تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     23-12-2014

کرنے کے پانچ کام

سال بھر پہلے کی بات ہے کہ الشیخ مولانا جہانگیر محمود کے ساتھ ناشتے پر نشست تھی ۔ لاہور کے کئی ثقہ صحافی ‘جو عام طور پر دوپہر بارہ بجے سے پہلے اٹھنے کے عادی نہ تھے، چھٹی کے روز صبح سویرے‘ غریب خانے شیخ سے ملاقات کے لالچ میں آگئے۔ گفتگو کا آغاز سوالاً جواباً ہوا، ہم ان سے اسلامیات پر بات کرنے کے لیے بیتاب اور وہ ہم سے حالات حاضرہ پر تبصرے سننے کے لیے بے چین۔ ہم انہیں اسلام پر گفتگو کے لیے اپنی دانست میں کوئی بحث خیز موضوع چھیڑتے تو وہ حسبِ عادت ہمارے عقائد کو درست اور اعمال کو خدائی معاملہ قرار دے کرسلسلہء کلام ملکی حالات کی طرف موڑ دیتے۔ یکا یک عمران شفقت نے مذہبی انتہا پسندی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کو موضوع بنایا تو وہ بھی طالبان کی پیدائش، ان کے عقائد اور طرزِ عمل پر بات کرنے لگے۔طالبانی نظریات کی تاریخی تناظر میں وضاحت اوربہت کچھ بتانے کے بعد تھوڑا رُکے اور پھر صاف دکھائی دینے والی پریشانی سے کہنے لگے ــ، ' موجودہ انتہاپسندی کا اگلا مرحلہ شاید یہ ہو کہ ایک ایسی نسل پروان چڑھائی جائے جو اپنے سوا ہم سب کو کافر سمجھے اور ہمارے جان ومال اور عزت و آبرو کو خود پر مباح قرار دے لے‘ مجلس میں موجود سب لوگ ان کا تجزیہ سن کر لمحہ بھر سنّاٹے میں آگئے لیکن پھر کوئی ایسا نکتہ اٹھا کہ بات رخ بدل کرکسی اور طرف چل نکلی۔صحافی کی خصوصیت ہے کہ اسے پیش گوئی کی صداقت پر اسی وقت یقین آتا ہے‘ جب وہ حرف بحرف پوری ہوجائے۔ یہ کسی نالائقی کی علامت نہیں‘بلکہ واقعات سے جڑے رہنے کی پیشہ ورانہ تربیت کا حصہ ہے ‘ جس میں 
سکھایا جاتا ہے کہ پیش گوئی ، امید، خدشہ اور امکان خبر کی تعریف سے خارج ہیں۔ اس لیے ہم سب نے ان کی بات کو آنے والے وقت پر چھوڑا اور بے فکر ہوگئے۔ پشاور کے سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے ایک سو بتیس معصوموں کوجس طرح تاک تاک کر شہید کیا تو معلوم ہوا کہ انہوںنے ایک سال پہلے جس نسل کا ذکر کیا تھا وہ اب ہماری آبادیوں میں آن گھسی ہے۔
وحشت کا جو مظاہرہ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں کیا گیاتھا اس کا مقصد یقینی طور پر پاکستانیوں کوخوف زدہ کرنا تھا لیکن ہمارے بچوں کا خون پینے والے درندے یہ بھول گئے کہ قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ ترکیب میں کچھ خاص ہے۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کے لاشے دیکھ کر یہ قوم روئی بھی بہت اور پھر آنکھوں میں خون لیے تن کر کھڑی ہوگئی۔ سولہ دسمبر کے بعد جنون اور دہشت گردی کا سر کچل دینے کے لیے اس میں جو یکجہتی پیدا ہوئی وہ اتنی طاقت لیے ہوئے ہے کہ اس نے سیاسی قیادت کو تیزی سے فیصلے کرنے پر مجبور کردیا ۔ وزیراعظم کی طرف سے سزائے موت کی بحالی، پشاور میں آل پارٹیزکانفرنس کا انعقاد اور عمران خان کی طرف سے دھرنے کا خاتمہ ایسے اقدامات ہیں جو ظاہر کررہے ہیں کہ یہ دونوں راہنما عوامی جذبات کو سمجھتے ہوئے اقدامات کررہے ہیں۔ یہی تیز روی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی نظر آرہی ہے۔ یکے بعد دیگرے دہشت گردوں کی ہلاکتیں اور ان کے ٹھکانوں
کی تباہی ثابت کررہی ہے کہ قوم کی یکسوئی نے ان اداروں کو غیر معمولی قوت بخش دی ہے ‘جسے وہ دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں استعمال کررہے ہیں۔عدلیہ کی کارروائی میں بھی تیزی آگئی ہے‘ جس سے قانون کا نفاذ بہتر ہوجائے گا ۔ بے شک المیہ پشاور ابھی تازہ ہے اس لیے ریاستی مشینری پوری قوت سے برسرِکار نظر آرہی ہے،لیکن یہ تیزی صرف فوج، پولیس، عدلیہ اور وزارت داخلہ کی حدتک ہی دکھائی دے رہی ہے ؛جبکہ کئی ریاستی ادارے پہلے کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ان اداروں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے طرف سے دکھائی جانے والی تیزی عارضی ثابت ہوگی ۔آئندہ چند دنوں میں سب کچھ حسبِ معمول ڈھیلے ڈھالے انداز میں چلنے لگے گا۔ حکمرانوں کے لیے ' بر ی خبر‘ ہے کہ اس سانحے کے بعد پاکستان بدل چکا ہے۔ اب ملک چلانے والی انتظامیہ کو واقعی کام کرنا پڑے گا اورکچھ کرکے دکھاناپڑے گا۔ ریاست کے ہر ادارے کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیا کررہا ہے اور آئندہ کے لیے اس کے پاس کیا پروگرام ہے۔اگر یہ واقعہ بھی ہماری انتظامی قوت کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتا ہے تویہ درندے ہم پر دوبارہ جھپٹنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ان کے مستقل خاتمے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا ہوگا۔
دہشت گردی کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے پولیس کو اس قابل بنایا جائے کہ اُسے مجرم کے تعاقب میں آسمان تک جانا پڑے تو جائے اور پاتال تک اترنا پڑے تو اترے۔بے شک یہ اہلیت کسی ادارے میں یکلخت پیدا نہیں ہوسکتی لیکن یہ تو پاکستانیوںکو حق ہے کہ وہ پوچھ سکیں کہ اس کے لیے پہلا قدم کس دن اٹھایا جائے گا اور کب تک یہ کام مکمل ہوگا؟ دوسرا کام ہے کہ ملک میں بھانت بھانت کے تعلیمی نظاموں کی جگہ واحد نظام نافذ کیا جائے۔انگریزی کی اہمیت مسلم ‘ لیکن قومی زبان کو اس کا جائز مقام دیاجائے ۔اردو کا نام سن کر کئی لال بجھکڑ بدک کر سائنسی علوم کی دہائی دیں گے لیکن انہیں کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان بے چاروں کو سائنس کا پتا ہے نہ جدید عصری تقاضوں کا علم۔اس طرح کے بودے دلائل نظر انداز کرکے قوم کی امنگوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں ۔اس بارے میں یہ بھی بتایا جائے کہ کب تک یہ کام مکمل ہوجائے گا۔ تیسرا اہم کام مدارس کو قومی دھارے میں لانا ہے۔ یہ کام
مشکل ہوگا کیونکہ جن کے مفادات کو زک پہنچے گی وہ کفر واسلام کی بحث چھیڑنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح کے لوگوں سے اول تو الجھنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر گلے کو آنے لگیں تو ان کی مناسب گوشمالی کی جانی چاہیے۔ اسی سے جڑا ہوا مسئلہ ان بعض علماء کا بھی ہے جو بولنے سے پہلے سوچنا گناہ سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں پہلے تو جید علماء سے بات کی جائے اور انہیں یاد دلایا جائے کہ جن لوگوں کے محتاط رہنے کی ضمانت انہوں نے دی تھی ان کی دریدہ دہنی وہ روک نہیں سکتے تو کم ازکم اس کی مذمت اپنے اپنے حلقہء اثر میں بھی کریں۔ چوتھا اہم کام مذہبی سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ چند حلقوں میں الیکشن جیتنے کے لیے معاشرے میں جو ابہام پھیلاتی ہیں اس سے باز رہیں۔ اگرچہ خو د عوام نے بھی خیبر پختونخوا میں نوزائیدہ تحریک انصاف کو ووٹ دے کران جماعتوں کا قلع قمع کردیا ہے لیکن اب بھی ان کی اتنی اہمیت ضرور ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف معاشرتی و سیاسی اجماع کو نقصان پہنچا سکیں۔ پانچواں کرنے کا کام یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو ایک نئے صوبے کے طور پر قومی دھارے میں لایا جائے۔ وقت نے ثابت کردیا ہے ان علاقوں کے لیے انگریزی قوانین زائد المیعاد ہوچکے ہیں۔ ان کی نئی شیرازہ بندی کی ضرورت اتنی شدید ہے کہ ہر گزرتا دن صورتحال کو خراب تر کیے جارہا ہے۔ ان پانچ کاموں کا آغاز دراصل دہشت گردوں کے خلاف ہماری ہمہ گیر جنگ کا اعلان ہوگا۔ اپنے بچوں کے لاشے دیکھ کربھی کوئی حالات کو درست کرنے پر مائل نہیں ہوتا تو پھر اس کے بارے میں کیاکہا جاسکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved