تحریر : وسعت اللہ خان تاریخ اشاعت     25-12-2014

فیصلہ کرو یا بھٹکتے رہو

نظریہ ضرورت کے تحت پھانسیاں ضرور دے لیجئے۔ بیس، پینتیس ، ستاون کی گنتی میں روزانہ بمباری سے بھی مارتے رہئے۔ پولیس مقابلے بھی بڑھاتے رہئے ۔خود پہ بس نہ چلے تو آس پاس اور دور دراز کی طاقتوں پر بھی انگشت نمائی کرتے رہئے ۔یہ بھی ثابت کرتے رہئے کہ اصل مظلوم تو ہم ہیں مگر دنیا کو آخر اپنی ہی کیوں پڑی ہے ہماری مظلومیت کیوں نظر نہیں آتی۔موجودہ غیر معمولی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے غیر معمولی اقدامات ، غیر معمولی تادیبی قوانین سازی کا شوق بھی پورا کرلیں۔مگر ساتھ ساتھ یہ بھی غور فرماتے رہیں کہ آیا یہ سب جو آپ کررہے ہیں یا کرنے جارہے ہیں کسی طویل المیعاد حکمتِ عملی کی روشنی میں قومی سلامتی کے واضح ، ٹھوس اہداف تک پہنچنے کا سفر ہے یا پھر وقتی غصہ یا باسی کڑھی میں ایک اور ابال ۔
بالکل سولہ دسمبر اکہتر کی طرح سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے بعد بھی مسلسل کہا جارہا ہے کہ سانحہ پشاور نے ہم سب کی آنکھیں بلاامتیاز کھول دیں۔اس بحث میں پڑے بغیر کہ اگر آنکھیں پہلے سے کھلی ہوتیں تو دونوں سولہ دسمبروں کی نوبت کیوں آتی۔ عرض میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کو واقعی ادراک ہے کہ آپ اب تک کیا کرتے آئے ہیں ، کیا کررہے ہیں اور کیا کرنے جا رہے ہیں ؟ بندہ ایسے بچگانہ سوالات یوں پوچھ رہا ہے کہ کہیں آپ کل کلاں دوبارہ نہ کہہ بیٹھیں اوہو پھر مسٹیک ہوگئی ۔جانا کہیں اور تھا قدم کہیں اور کے لئے اٹھ گئے۔ چلو نئے سرے سے شروع کرتے ہیں۔ 
پاکستان اور کسی معاملے میں خوش قسمت ہو نہ ہو۔ ایک معاملے میں قدرت نے ہمیشہ اس کے بارے میں فیاضانہ فیاضی سے کام لیا ہے۔ باقی قوموں کو تو سنبھلنے کے لئے اوسطاً ایک یا زیادہ سے زیادہ دو مواقع ملتے رہے اور پھر قدرت نے کہہ دیا خصماں نوں کھاؤ ۔مگر پاکستان کو پچھلے اڑسٹھ برس میں تیسرا موقع مل رہا ہے خود کو سنبھلنے کا۔
پہلا موقع پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو ملا ۔مگر باپ کے مرتے ہی ہم اس اولاد میں تبدیل ہوتے چلے گئے‘ جو ترکے میں ملی جائداد اور رقبہ ٹکڑے ٹکڑے بیچ کے اپنی شان و شوکت کے تقاضے پورے کرتی ہے ۔بھلے کے ٹو کا پیکٹ خریدنے کے بھی قابل نہ ہو مگر ہائے رے وضع داری کہ بگلہ مارکہ سگریٹ بھی گولڈ لیف کے پیکٹ میں رکھ کے پیتی ہے اور پھر ترکے کے ایک ایک دروازے اور کھڑکی کے بٹوارے پر آپس ہی میں سر پھٹول، تھانہ کچہری کی نوبت آجاتی ہے اور پھر جائداد کسٹوڈین کے حوالے ہوجاتی ہے اور وارث جوتیاں چٹخاتے رہ جاتے ہیں اور اس پر دھیان دینے کے بجائے کہ بنیادی غلطی کب کیا کہاں ہوئی۔ انہیں لکڑ ہارے اور اس کے جھگڑالو بیٹوں کی کہانی تک بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ اتفاق میں برکت ہے کا آسان اردو میں مطلب کیا ہے ۔
پاکستان کو سنبھلنے سدھرنے کا دوسرا موقع مشرقی پاکستان گنوانے کے بعد عطا ہوا۔ مگر اس موقع کو قومی تعمیر سازی کے لئے استعمال کرنے کے بجائے اس ملک کے کار سازوں ، چارہ سازوں نے آس پاس جواریوں کی صحبت اختیار کرلی۔پرائے پھڈوں میں تو کون میں خامخواہ بننے میں مزہ آنے لگا۔
'اپنی خرچی آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘ کا اصول بھول بھال کر دوسروں کی دی خرچی پر شاہ خرچیاں ہونے لگیں اور پدرم سلطان بود کی تسبیح بھی گھومتی رہی۔ جو وزن متحدہ پاکستان بھی گلے میں ڈالنے کے لئے تیار نہیں تھا وہ وزن باقی ماندہ پاکستان کی اشرافیہ نے اپنے گلے میں خود ہی ہنسی خوشی ڈال لیا۔کہاں یہ حالت کہ گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے اور کہاں ایسی میزبانی کہ تو بھی آجا ، ارے تو بھی آجا ، اے عربو ، اے افغانیو ، اے مصریو ، اے تھائیو سب آجاؤ ، ارے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے تمہارا اپنا گھر ہے جب چاہے دن رات چوبیس گھنٹے بارہ مہینے آؤ ، رہو اور رہتے رہو۔اور جب کوئی سوال اٹھاتا کہ بھائی پسلی پہلوان یہ تم کر کیا رہے ہو تو جواب ملتا اوئے تینوں نئیں پتہ ، تینوں کی پتہ اپنی ٹور بنانے کے لئے ڈیرے داری کرنی پڑتی ہے ، وضع داری نبھانی پڑتی ہے ۔لے یہ انگوٹھی بھی بیچ دے اور بن بلائے اور نیم بلائے مہمانوں کی روٹی بستر کا انتظام کر ۔پورا نہ پڑے تو چوہدری امداد صاحب سے میرے نام پر تھوڑا ادھار اور لے آنا۔
اور پھر اس فی سبیل اللہ یتیم خانے میں وہ ادھم مچا کہ اب تو میزبان بھی اپنی ٹانگ پکڑ ے ہائے میرے اللہ! اے میں کی کر بیٹھا جاپنے پر آگیا ہے ۔
اور اب تیسرا موقع اس قوم کو سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو نصیب ہوا ہے خود کو سدھارنے اور یہ فیصلہ کرنے کا کہ ہم اس ملک کو بالآخر کہاں لے جانا چاہتے ہیں یا پھر ہم سب یونہی چشمۂ امید ڈھونڈتے ڈھونڈتے ناامیدی کے صحرا میں پاؤں گھسٹتے گھسٹتے کہیں بھی گر پڑیں گے۔
ہم سب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ واقعہ تو کئی بار سنا ہے کہ جب وہ غزوہ ِ خندق کے دوران ایک کافر عمار بن عبدِ ود کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور اسے ہلاک کرنے کو ہی تھے کہ عمار نے آپ کے چہرے پر تھوک دیا۔حضرت علیؓ اسے قتل کرنے کے بجائے سینے سے یہ کہتے ہوئے اتر گئے کہ پہلے میری نیت تجھے راہِ خدا میں قتل کرنے کی تھی مگر اب اس میں میرا ذاتی غصہ بھی شامل ہو گیا ہے اس لئے چلا جا۔ 
آپ کا قومی غصہ بجا لیکن آپ کب یہ بات سمجھیں گے کہ ہر بار محض ایکشن کا ری ایکشن کوئی حکمتِ عملی نہیں ہوتی ۔کیا کسی درخت کے پتے جھاڑنے سے اس کا وزن ہلکا ہوا ہے جب تک جڑ پر ہاتھ نہ ڈالیں۔سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم جنرل (ریٹائرڈ) ایہود بارک کے بقول آپ دہشت گردی کو دو نکاتی بنیادی حکمتِ عملی اختیار کئے بغیر شکست نہیں دے سکتے۔ اول یہ کہ دہشت گرد کا جو بھی نظریہ ہے اس کا موثر نظریاتی توڑ اور متبادل کشش آپ کے پاس کیا ہے ، دوم یہ کہ کیا آپ کے سوچنے کی رفتار دہشت گرد کی سوچ سے کم ازکم ڈیڑھ گنا تیز ہے یا نہیں ؟ اگر آپ یہ دونوں کام نہیں کرسکتے تو پھر کمبل اوڑھ لیں۔ ماؤزے تنگ کے بقول تم کسی کو اسلحہ مت دو بس ذہن مسلح کردو اسلحہ وہ خود ڈھونڈ لے گا۔ دہشت گرد تو یہ کر ہی رہے ہیں کیا آپ بھی ماؤ کے فلسفے کو گھاس ڈالنے پر تیار ہیں؟ 
آپ کاؤنٹر نیریٹو ( جوابی نظریہ ) کی رٹ لگا رہے ہیں لیکن کیا آپ سب کاموں سے بھی پہلے اپنے تعلیمی نصاب کو غیر انتہا پسند بنانے پر آمادہ ہیں ؟ اور یہ کہ آپ کو بالآخر کیا تعمیر کرنا ہے؟ گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کے محمد علی جناحؒ کا پاکستان یا بعداز جناح کا قراردادِ مقاصد والا پاکستان ؟ کوئی ایک راہ چن لیں اور پھر سب قانونی ، تعلیمی ، نظریاتی ، عملی نظام کو اسی راہ پر لے جائیں تو شائد کچھ شفا ہو جائے۔ 
آج کا نڈھال ، کنفیوز ، ڈرا ، سہما پاکستان دراصل گیارہ اگست کی تقریر اور قرار دادِ مقاصد کی جبری شادی سے پیدا ہونے والا بچہ ہے ۔یہ شادی یونہی رہی تو یہ طفلِ مظلوم کہیں کا نہ رہے گا۔ لہٰذااس بچے کو یا تو پوری طرح گیارہ اگست کی تقریر کی کسٹڈی میں دے دیا جائے یا پھر قرار دادِ مقاصد کی مکمل تحویل میں۔ بصورتِ دیگر یونہی بھٹکتے رہو ، بھٹکاتے رہو۔مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ فیصلہ کتنا جلد ضروری ہوتا ہے۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ آسمان نے آج تک کسی قوم کو سنبھلنے کا چوتھا موقع نہیں دیا ۔اپنی لاڈلی قوم بنی اسرائیل کو بھی نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے bbcurdu.comپر کلک کیجئے) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved