جو کام پاکستان میں غالباً قائد ِ اعظم محمد علی جناح بھی نہیں کر سکتے تھے وہ ہو سکتا ہے کہ ایک سوبتیس بچوں کی افسوس ناک ہلاکت کر دکھائے۔۔۔ ایک عمومی یا مشترکہ بیانیہ رکھنے والی ریاست کی تشکیل جونظریاتی اور سیاسی طور پر مربوط ہو۔ ایسا ماحول بنتا دکھائی دے رہاہے کہ جو چیز بھی اس ربط سے باہر ہوگی ، وہ یاتو نظر انداز کر دی جائے گی یا منظر ِ عام سے ہٹ جائے گی۔
سانحۂ پشاور نے پاکستان میں زندگی ہی نہیں بلکہ تاریخ کے ایک نئے باب کی ابتداکی ہے۔ ایک سو پینتالیس لاشوں کا تصور ہی اتنا دل دہلا دینے والا ہے کہ اس نے بہت عرصے تک کے لیے ہم سے قوتِ گویائی چھین لی ہے۔اب پریشان کن سوالات کیوں پو چھے جائیں گے کہ قومی سلامتی کی پالیسی کیسے بنائی گئی؟ یا پراکسی جنگ لڑنے کے لیے مختلف گروہ کیوں بنائے گئے؟ یا جب ہماری تمام تر ترجیحات سکیورٹی کے معاملات کے گرد ہی گھومتی ہیں تو پھر برسرِ الزام کون آتا ہے؟اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ مستقبل قریب میں سیاست اور اختلاف ِ رائے کی گنجائش نہیں نکلے گی۔ یہ لمحہ ہماری بقا کے معروضات کا از سر ِ نو تعین کرتا دکھائی دیتا ہے۔
جب میںنے لکھا کہ کیا یہ سانحہ ہمارا نائن الیون ثابت ہوگا تو حالات و واقعات سے باخبر ایک دوست نے فوراً ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ایسا ہی ہوگا۔ یقینا نائن الیون نے امریکہ کو جواز فراہم کیا کہ وہ دشمن پر حملہ کر کے اُسے تباہ کردے۔ گوانتاناموبے جیسی بدنام ِ زمانہ جیل بنائے اور قیدیوں پر تشدد کرے۔۔۔ حالیہ دنوں افشا ہونے والی ایک رپورٹ ا س سے پردہ اٹھاتی ہے۔ امریکی ریاست اور معاشرے نے ایک متفقہ بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اہم ایشو کو اٹھایااور سرزمین کے تحفظ کی غرض سے قومی سلامتی کو درپیش بحران سے نمٹنے کے لیے نیا سیاسی اور نظریاتی معیار وضع کیا۔ صرف یہی نہیں کہ فوج دشمن پر جہاں چاہے کاری ضرب لگائے گی ، بلکہ دشمن کا تعین بھی خود ہی کرے گی اور دیگر تمام معاملات پر قومی سلامتی کو ترجیح دی جائے گی۔اگرچہ نوم چومسکی جیسے دانشور یہ کہتے رہے کہ یہ بیانیہ اپناتے ہوئے امریکہ اپنے دشمن کی، جسے وہ تباہ کرنا چاہتا ہے، صف میںکھڑا دکھائی دے گا، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ عام امریکی نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ ریاست اور فوج نے دشمن کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا کیونکہ ان کے خیال میں وہ کسی رعایت کا مستحق نہ تھا؛ چنانچہ ابو غریب جیل سے آنے والی دہشت ناک کہانیوں کو نظر انداز کرنا پڑا کیونکہ ریاست کے تحفظ کی راہ میں سیاسی اور سماجی احساسات کا کیا کام؟
امریکہ اس لحاظ سے خوش قسمت بلکہ ہم سے مختلف تھا کہ وہاں ایک مستحکم جمہوری نظام موجود ہے۔ دوسری طرف ایسی پالیسی ہمارے ہاں موجود کمزور سیاسی نظام کو براہ ِ راست یا بالواسطہ طور پر نقصان پہنچائے گی۔ بہت سے لوگ سیاست دانوں کی مذمت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب وہ انتہا پسندوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے ہیں تو پھر ان کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے تھکاوٹ کا شکار سیاسی حکومت ابھرنے والی اس نئی حقیقت کے سامنے بہت جلد ہتھیار ڈال دے گی ۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ یہ بحث چھیڑ بیٹھے ہیں کہ اگر انتہا پسندوں کو شکست دینے کی کاوش میں سیاسی حکومت کی قربانی دینی پڑ جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے بھی کیا ایک نیا پاکستان تخلیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ ایسا پاکستان جو موجودہ پاکستان سے مختلف دکھائی دے؟بہرحال دکھائی یہی دیتا ہے کہ اگر موجودہ حکومت کی قربانی نہ بھی دینا پڑی تو بھی یہ پچھلی سیٹ پر جاتے ہوئے ا ُس ریاستی پالیسی کی اخلاقی ذمہ داری اُٹھالے گی جسے اس نے نہیں بنایا ہوگا۔
سیاسی طبقے کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ نیا مقبول سیاسی بیانیہ ان کے حق میں نہیں ہے۔ تاثر یہی جارہا ہے کہ یہ فوج ہے جس نے لوگوں کا دفاع کیا، دہشت گردوں کو سز ا دی اور سلامتی کو یقینی بنایا۔ حال ہی میں ، میں نے فیس بک پر ایک پیغام دیکھا جس میں سیاست دانوں کا جنرلوںسے موازنہ کیا گیا تھا۔ کہا گیا کہ سیاست دان اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بیرون ِ ملک بھجوا دیتے ہیں جبکہ فوجی جنرل اپنے بچوں کو وطن کے تحفظ کے لیے میدان ِ جنگ میں بھیجتے ہیں۔ یقینا فوجیوں کی اس قومی خدمت سے کسی کوبھی انکار نہیں لیکن اہم معاملہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کے پاس عوام کے سامنے رکھنے کے لیے کچھ نہیں ۔ لال مسجد کے سامنے لبرل سول سوسائٹی بھی اس تاثر سے پاک نہیں تھی۔ ہجوم نعرے لگارہا تھا کہ سیاست دانوں نے مولانا عبدالعزیز کو تحفظ فراہم کیو ں کیا؟ اُس ملا کو، جو کبھی برقع اوڑھ کر بھاگنے کی کوشش میں پکڑا گیا تھا، چیلنج کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرین خود کو اس لیے محفوظ سمجھ رہے تھے کہ آج کل فوج بھی انتہا پسندوں کے تعاقب میں ہے اور وہ تصور کررہے تھے کہ اب معاشرے میں لبرل تصورات رائج ہورہے ہیں۔
یقینا اس ماحول میں کوئی بھی پیچیدہ سوالات پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتا کہ یہ انتہا پسند کیسے وجود میں آئے؟ ان کی توجیہہ کیا ہے؟ کیوں بہت سے انتہا پسند‘ ملک کے ہر حصے میں آزادانہ طریقے سے گھومتے پھرتے ہیں؟لال مسجد کے باہر مظاہرین کی طرح ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے افراد کا خیال ہے کہ اس وقت فوج بہت اہم محاذ پر مصروف ہمارے بقا کی جنگ لڑرہی ہے، اس لیے ایسے سوالات اٹھانا دانائی نہیں۔ اگلے دن کسی نے ٹویٹ کیا۔۔۔''پشاورحملے کے بعد حکومت کا پہلارد ِعمل یہ تھا کہ اچھے اور برے، دونوں قسم کے طالبان کے خلاف کارروائی ہوگی ، لیکن اب موقف یہ ہے کہ ہم فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘ ہوسکتا ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں لبرل ماحول قائم ہو جائے لیکن سیاسی ماحول کو یقینا نقصان پہنچ جائے گا۔ اس لبرل بیانیے کے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ اسے انتہا پسندی کے مسئلے کی گہرائی کا علم نہیں۔ جو کچھ مولانا عزیز نے کہا، وہ اُس کا انفرادی بیان نہیں تھا بلکہ اُس کے ہمنوا بہت سے اور بھی ہیں۔ اس کے علاوہ منبر نشین ہونا آج کے حالات میں اتنا سیدھا معاملہ نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔
پشاور فائرنگ میں جاں بحق ہونے والو ں کے ساتھ یو ں سمجھ لیں کہ ریاست اور قومی سلامتی کے نئے بیانیے سے اختلاف بھی دفن ہوچکا۔ آنے والے دنوں بلکہ مہینوں میں گمشدہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے بارے میں سوالات پوچھنا دشوار ہوگا۔ اور یقینا ان واقعات میں اضافہ بھی دکھائی دے گا۔ اس کے علاوہ، جیسا کہ امریکہ میں دیکھنے میں آیا، کہا جائے گا کہ سوالات اہم امور سے توجہ ہٹادیتے ہیں ، چنانچہ ان سے اجتناب ہی بہتر۔ویسے بھی لوگ دہشت گردوں کی لاشیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب غالباً اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ عسکری ادارے‘ امریکی معاونت حاصل کرتے ہوئے دہشت گردوں کا ڈرون حملوں کے ذریعے قلع قمع کریں۔ بہت سے لوگ ، جنھوں نے ڈرون حملوں کی دستاویزی فلمیں بنائی تھیں اور وہ ان کے خلاف باتیں کررہے تھے، اب اپنا سامنہ لے کر رہ جائیں گے۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں مسائل کی اُن وجوہ کو برداشت کرنا مشکل ہوتا جائے گا جن کا وہ کبھی بھی حصہ نہیں رہے۔ چنانچہ بلوچستان، فاٹا اور سندھ میں پیش آنے والے پر تشدد واقعات پر بات کرنا غیر ضروری دکھائی دے گا۔ ہمیں کم از کم یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چوہدری نثار پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ آپریشنز کے دوران عسکری ادارے خواتین اور بچوں پر گولی نہیں چلاتے اور اگر تشددا ور اجتماعی نقصان کے واقعات پیش آ بھی جائیں تو ان کا کیا ذکر کرنا ہوا؟جنگ اور جنگ کی طرح کے بحران عجیب قسم کی حب الوطنی کو جنم دیتے ہیں جس کے بعد کسی اور بیانیے کی گنجائش نہیں رہتی۔ شاید ہم اسی طرح کی نظریاتی طور پر مربوط ریاست کی تخلیق کی طرف رواں دواں ہیں۔