جن بیرونی اداروں اور حکومتوں کو پاکستان میں پھانسی کی سزا پر تکلیف ہے اور وہ اس سزا پر مختلف طریقوں سے پاکستان کی مذمت کر رہی ہیں‘ حکومت کو چاہیے کہ انہیں پھانسی کے سزا یافتہ تمام مجرموں کو بطور تحفہ پیش کرنے کا اعلان کر دے اور انہیں موقع دیا جائے کہ وہ پانچ دن کے اندر اندر‘ پھانسی کی سزا کے لئے منتخب ہونے والے جتنے افراد کو چاہیں‘ یہاںتشریف لا کر اپنے ساتھ لے جائیںاور ان کے ساتھ جتنا چاہیں انسانی سلوک کریں۔ ہم تو ان دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے آپ کو برباد کر بیٹھے ہیں اور آگے کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ کب تک‘ ہم ان کے ہاتھوں قتل ہوتے رہیں گے؟ ہم تو پہلے ہی جانتے ہیں کہ ان قاتلوں اور انتہاپسندوں کا صفایا کرنا ہماری حکومتوں کے بس کا روگ نہیں۔ ابھی چند ہی پھانسیاں لگی تھیں کہ یہاں بھی‘ درددل رکھنے والے بہت سے مہربان سامنے آ گئے اور عدالتوں میں جا کرمختلف قانونی موشگافیاں کرتے ہوئے‘ ان کی پھانسیوں کو التوا میں ڈالنے کی درخواستیں کر رہے ہیں اور کئی پھانسیاں ملتوی کرانے میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ کاش! ان انسان دوستوں کو ہمارے ان معصوم بچوں پر بھی رحم آ جاتا اور وہ ان دہشت گردوں سے کہتے کہ'' ان معصوم اور بے گناہ بچوں کو موت کے منہ میں مت دھکیلو۔‘‘ یہ بھی ان کی انسان دوستی ہوتی۔ دہشت گردوں کو تو انسانیت کا واسطہ دے کر‘ یہ لوگ اخباری بیان میں بھی نہیں کہتے کہ ''بیگناہوں کو مت مارو۔‘‘ جب دس دس گیارہ گیارہ افراد کے قاتل پھانسی کی سزا پاتے ہیں‘ تو اس وقت ان کی انسانیت بیدار ہو جاتی ہے اور یہ عدالتوں کی طرف رخ کر لیتے ہیں تاکہ انہیں بچا کر اپنا انسانی فرض ادا کریں۔
ہمارے مذہبی سیاستدانوں کو بھی‘ ان نام نہاد انسان دوستوں کی طرح پاکستانی عوام پر رحم نہیں آتا۔ وہ ان قاتلوں سے کبھی نہیں کہتے کہ سکول کے بچوں کو شہید مت کرو۔ پرامن شہریوں کو بموں سے مت اڑائو۔ عبادت گاہوں کو تباہ مت کرو۔ ان کے لئے ہمارے مذہبی سیاستدانوں کے دلوں میں‘ ہمیشہ محبت موجزن رہتی ہے۔ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں کی تو مخالفت بھی کرتے ہیںاور مذمت بھی‘ لیکن جب دہشت گردوں کی مذمت کا مسئلہ آتا ہے‘ تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ بعض علمائے کرام بھی ایسے ہیں‘ جو دہشت گردوں کی مدد کرنے والے مدرسوں کی چھان بین کا اعلان ہونے پر ہی تڑپ اٹھتے ہیں اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں کہ ان مدرسوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا‘ تو ہم تمہارا حشر کر دیں گے‘ لیکن پاکستانیوں کو بارود میں بھون کر زندگیوں سے محروم کرنے والے درندوں کا پیچھا کرتے ہوئے‘ جب سکیورٹی فورسز کے لوگ ‘ ان کی پناہ گاہوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو انہیں لال مسجد کی مثال دے کر کہا جاتا ہے کہ ''اللہ کے گھرکو بری نگاہ سے دیکھنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘ ایک طرف دنیا‘ہم سے کہتی ہے کہ دہشت گردی کا قلع قمع کرو‘ تو دوسری طرف ملک میں جابجا پھیلے ان کے ہمدرد دھمکیاں دیتے ہیں کہ'' انہیں کچھ کہو گے‘ توہم برداشت نہیں کریں گے۔‘‘سچ پوچھئے تو خود ہماری حکومتیں بھی تمام دہشت گردوں کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔ موجودہ حکومت نے عوامی دبائو میں آ کر دہشت گردوں کو ختم کرنے کا اعلان تو کر دیا ہے‘ لیکن حالت یہ ہے کہ سانحہ پشاور کو گزرے 8دن ہو چکے ہیں‘ ابھی تک پارلیمنٹ کا ایک مشترکہ اجلاس بلا کر‘ دہشت گردی کے مسئلے پر غوروفکر کی زحمت بھی نہیں اٹھائی گئی۔ انہی اراکین پارلیمنٹ کو اپنی نشستیں‘ ذرا بھی خطرے میں نظر آئیں‘ تو انہیں پارلیمنٹ اور آئین کے دفاع کی پڑ گئی اور بغیر کسی وجہ کے فوج کو الٹی سیدھی سنانا شروع کر دیں کہ ''ہم جمہوریت کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم آئین کی حفاظت کریں گے۔ ہم پارلیمنٹ کا تحفظ کریں گے۔‘‘ حالانکہ نہ کوئی پارلیمنٹ توڑنے جا رہا تھا اور نہ جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق تھا۔ وہ حکومت کے انتظامی کنٹرول پر قابو پانے میں ناکامی پر‘ ہی ڈر گئے تھے کہ کہیں ان کی ممبریاں نہ چلی جائیں‘ لیکن ملک کے ڈیڑھ سو سے زیادہ جگر گوشوںکی شہادتوں پر ‘ انہیں اپنی قوم کے بچوں کے لئے‘ کوئی خطرہ نظر نہیں آیا اور ان سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر‘ بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لئے مطلوبہ قانون سازی ہی کرلیں۔ حالانکہ اعتزاز احسن نے واضح اعلان کر دیا تھا کہ ''ہم دہشت گردوں کی عبرتناک سزائوں کے لئے نئے قوانین بنانے کو تیار ہیں۔ اگر ہمیں آئین میں ترمیم بھی کرنا پڑی‘ تو خوشی سے کریں
گے۔‘‘ لیکن حکومت نے اس پیش کش پر کوئی توجہ نہیں دی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں‘ کوئی نہ کوئی‘ دہشت گردوں سے خوفزدہ ہے اور ان کے خلاف سخت گیر کارروائی میں کسی بھی انداز میں حصہ لیتے ہوئے ڈرتا ہے۔ ہماری بھی کیا قسمت ہے ؟ جب حکومتیں دہشت گردوں کے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہیں‘ تو فوجی حکمران دہشت گردوں کا تحفظ کرنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اب فوج ‘ دہشت گردوں کے خلاف تیزرفتار اور فیصلہ کن کارروائی کرنے کی خواہش مند ہے‘ تو اسے پارلیمنٹ اور حکومت کی طرف سے مطلوبہ تعاون حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ صرف لاہور کی جنگلا بس کو ایک ارب روپیہ ماہانہ سبسڈی دے دی جاتی ہے‘ لیکن دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے ضروری سامان خریدنے کو چند کروڑ نہیں دیئے جاتے۔ ابھی کل ہی‘ عمران خان نے بتایا کہ ''خیبرپختونخوا کے پاس‘ ٹیلیفون مانیٹر کرنے کے آلات بھی نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت سے پرزور درخواست ہے کہ وہ یہ آلات مہیا کرے۔‘‘ خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے‘ جو دہشت گردی کا سب سے بڑا ہدف بنا ہوا ہے‘ لیکن اسے دہشت گردوں کے ٹیلیفونوں کی نگرانی کرنے کا سامان بھی نہیں مل رہا۔ فاٹا ‘ وفاقی حکومت کے زیرکنٹرول علاقہ ہے۔روایتی طور پر وہاں فرنٹیئر کانسٹیبلری امن و امان کی صورتحال پر نظر رکھا کرتی تھی۔ کافی عرصہ پہلے اسے وہاں سے ہٹایا جا چکا ہے۔ صوبے میں دو اڑھائی ملین سے زیادہ مقامی اور بیرونی ڈس پلیسڈ پیپلز آئے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے مناسب مالی امداد بھی نہیں مل رہی۔ صوبے کے پاس 5ہزار پولیس کانسٹیبلوں کی کمی ہے‘ جبکہ دہشت گردوں کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ فاٹا میں پولیس موثر ثابت نہیں ہو رہی‘ کیونکہ وہاں کے معاملات کو ایف سی کے لوگ جتنا سمجھتے ہیں‘ کوئی دوسری ایجنسی نہیں سمجھتی۔ فاٹا میں فوری طور پر کانسٹیبلری کی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اگر دہشت گردوں کے خاتمے کی یہی تیاریاں ہیں‘ تو ہو گئی عوام کے جان و مال کی حفاظت۔ لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ مولانا عبدالعزیز کو حکومت نے خود ہی ادھرادھر کر دیا ہے تاکہ ان کی گرفتاری پر مجبور نہ ہونا پڑے۔پھر اس فیصلے کی کیا وقعت رہ گئی؟ کہ ''ہماری نظر میں اچھے اور برے طالبان میں کوئی فرق نہیں۔‘‘مولانا عبدالعزیز‘ جن کے موقف کی وکالت کر رہے ہیں‘ وہ کونسے طالبان ہیں؟ اچھے یا برے؟
ابھی پشاور کے شہیدوں کا خون بھی ٹھنڈا نہیں ہوا کہ حکومتی اداروں نے ایک دوسرے پر تہمت تراشی شروع کر دی ہے۔ وزارت داخلہ کوڈیڑھ سو سے زیادہ بے گناہوں کا خون بہنے کے 6دنوں بعد یاد آیا کہ اس نے تو 28اگست کو خیبرپختونخوا کو انتباہ کر دیا تھا کہ آرمی پبلک سکول پر حملہ ہونے والا ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ ''ککڑ کھے اڑاوے ‘ تے سر اپنے وچ پاوے‘‘(مرغا خاک اڑائے اور اپنے سر پہ گرائے)۔ یہاں پاکستانی ایجنسیوں کی مروجہ وارننگ کا طریقہ بھی بتا دوں‘ جسے وزارت داخلہ نے آرمی سکول پر ہونے والے حملے کی اطلاع قرار دیا ہے۔ وہ ایک عمومی مراسلہ تھا‘ جو سانحہ سے چار ماہ پہلے لکھا گیا اور اس میں کئی شہروں کے بارے میں لکھا گیا تھا کہ ان میں فلاں فلاں عمارتوں اور سکولوں پر دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ ہے۔ ایسی عمومی اطلاعات اکثر جاری ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں چونکہ نہ کسی خاص جگہ کی نشاندہی کی گئی ہوتی ہے اور نہ ہی وقت کا تعین۔ سراغرسانی یہ نہیں ہوتی۔ پاکستان میں دہشت گردی مدت سے وسیع پیمانے پر جاری ہے۔ چار ماہ پہلے بغیر کسی تاریخ اور وقت کے تعین کے‘ حملے کی اطلاع کا مطلب کیا ہوا؟ اس طرح کی وارننگز عموماً آتی رہتی ہیں اور ردی کے کاغذوں میں بدلتی رہتی ہیں۔ اگر شامت اعمال اس عرصے کے دوران‘ کہیں کوئی واقعہ ہو گیا تو متعلقہ ایجنسی فوراً میدان میں آ جاتی ہے کہ ''یہ رہا ہمارامراسلہ۔ ہم نے تو پہلے بتا دیا تھا۔‘‘ ہماری 90فیصد سویلین انٹیلی جنس اسی طرح کی ہوتی ہے‘ جس کا دہشت گردوں کو پورا پتہ ہے اور وہ اس کا فائدہ بھی خوب اٹھاتے ہیں۔ ہماری حکومت رائج طور طریقوں کے ساتھ‘ دہشت گردی پر کبھی قابو نہیں پا سکتی۔ یہاں سابق وزیراعظم کا بیٹا بھری سڑک پر‘ ملتان جیسے شہر سے اغوا ہو جاتا ہے۔ سابق گورنر کا بیٹا لاہور شہر کی پررونق آبادی سے‘ دن دیہاڑے اغوا ہو جاتا ہے۔ ایک جنرل کا داماد اغوا ہو جاتا ہے اور کئی برس بعد بھی ان میں سے ایک بھی برآمد نہ کیا جا سکا۔ جنرل کا جو داماد واپس آیا‘ اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ تاوان دے کر رہا کرایا گیا۔ہمارے ارباب اقتدار کی کونسی کارکردگی ہے؟ جسے دیکھ کر یقین آئے کہ ہمارے وطن میں‘ دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ ہمارے عام شہری صرف اس لئے محفوظ ہیں کہ نہ تو کوئی دہشت گرد انہیں اغوا کرنا چاہتا ہے اور نہ گولی مارنا۔ اس میں حکومت کا کوئی کمال نہیں۔ دہشت گردوں کا خاتمہ ہوتا ہوا تو نہیں لگتا۔ مگر شاید......