تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-12-2014

فیصلے کی گھڑی

جس معاشرے میں سچ کو خطرے کی علامت بنا دیا جائے، وہاں آسمان سروں سے کھینچ لیا جاتا ہے اور زمین قدموں کے نیچے سے سرکنا شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں خواب و خیال چھین لیے جائیں ،وہاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم انسانوں میں رہ رہے ہیں یا جانوروں کے ساتھ جی رہے ہیں ، ہماراپتھروں سے واسطہ ہے یا پتھر دلوں سے۔افواجِ پاکستان سے اظہار یک جہتی کے لیے کراچی میں ایم کیوایم کی جانب سے نکالی گئی ریلی میں لال مسجد اور مولوی عبدالعزیزکی جامعہ حفصہ کے بارے میں سچ بولتے ہوئے ،اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ الطاف حسین کی طرح ایک مشہور صحافی کالم نگار نے ٹویٹ میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے سچ بولتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ''مشرف لال مسجد کے مولوی عزیز اور افتخار چوہدری کے بارے میں سچ کہتے تھے لیکن اس وقت ہم نے نہ جانے کیوں زہریلے لہجوں میں ان کی سخت مخالفت کی‘‘ وہ اپنے ٹویٹ میں ایک نام لکھنا شاید بھول گئے ،جو اپنی طاقت کے ذریعے افواج پاکستان کی کردار کشی اور اس کے خلاف عوامی نفرت ابھارنے میں اپنے آقائوں کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ہر حد سے گزرگئے ، لیکن سچائی روشنی کا مینار بن کر سامنے آ کر رہتی ہے، کیونکہ سچ خدا کی صفت ہے اور سچ کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔
جب پاکستان کے ہر گھر سے ہچکیوں کی آوازیں آ رہی تھیں،
جب ملک کی فضائیں سوگوار تھیں، جب پھول جیسے بچوں کے جنازے شہر شہر گلی گلی سے اٹھ رہے تھے ،جب آرمی پبلک سکول پشاور کے درو دیوار معصوم روحوں کے قتل عام سے خون کا دریا بنے ہوئے تھے ،جب مائیں اپنے ہوش و حواس اور باپ اپنا صبر کھو رہے تھے ،جب ہر آنکھ سے آنسوئوں کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور ہر شہر سے آہ و فغاں کا دھواں اٹھ رہا تھا،ایسے وقت میں لال مسجد سے ایک آواز ابھرتی ہے اور کروڑوں دلوں کو چھلنی کر دیتی ہے۔اس آواز کی گرج ان گولیوں سے مناسبت رکھتی دکھائی دیتی ہے جو148 افراد کے منہ ،سر اور سینوں پر برسی تھیں۔لوگ حیران رہ گئے کہ ابھی تو ان معصوم فرشتوں کے جنازے بھی نہیں اٹھائے گئے تھے ،ابھی تو ان کی نما زہ جنازہ بھی ادا نہیں کی گئی، ابھی تو ان کی قبروں کے لیے پاکستان میں جگہ جگہ کھدائیاں کی جا رہی تھیں،ابھی تو ان کی قبروں پر ڈالنے کیلئے پھولوں کی چادریں تیار کی جا رہی تھیں کہ اسلام آباد ،جو اس ملک کا دار الحکومت ہے ،کی ایک مسجد کا امام اپنے حجرے میں نہیں،اپنے شاگردوں کی محفل میں نہیں ،بلکہ ایک نجی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر 132 بچوں اور16سٹاف ارکان کی شہادت کا جواز دے رہا تھا کہ یہ سب آپریشن ضرب عضب کا رد عمل ہے، جب آپ ان کو ماریں گے تو تحریک طالبان کے لوگ آپ کو کیوں نہ ماریں؟۔ جس نے بھی یہ سنا، اسے یقین نہ آیا کیونکہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسے وقت، جب سب شدت غم
سے رو رہے تھے ،جب چیخیں پوری ملکی فضا میں گونج رہی تھیں، ایسے کرب ناک وقت میں کوئی اس غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی قوم کے بہتے ہوئے زخموں پر اس قسم کی نشتر زنی کر سکتا ہے؟
اس ملک کے بعض گروپوں نے لال مسجد کے ذریعے اس ملک کی سالمیت سے کھیلنے کی بھر پور کوشش کی اور ہر چھوٹا بڑا سیا ستدان اپنی سیا سی دکانداری چمکانے کیلئے وہاں حاضری دینے لگا ۔لال مسجد سے پاکستان کی سر حدوں کو کمزور کرنے کیلئے یہ کوئی نیا حملہ نہیں ہے بلکہ مولانا عبد العزیز نے 2005 ء میں بھی اسی طرح کا فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہاتھا کہ فوج کے وہ افسر اور جوان یا پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں سے متعلق لوگ جو طالبان سے مصروف
جنگ ہیں اگر مارے جائیں تو وہ شہید نہیں کہلائیں گے اور ان کی نماز جنازہ پڑھانا جائز نہیں ہو گا۔یہی وجہ تھی کہ اس وقت کے فوجی حکمران جنرل مشرف نے لال مسجد کے اس خطیب پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد پروپیگنڈے میں بہہ کر فوج کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی لڑکیاں لاٹھیاں اور بھالے لے کر مقابلے میں آ گئیں اور ان کی مدد کیلئے راکٹ لانچر اور کلاشنکوفوں سے مسلح افراد کے جتھوں نے آدھے اسلام آباد پر اپنی حکومت قائم کر لی جہاں وہ اپنی عدالتیں قائم کرتے ہوئے جس کو چاہتے اٹھا کر لے آتے اور اپنا ہی تیار کردہ شریعتی انصاف نافذ کر دیتے۔ 
لال مسجد فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میں تعمیر کی گئی اور فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے لال مسجد کو افغان جہاد کیلئے سرپرستی میں لیا اور اسی لال مسجد نے تیسرے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے گرد نفرت کا دائرہ کھینچ دیا ۔ 1965ء میں اسلام آباد کے سیکٹرایچ 11میں جب وزارت خزانہ حکومت پاکستان کی مدد سے یہ مسجد تعمیر کی جا رہی تھی تو اس وقت کسی مزدور، کسی راج اور مستری نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ ان کی بنائی ہوئی یہ مسجد ایک دن ا س ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی، اس مسجد کی دیوا روں سے اٹھنے والا طوفان اس ملک کو ہلا کر رکھ دے گا اور یہ مسجد ا س ملک کے طا قتورفوجی حکمران کو اس قدر بے بس اور تنہا کر دے گا کہ اسے تاج و تخت چھوڑ نا پڑ جائے گا اور اسی لال مسجد کا ایک امام 132 معصوم بچوں اور انہیں تعلیم دینے والے اساتذہ اور سٹاف کے 16 معزز ا رکان کو قتل کرنے والوں کو اس جرم عظیم سے بری کرنے کا حکم سنائے گا؟ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس سے سبق حاصل کرسکیں گے؟ شاید ہی ایسا ہو کیونکہ میڈیا پر بیٹھے ہوئے کچھ لوگ اپنے مہربانوں کے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور لگتا ہے کہ اپنے چہروں کی سیاہی دوسروں کے چہرے پر مل کر ''داد‘‘ وصول کرنے میں مصروف ہیں ۔انہیں ایسا کرتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ اگر اپنی اپنی لغزشوں، حماقتوں اور فریب کاریوں کو سامنے رکھ لیں تو پھر سب کو اپنے سر جھکانے پڑ جائیں گے ۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم بیس کروڑ لوگ اس قابل ہیں کہ ایک لاکھ کے قریب بچوں، بوڑھوں، مردو خواتین اور سکیورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں کے قاتلوں کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہو کر ثابت کر سکیں کہ '' ابھی ہم زندہ ہیں‘‘۔ ؎
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلمان، بنا کے تقدیر کا بہانہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved