تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-12-2014

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹے

پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک
کرنے کا وقت آ گیا... شہبازشریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا وقت آ گیا ہے‘‘ کیونکہ ہر کام اپنے وقت پر ہی کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''نئی نسل کو پُرامن پاکستان دیں گے‘‘ کیونکہ پُرامن حال اور ماضی نہ دے سکنے کی تلافی اسی طرح ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف قوم متحد ہے‘‘ اور‘ خوشخبری یہ ہے کہ اب اس کے خلاف ہم بھی متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر فوج سے تعاون جاری رکھیں گے‘‘ اگرچہ اس نے ان کے خلاف آپریشن ہماری اجازت اور اطلاع کے بغیر ہی کردیا گیا تھا لیکن اب یہ اس کی تائید کررہے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی قربانی ہے اور ہم اس طرح کی قربانیاں ہمیشہ سے دیتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے‘‘ بلکہ سب سے پہلے یہ ہماری حکومت کی بقا کی جنگ ہے کیونکہ اس کی بساط بھی ساتھ لپیٹ دی جائے گی۔ آپ اگلے روز ایک اجلاس کے بعد کورکمانڈر لاہور سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
ملا فضل اللہ جب بھی پاکستان سے
بھاگا‘ افغانستان گیا... رحمن ملک 
سابق وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر رحمن ملک نے کہا ہے کہ ''ملا فضل اللہ جب بھی پاکستان سے بھاگا‘ افغانستان گیا‘‘ جبکہ ہم بینظیر بھٹو کو گولیاں لگنے کے بعد بھاگے تھے‘ کیونکہ ا یسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی گولی پر ہمارا بھی نام لکھا ہو‘ تو ہم افغانستان نہیں گئے تھے کیونکہ جان بچا کر بھاگ نکلنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے‘‘ اور یہ انکشاف میں نے پہلی بار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے پہلے ہی سٹیٹ کو بریفنگ دی تھی کہ افغان انٹیلی جنس فقیر محمد اور فضل اللہ کو سپورٹ کر رہی ہے‘‘ کیونکہ میں ہر بات پہلے ہی کہہ دیا کرتا ہوں‘ اگرچہ میں اُن دنوں اپنے عزیزو اقارب اور کئی دیگر نتھوئوں پھتوئوں کو بلیو پاسپورٹ فراہم کرنے اور دیگر مفید کاموں میں مصروف تھا لیکن میں نے قربانی دی اور اپنے نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر سینیٹ کو بریفنگ دی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
ایک اور گلو بٹ! 
ایک مؤقر قومی روزنامہ میں آخری صفحے پر ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں تھانہ ٹھیکری والا کی پولیس چوکی کے افتتاح کے موقع پر ایم پی اے نعیم اللہ گل‘ ای پی او سہیل تاجک اور دیگر پولیس افسران کے ہمراہ ناولٹی پُل واقعہ میں فائرنگ کرنے والا مرکزی ملزم الیاس طوطی بھی موجود ہے۔اسی اخبار کے مطابق یہ پولیس کا قریبی ہے۔ ایک اور اخباری اطلاع کے مطابق اس کی شناخت ہو جانے کے باوجود پولیس نے اسے گرفتار نہ کیا اور 15 روز تک پنجاب حکومت کو بیوقوف بناتی رہی اور یہی کہتی رہی کہ اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا اور اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں حالانکہ یہ پہلے ہی اس کی تحویل میں تھا‘ گویا پنجاب حکومت کے گلو بٹوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا ہے جن کے بل بوتے پر یہ حکومت چلائی جا رہی ہے۔ یقینی بات ہے کہ اس چالاکی پر ذمہ دار افسروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی کیونکہ حکومت بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں بُری طرح مصروف ہے اور ایسی چھچھوری باتوں پر توجہ دینے کے لیے اس کے پاس وقت کہاں ہو سکتا ہے بلکہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ اسے کسی نہ کسی طرح بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ 
انعام...؟ 
ایک اور اطلاع کے مطابق ڈبلیو ٹی او (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں بطور سفیر تقرر کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق دستِ راست سید توقیر شاہ کا نام بھی شارٹ لسٹ کر لیا گیا ہے اور جو مزید دو ناموں کے ساتھ منظوری کے لیے ایک دو روز میں وزیراعظم کو بھجوایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ موصوف کو اس جوڈیشل کمیشن نے کئی دیگر افراد کے ہمراہ ماڈل ٹائون سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا جس کی نہ صرف رپورٹ حکومت نے اب تک دبا رکھی ہے بلکہ اپنے ہی بنائے ہوئے اس کمیشن کی رپورٹ کے خلاف عدالت میں اپیل بھی دائر کر رکھی ہے جس رپورٹ کے مندرجات پریس میں بھی آ چکے ہیں۔ اگرچہ اس رپورٹ کے بعد حکومت نے انہیں اپنی منصبی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا تھا؛ تاہم بعض اطلاعات کے مطابق فائلیں‘ احکامات اور سفارشات کے لیے ان کے گھر پر بھیجی جا رہی تھیں اور اس طرح وہ اپنے فرائض بدستور ادا کر رہے تھے۔ اسی طرح‘ رپورٹ میں نام آنے پر حکومت نے اپنے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو بھی عہدے سے فارغ کردیا تھا لیکن وہ ابھی تک اپنے سابقہ پروٹوکول اور مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ 
مٹھائی تقسیم...؟ 
ایک اور اخباری اطلاع کے مطابق سانحہ پشاور کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں میں ملوث سزائے موت کے مجرموں کو دی جانے والی پھانسی کی خوشی میں ملک کے درجنوں شہروں میں مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ راولپنڈی‘ لاہور‘ گوجرانوالہ‘ گجرات‘ سیالکوٹ سمیت 14 شہروں میں این جی اوز کے نمائندہ دفاتر میں ‘ جبکہ ملتان اور فیصل آباد میں دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے والی سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسی طرح سوشل میڈیا پر اپنی خوشی کا اظہار اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ مٹھائیوں کی یہ تقسیم تو سمجھ میں آتی ہے لیکن عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خوشی میں بعض ایسے جیالوں کی طرف سے بھی مٹھائیاں تقسیم کی گئی جو پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز تھے جبکہ شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت پر مٹھائیاں تو تقسیم نہ کی گئیں البتہ جو لوگ اس سانحہ کے کسی نہ کسی طور ذمہ دار تھے اور جو اگر کوتاہی نہ کرتے تو محترمہ کی جان بچائی جا سکتی تھی‘ بعدازاں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ... تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو 
آج کا مقطع 
جلسۂ ناز میں ظفرؔ کیسے اکھڑ گئی ہوا 
آپ ہی کچھ بتایئے‘ آپ تو سر کے بل گئے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved