تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     25-12-2014

ڈپلومیسی کے مختلف طریقے

سفارت کاری دنیا کے قدیم پیشوں میں سے ہے۔سفارت کار کا کام بین الاقوامی تعاون کا فروغ اور جنگ کے امکانات کو کم کرنا ہے اور اگر جنگ ہو جائے تو صلح کا معاہدہ بھی سفارت کاری کے ذریعہ عمل میں آتا ہے۔سفیر دوسرے ملک میں ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے۔وہ ہر قسم کے تعاون کی بات کر سکتا ہے مثلاً سیاسی مشاورت‘عسکری تعاون اور تجارت کا فروغ وغیرہ ۔میں نے جب 1972ء میں فارن سروس جوائن کی تو ایک روز میرے گائوں کے ایک معتبر شخص نے پوچھا کہ سفارت خانہ میں تمہارا کیا کام ہو گا؟ میں نے کہا کہ میں پاکستان کی نمائندگی کروں گا لیکن مجھے یوں لگا کہ میں بات سمجھا نہیں پایا چنانچہ میں نے جواب میں اضافہ کیا کہ میں ویزے ایشو کروں گا۔اس ملک کے لوگ میری اجازت کے بغیر پاکستان نہیں آ سکیں گے۔ اب جا کے بات کچھ واضح ہوئی۔لیکن مجھ سے بہتر جواب میرے ایک ساتھی نے دیا تھا۔اسے بھی گائوں میں پوچھا گیا کہ تم تھرڈ سیکرٹری بن کر جا رہے ہو مگر تمہارے اختیارات کیا ہوں گے؟ اس نے جواب دیا کہ اس ملک میں اگر میں بڑے سے بڑے آدمی کو بھی قتل کر دوں تو مجھے کوئی گرفتار نہیں کر سکے گا۔دیہاتیوں کو سفارت کاری کا مطلب سمجھانے اور سفارت کار کی حیثیت واضح کرنے کا یہ اچھا طریقہ تھا۔سفارت کاروں کو استثنا حاصل ہوتا ہے۔
1970ء میں ٹیلکس آ چکی تھی اور پھر بین الاقوامی ٹیلیفونک رابطے بھی آسان ہونے لگے۔اس زمانے میں عام خیال تھا کہ وزارت خارجہ اب روزانہ احکامات اپنے سفراء کو دیا کرے گی لہٰذا سفیر کی حیثیت اور اہمیت کم ہو جائے گی۔بعد میں بعض لوگوں کی رائے تھی کہ سفارت خانے جو رپورٹیں باقاعدگی سے لکھ کر اپنی حکومت کو بھجواتے ہیں اس سے بہتر رپورٹیں اس کام کو آئوٹ سورس کر کے لکھوائی جا سکتی ہیں۔لیکن نہ ہی سفیر کی اہمیت کم ہو ئی اور نہ ہی رپورٹیں کسی اور سے لکھوائی گئیں۔ اہم ممالک سے جو رپورٹیں سفیر بھیجتے ہیں ان میں کئی حساس باتیں ہوتی ہیں جو رازداری کا تقاضا کرتی ہیں لہٰذا ایسی رپورٹیں سفارت خانے کوڈ کی زبان میں بھیجتے ہیں اور یہ رپورٹیں پاسورڈ کے بغیر کھولی بھی نہیں جا سکتیں۔ یہ پاس ورڈ عام کمپیوٹر پر استعمال ہونے والے پاس ورڈ سے بہت لمبے اور مشکل ہوتے ہیں اور چند روز بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔
قرون وسطیٰ میں یورپی بادشاہ اپنے قریبی عزیزوں کو ہی سفیر بناتے تھے جو ان کے معتمد خاص ہوتے تھے۔ اس زمانے میں خط سمندری جہازوں سے جاتے تھے۔سفیروں کو ہدایات دینے میں بھی وقت لگتا تھا ۔آج یہ پیشہ خاصہ عوامی ہو گیا ہے ۔سفارت کار عمومی طور پر مقابلے کے امتحان کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔پھر بھی ایک رکھ رکھائو اس سروس کا طرۂ امتیاز ہے۔سفارت کار ایک دوسرے سے تمیز اور سلیقے سے بات کرتے ہیں۔ایک نئے ملک میں پہنچ کر سفیر دوسرے سفرا کو ایک ایک کر کے ملنے جاتا ہے۔ دوست ممالک کے سفرا اسے خوش آمدید کہنے کے لیے لنچ یا ڈنر کرتے ہیں اور یہی عمل رخصت کے وقت الوداعی کھانوں کی شکل میں ہوتا ہے۔آخر میں وزارت خارجہ ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کرتی ہے۔مجھے یاد ہے کہ دسمبر 2007ء میں جب میں مسقط سے واپس آ رہا تھا تو دوسرے سفراء کے علاوہ بھارت کے سفیر نے بھی میرے لیے الوداعی ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ ایسے مواقع پر اچھی مگر 
مختصر تقریریں دعوت کا لطف بڑھا دیتی ہیں ۔
اور اب واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔سفارت کاری اب بھی سفارت خانوں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے لیکن آپ نے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا نام بھی سنا ہو گا۔اگر حکومتوں کے درمیان تنائو کی صورت حال ایسی ہو جائے کہ سرکاری لیول پر گفت و شنید بھی مشکل ہو جائے تو ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ٹریک ٹو کی اصطلاح سب سے پہلے امریکہ کے ایک سفارت کار جوزف مونٹویل نے استعمال کی۔اس کا خیال تھا کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی اس وقت ضرور استعمال کرنی چاہیے جب ٹریک ون کی ٹرین پٹڑی سے اتر چکی ہو۔