو جب تک جڑ سے نہ اکھاڑا جائے اسے تلف نہیں کیاجاسکتا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کی نرسریاں بدستور موجود رہتی ہیں تو طالبان کے قلع قمع کے لیے قدم اٹھائے بھی جاتے رہیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ہمارے بعض مدرسوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ طالبان کے پودوں کی پرورش یہیں پر ہوتی ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے فی الحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ مقصد یہ نہیں کہ ان مدرسوں کو ختم کردیا جائے بلکہ یہ ہے کہ نہ صرف ان کی نگرانی کی جائے بلکہ کوئی ایسا انتظام کیاجائے کہ یہاں صرف دینی تعلیم دینا ہی ممکن ہو۔
بعض ادارے اورجماعتیں ایک تو یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ یہ طالبان ہی ہیں جو ملک عزیز میں صحیح اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں‘ اس لیے ان کی ظاہر و خفیہ ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوتی چلی گئیں جبکہ حکومت کی بے عملی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔مدرسوں میں طلبہ کے لیے ایک کشش یہ ہے کہ یہاں ان کے طعام و قیام و دیگر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ اکثر والدین محض اپنی تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر بھی اپنے بچے ان مدرسوں میں چھوڑ آتے ہیں کیونکہ غربت کی وجہ سے وہ ان کی کفالت نہیں کرسکتے‘ اور اس طرح دونوں کی گاڑی چلتی رہتی ہے ‘مدرسوں کی بھی اور والدین کی بھی۔ بعض اطلاعات کے مطابق کچھ مدرسوں میں اسلحے کے ذخائر بھی ہوتے ہیں جس سے طلبہ کو ٹریننگ بہم پہنچائی جاتی ہے لیکن حکومت نے اس سطح پر کبھی کوئی کارروائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اس بیماری کو پھیلانے میں ان فرقہ پرست اور مختلف عقائد کے حامل افراد کا بھی ہاتھ ہے جو اپنے لٹریچر اور لائوڈ سپیکر کے ذریعے دن رات ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ خاص طور پر اس سے مسلکی ماحول کو بری طرح پراگندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اہل تشیع اس حوالے سے زیادہ زیر عتاب رہتے ہیں جبکہ سندھ اور بلوچستان سے اس ضمن میں افسوسناک خبریں آئے دن موصول ہوتی رہتی ہیں۔ حکومت سے یہ تک نہیں ہو سکا کہ کم از کم خطبہ جمعہ کے بارے میں ہی کچھ اقدامات کرلیے جاتے اور اس زہریلے پروپیگنڈے کا کچھ سدباب ہوسکتا‘ حالانکہ مسجد سے لائوڈ سپیکرپر صرف اذان کا حکم ہے یا خطبہ جمعہ کا‘ لیکن یہ حضرات ہر روز بلکہ ہر وقت حسب توفیق اس کار خیرمیں لگے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ ان حضرات کے نزدیک اذان کے اوقات بھی مختلف ہیں اور یہی دیکھا گیا ہے کہ ایک وقت کی اذان بھی مختلف مسجدوں سے ہوتی ہوئی کوئی پندرہ بیس منٹ لے لیتی ہے جبکہ اکثر اسلامی ملکوں میں اتنی اذانوں کی بجائے ایک ہی اذان کا اہتمام کیا جاتا ہے جو اپنے طور پر پوری آبادی کے لیے کافی ہوتی ہے۔
حق تو یہ تھا کہ پورے ملک میں جہاں تین تین نظام ہائے تعلیم رائج ہیں ان کی بجائے ایک ہی نصاب ہر ایک ادارے میں پڑھایا جائے جس سے معاشرے میں موجودہ خوفناک معاشی تقسیم و تفریق سے نجات حاصل ہوسکتی ہے جو اس ساری خرابی کی جڑ ہے۔آئینی اور اصولی طورپر حکومت بچوں کو مفت تعلیم مہیا کرنے کی پابند ہے لیکن جہاں کروڑوں بچوں نے کبھی سکول کی صورت ہی نہیں دیکھی ‘وہاں سرکاری سکولوں کی حالت مزید ابتر ہے، کہیں سکول کی عمارت نہیں تو کہیں استاد نہیں جبکہ اساتذہ کی غیر حاضری ایک معمول کی بات ہے۔ گھوسٹ سکول اس کے علاوہ ہیں حتیٰ کہ اکثر مقامات پر اساتذہ کی خالی اسامیاں سالہا سال تک پُر نہیں کی جاتیں چنانچہ جو بچے سکول نہیں جاتے وہ یا تو چوری اور ڈکیتی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا دہشت گردی کا۔
حکومت کے پاس ایسے اعدادو شمار بھی نہیں ہیں کہ کون سے مدرسے تسلی بخش طور پر اپنا اصل کام کررہے ہیں اور کون سے انتہا پسندوں کی پنیری پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اگر کہیں ارباب اختیار کے نوٹس میں ایسی کوئی بات آتی بھی ہے تو مجرمانہ غفلت شعار کی جاتی ہے۔ پولیس بھی ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے زیادہ تر کنی کترانے ہی کی کوشش کرتی ہے اور ان سب پر مستزاد یہ کہ ہمارا انٹیلی جنس نظام اس قدر ناقص ہے کہ دہشت گردی کی جو بھی واردات ہوتی ہے پتہ چلتا ہے کہ اس کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی حالانکہ کہا یہی جاتا ہے کہ اطلاعِ پیشگی بہم پہنچا دی گئی تھی۔
حد یہ ہے کہ اب یہ لوگ کچھ اہم اداروں میں بھی نفوذ کرچکے ہیں ‘بعض وارداتوں سے جس کا ثبوت بھی فراہم ہوچکا ہے کہ بعض عسکری اداروں پر حملے کے بعد ثابت ہوا ہے کہ دہشت گردوں کو ادارے کے اندر سے بھی مدد میسر آتی تھی‘ کیونکہ یہ خوش فہمی جگہ جگہ پر موجود تھی کہ یہ لوگ صحیح یا خلافتی نظام اسلام نافذ کرنے والے ہیں، چنانچہ دین پسند اہلکار اس بھرّے میں آکر اپنی ہمدردیاں ان سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ لہٰذا خطرہ یہی ہے کہ آپریشن ضرب عضب کامیاب ہونے کے باوجود اس عفریت سے نجات حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ یہ تو ہر جگہ پھیلے ہوئے اور خود ہمارے اندر موجود ہیں اور وزیرستان میں صورتحال بہتر ہو بھی گئی تو شہروں کے شہر ان کے ہر وقت ٹارگٹ پر ہیں ‘اس لیے اطمینان کی بجائے فکر مندی کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ حکومت تو ان کے سامنے پہلے ہی بے بس نظر آتی ہے۔ (جاری)
آج کا مطلع
حضرتِ دل تو اس دفعہ صاف نکل نکل گئے
ہجر کی آگ میں مگر ہاتھ ہمارے جل گئے