اور پھر یوں ہوا کہ 16دسمبر کے فوراً ہی بعد‘ پشاور میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر لی گئی۔ درد اور غم کے ماحول میں ہر کسی نے اس عظیم المیے پر اظہار خیال کیا۔ سب نے وزیراعظم کو اختیار دیا کہ وہ اس وحشیانہ واردات میں ملوث سازشیوں اور دہشت گردوں کے سرپرستوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے اور انہیں کیفرکردار کو پہنچائیں گے۔ وزیراعظم اور ان کے حواریوں کے چہروں پر دردوغم کے تاثرات تھے اور ان کی آنکھوں میں ایک فاتحانہ چمک تھی۔ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ ''دیکھ لو عمران خان اپنا دھرنا‘ احتجاجی تحریک اور شہر بند کرانے کی مہم کو ختم کر کے‘ آج وزیراعظم کے ساتھ بیٹھا‘ انہیں مکمل حمایت کا یقین دلا رہا ہے۔‘‘اس کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ اگلے سات دن کے اندر اندر‘ ایک ایکشن پلان تیار کر کے‘ اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔ ہر کوئی دہشت گردوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنے کو بے تاب تھا۔ ہمارے انتہائی غم زدہ سیاستدان‘ دن رات بیٹھ کر ایکشن پلان تیار کرنے کو بے تاب تھے۔ ابتدائی نشستوں کے بعد‘ انہوں نے بارہ اور چودہ گھنٹے کی طویل نشستیں کیں۔ ایک نکاتی ایجنڈا بڑھتے بڑھتے‘ پندرہ سولہ نکات تک پہنچ گیا اور پھر خبر آئی کہ اتنے نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور باقی نکات پر ہو جائے گا۔ وزیراعظم نے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں جاری رکھیں اور دوسری آل پارٹیز کانفرنس سات دنوںکو پار کر گئی۔ اگلے دن خبر آئی کہ کچھ جماعتوں میںفوجی عدالتوں اور مدارس کی رجسٹریشن کے سوال پر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ دو لیڈروں نے اعلان کر دیا کہ وہ اگلے روز کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ ایک لیڈر بیمار پڑ گئے۔ بدھ کو مقررہ ہفتہ ختم ہونے کے بعد‘ وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس سے زبردست خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ''پہلی مرتبہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع ہوئی ہے۔ لولے لنگڑے فیصلوں سے قوم متفق نہیں ہو گی۔ پوری قوم کی نظریں پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس پر لگی ہیں۔ گزشتہ اجلاس میں تمام جماعتیں ایک صفحے پر تھیں۔ ‘‘ وزیراعظم نے کہا ''بار بار مذاکرات کو وقت دیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ملک کو غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے‘ جو غیرمعمولی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے اور اب ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔‘‘انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے لئے متعین‘ سات دن ختم ہونے کے بعد‘ آٹھویں دن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''کل کے اجلاس میں ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام اور مدارس کی اصلاحات کے معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔‘‘ وزیراعظم نے کانفرنس کے شرکاء سے کہا ''وہ ٹھوس اور مضبوط فیصلے کرنے سے نہ کترائیں۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ ''اگر بروقت اور درست فیصلے نہ کئے تو دہشت گردی کے مزید واقعات ہوں گے۔ ضرب عضب کے بہتر نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اس کا دائرہ شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ‘ ملک کے شہروں تک پھیلانا ضروری ہے۔ موجودہ افغان قیادت ماضی کے مقابلے میں مختلف سوچ رکھتی ہے۔ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے تعان کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔ دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنی سرزمین‘ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ انہوں نے پانچ ہزار جوانوں پر مشتمل خصوصی فورس قائم کرنے کی نوید سنائی۔ دوسری اے پی سی کا مقررہ دن ختم ہونے کے بعد ‘ اگلے اضافی دن کے اختتام پر بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں اور مدرسوں کے سوال پر‘ کل ایک اور اجلاس منعقد ہو گا۔ عمران خان کے سوا اور کسی پارٹی نے‘ فوجی عدالتوں اور مدرسوں کے سوال پر اتفاق رائے نہیں کیا۔ خانہ پری کے لئے آفتاب شیرپائو اور ق لیگ کی طرف سے اتفاق کا ذکر شامل کر کے‘ کارروائی کو قدرے وزنی بنا دیا گیا۔ کل عملاً تیسری اے پی سی کا اجلاس پھر ہو گا۔ اس میں پھر یہی دونوں مسائل زیربحث آئیں گے۔ بات آگے بڑھی‘ تو اجلاس مزید چند روز جاری رہے گا اور ڈیڈ لاک آ گیا‘ تو اجلاس چند روز کے لئے ملتوی کر دیا جائے گا اور اس کے بعد چوتھے اجلاس میں‘ یہی مسائل زیرغور آئیں گے۔ اس وقت تک سانحہ پشاور کو تین چار ہفتے گزر چکے ہوں گے۔
آج مجھے پرانے سانحے کوشش کر کے یاد کرنا پڑ رہے ہیں۔ مثلاً راولپنڈی میں وزارت دفاع کے ملازموں کی ایک پوری بس کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ ہمیں بہت دکھ ہوا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم یہ دکھ جلد نہیں بھلا پائیں گے۔ آج اتنے دنوں کے بعد مجھے کوشش کر کے یاد کرنا پڑ رہا ہے۔ گلگت کے قریب بسوں سے مسافروں کو اتار اتار کے گولیاں ماری گئیں۔ اب مجھے مرنے والوں کی تعداد بھی یاد نہیں۔ دکھ اس سانحے پر بھی بہت ہوا تھا۔ واہ آرڈی نینس فیکٹری کے گیٹ پردھماکہ کر کے سویلین اور فوجی ملازمین کے پرخچے اڑا دیئے گئے۔ ساری قوم کو شدید صدمہ پہنچا۔ مجھے یاد پڑتا ہے‘ اس وقت بھی اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے دہشت گردوں کو سبق سکھانے کے اعلانات کئے تھے۔ نہ دہشت گردوں نے سبق سیکھا اور نہ مجھے آج اس سانحے کی یاد آتی ہے۔ یادوں کو کھنگالتے کھنگالتے جی ایچ کیو پر‘ دہشت گردوں کا وحشیانہ حملہ یاد آ گیا۔ اس میں بریگیڈیئر رمدے شہید ہوئے۔ ضرار کمپنی کے کئی جوان شہید ہو گئے۔ اعلیٰ فوجی قیادت اس سانحے پر بے حد غمزدہ ہوئی۔ اہل وطن بھی غمزدہ تھے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں ملوث‘ چند دہشت گردوں کو اب پھانسیاں دی جا رہی ہیں اور کئی ایک ابھی تک مفرور ہیں۔ مہران نیول بیس پر دہشت گردوں نے ہمارے دو انتہائی قیمتی طیارے تباہ کر کے‘ بھارتی نیوی کے سر سے بہت بڑا خطرہ ٹال دیا۔ اس حملے میں بھی ہمارے کئی جوان شہید ہوئے۔ اس وقت صدمہ بھی بہت تھا اور شہداء کی تعداد بھی یاد تھی۔ آج میں تعداد بھول چکا ہوں۔ کراچی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے‘ درجنوں بے گناہ شہریوں کو بھون ڈالا۔ آٹھ دس شہری گودام میں چھپے ہوئے تھے۔ وہاں آگ لگی اور وہ اندر ہی اندر جل کر راکھ بن گئے۔سارا ملک سوگوار تھا۔آج مرنے والوں کے عزیزوں کے سوا کسی کو یاد نہیں اور اس واردات میں ملوث دہشت گرد بھی نہیں پکڑے گئے۔ مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور ماتمی جلوسوں پر خودکش حملے اور بم پھینک کر لاتعداد انسانوں کو شہید کر دیا گیا۔ ہر سانحے پر حکومت نے عزم کیا کہ دہشت گردوں سے بدلہ لیا جائے گا۔ حکومت نے تو نہیں معلوم کیا کیا؟ لیکن دہشت گرد اسی طرح سرگرم ہیں۔ بلوچستان میں زائرین کو ان گنت بسوں میں جلا کر بھون دیا گیا۔ ہم دہشت گردوں کا کچھ نہیں بگاڑ پائے۔ کوئٹہ میں ایک منڈی پر‘ ایک سو سے زیادہ شہریوں کو فرقہ ورانہ بنیاد پر ہلاک کر دیا گیا۔ ہلاک شدگان کے قبیلے والے لاشیں لے کر ‘ کوئٹہ کے چوراہے میں کئی دن بیٹھے رہے۔ دہشت گردوں کا تو کچھ نہ بگڑا۔ البتہ حکومت کے نمائندوں نے ماتم کرنے والوں کو صف ماتم سے اٹھا کر گھر بھیج دیا۔ کوئٹہ ہی میں ایک بس کو آگ لگا کر‘ اندر بیٹھی طالبات کوشعلوں کی نذر کر دیا۔ ان دہشت گردوں کا اب کہیں ذکر بھی نہیں ہوتا۔اقلیتوں کی بستیوں کی بستیاں جلا دی گئیں۔ یہ تباہیاں پھیلانے والے دہشت گرد‘ کسی توجہ کے مستحق ہی نہیں سمجھے گئے۔ واہگہ کے مقام پر خودکش دھماکہ کر کے‘ 65سے زیادہ مرد‘عورتیں اور بچے شہید کر دیئے گئے۔ وہ قومی پرچم اتارنے کی تقریب اور فوجی جوانوں کے پروقار انداز کو دیکھنے گئے تھے‘ جس سے حب الوطنی کا جذبہ تازہ ہو جاتا ہے۔ بڑے دعوے ہوئے تھے کہ دہشت گردوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ کچھ پتہ نہیں کیا ہوا؟ مجھے تو سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی نہیں بھولتا۔ افواہیں تو کئی دن سے سننے میں آ رہی تھیں۔ لیکن جس شام مصدقہ خبر ملی کہ پاکستان نے سرنڈر کر دیا ہے‘ تو میں سکتے میں آ گیا۔ رات بھر پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا۔ کئی دن تک غم کی کیفیت سے نہیں نکل پایا اور سوچ رہا تھا کہ اس صدمے سے شاید ہی نکل سکوں۔ میں تو ایک عام شہری ہوں۔ جن لوگوں نے پاکستان کو اس تاریخی شکست سے دوچار کیا‘ وہ اپنا گناہ قبول کرنے کے بجائے‘ کارنامے سنانا شروع کر دیتے ہیں اور مجھے یوں لگتا ہے ‘ جیسے مشرقی پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار میں ہوں۔ اصل میں کوئی لیڈر‘ کوئی افسر‘ کوئی پالیسی ساز‘ ملک کے کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوتا اور نہ اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ دکھ بھی ہمارے حصے میں آتا ہے۔ نقصان بھی ہم اٹھاتے ہیں اور غم بھی ہمارے ہی ساتھ رہتا ہے۔ ارباب اقتدار جس طرح اے پی سی کے مجمعے لگا کر تقریری مشاعرہ منعقد کررہے ہیں‘ چند روز بعد وہ‘ مزید اعلانات کر کے‘ روزمرہ کے کاموں میںمصروف ہو جائیں گے۔ پشاور کا سانحہ‘ تاریخ کا حصہ بن جائے گا یا شہید ہونے والے بچوں کے والدین اور ان کے خاندانوں کے دلوں کے اندر‘ گہرے غم کی صورت میں سلگتا رہے گا۔ یہ صدمہ بہت بڑا ہے۔ لیکن ہمارے لیڈر فنکار بھی بہت بڑے ہیں۔