شروع میں امریکی وزارت خارجہ نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ وزارت کا خیال تھا کہ ٹریک ٹو گپ شپ تک محدود رہے گی اور اس بے سود عمل کی وجہ سے وزارت خارجہ کی اہمیت خواہ مخواہ کم ہو گی۔ لیکن آج ٹریک ٹو ڈپلومیسی سفارت کاری کی ایک مسلمہ مگر غیر سرکاری شکل ہے۔پاکستان اور بھارت کے مابین ٹریک ٹو کے متعدد رائونڈ ہو چکے ہیں ۔ابھی حال ہی میں ایک رائونڈ تھائی لینڈ میں ہوا ہے جس میں پاکستانی غیر حکومتی وفد کی قیادت محترمہ شیری رحمن نے کی۔یہاں ٹریک ٹو اور بیک چینل ڈپلومیسی میں فرق واضح کرنا ضروری ہے۔ٹریک ٹو میں عام طور پر ریٹائرڈ سفارت کار‘جرنیل‘ صحافی اور ممتاز سکالر شامل ہوتے ہیں۔اس قسم کی سفارت کاری کو عام طور پر غیر ملکی تھنک ٹینک سپانسر کرتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں ہونے والی حالیہ ملاقات کو آسٹریلیا کے ایک تھنک ٹینک نے پاکستان کے جناح انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ مل کر سپانسر کیا۔آسان لفظوں میں یہ کہ دونوں نے مل کر پاکستان اور بھارت سے تقریباً بیس اہم دیگر غیر حکومتی شخصیات کو مدعو کیا۔ ہوٹل کی رہائش کرابی کے پر فضا مقام پر تھی۔ اچھے اچھے کھانے کھلائے اور کہا کہ آپ لوگ دو روز یہاں بیٹھ کر پاک بھارت تعلقات پر بات کریں۔بات چیت کے بعد مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا۔اب ظاہر ہے کہ دونوں حکومتوں کے لیے یہ قطعی ضروری نہیں کہ وہ اس اعلامیہ کی تجاویز پر عمل کریں۔
دوسری طرف بیک چینل ڈپلومیسی کی نوعیت قدرے خفیہ ہوتی ہے۔یہ لوگ میڈیا والوں سے دور رہتے ہیں۔ایک اہم بات یہ ہے کہ بیک چینل میں نمائندے حکومتیں مقرر کرتی ہیں۔مگر یہ حاضر سروس لوگ نہیںہوتے۔ مثلاً1990ء کی دہائی میں نیاز نائک مرحوم اور ہندوستان کے مسٹر مشرا کشمیر کے بارے میں بیک چینل چلاتے رہے۔اسے نیم رانا ڈائیلاگ کا نام دیا گیا۔نیم رانا دہلی اور جے پور کے درمیان مشہور ہوٹل ہے۔بیک چینل کی اور مثال جنرل مشرف کے زمانے میں ان کے معتمد خاص طارق عزیز اور سابق بھارتی سفیر لامبا کے درمیان ملاقاتیں تھیں۔ مسٹر لامبا پاکستان میں بھارت کے سفیر رہ چکے تھے اور سفارت کاری کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ادھر طارق عزیز ساری عمر ٹیکس کلکٹر رہے آخر میں منشیات والی وزارت کے سیکرٹری بنے۔ان کی واحد کوالیفکیشن یہ تھی کہ مشرف کے بہت قریب تھے۔چنانچہ حسب توقع ان دنوں ہماری کشمیر پالیسی خاصے ابہام کا شکار رہی۔
بیک چینل ڈپلومیسی کی کامیاب مثال اسرائیل اور یاسر عرفات کے درمیان1993ء کا اوسلو کا معاہدہ ہے اس معاہدے کا اعلان پی ایل او کے لیڈر اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین اور صدر کلنٹن نے مشترکہ طور پر واشنگٹن میں کیا۔یاسر عرفات اور رابین کو نوبل امن انعام ملا لیکن معاہدے کی اصل شق پر آج تک عمل نہیں ہوا اور وہ یہ تھی کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل پانچ سال کے عرصے میں امن کا فائنل معاہدہ طے کریں گے۔ بیک چینل ڈپلومیسی کے دوران جو تجاویز طرفین کی طرف سے آتی ہیں ان پر کسی کے دستخط نہیں ہوتے لہٰذا ان کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہوتی اسی وجہ سے انہیں نان پیپر (Non Paper) بھی کہا جاتا ہے۔
پچھلے دس سال میں ڈپلومیسی کی ایک اور قسم مقبول ہو رہی ہے جسے ٹریک تھری کا نام دیا گیا ہے۔اس میں پبلک ڈپلومیسی اور کلچرل ڈپلومیسی دونوں شامل ہیں۔سفارت کاری کی یہ شکل پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے کی جاتی ہے۔مقصد ملک کے مجموعی تاثر کو بہتر کرنا اور خیر سگالی کے جذبات پیدا کرنا ہوتا ہے۔چند روز پہلے امریکہ سے آئے ہوئے ایک گروپ نے کراچی میں قوالی سنائی۔امریکہ ہی کی ایک سابق سفیر این پیٹرسن پاکستان میں اولیاء کرام کے مزاروں پر جاتی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفارت خانے بھی پبلک ڈپلومیسی کر سکتے ہیں۔ٹریک تھری پر مفصل بحث آئندہ کسی کالم میں ہو گی مگر اصلی اور خالص ڈپلومیسی آج بھی ٹریک ون ہی ہے۔ سفیر اور سفارت خانے آج بھی اہم ہیں اور رہیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved