تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     25-12-2014

بانیٔ پا کستا ن اور ہم

بانی پاکستان حضرت محمد علی جنا ح 25دسمبر 1876ء کووزیر مینشن کراچی میں پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچپن ہی سے غیرمعمولی ذہانت اور فطانت عطا فرمائی تھی۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کیتھڈرل اور جان کونن سکول سے حاصل کی، بعدازاں سندھ مدرسۃ الاسلام اور کرسچین مشنری ہائی سکول میں زیر تعلیم ر ہے۔ آپ کو چھوٹی عمر میںہی وقت کی اہمیت کا پورا احساس تھا ۔آپ فارغ اوقات میںعدالتوںمیں مقدمات کی سماعت کیا کرتے اور بحث وجرح کو سن کر قانون کی گتھیاںسلجھایا کرتے تھے۔
میٹرک پاس کرنے کے وقت آپ کی عمر 16برس تھی۔آپ کے والد پونجا جناح کے ساتھ تجارت کرنے والے انگریز فیڈرک لی کورٹ نے آپ کو برطانیہ میں اپنی کمپنی گراہم شپنگ اینڈٹریڈنگ میںا پرنٹس شپ کی پیشکش کی۔ آپ نے لندن پہنچنے پراپرنٹس شپ کو ترک کرکے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ''لنکن ان‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ بیس برس کی عمر میں بیرسٹر بننے کے بعد بمبئی(اب ممبئی) واپس آگئے۔ آپ اس وقت شہر کے واحد مسلمان بیرسٹر تھے۔ آپ کی پیشہ وارانہ زندگی کے ابتدائی تین سال جدوجہد میں گزرگئے، 1900ء میںآپ کو بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل کے چیمبرمیں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران آپ عارضی طور پر بمبئی کے ریزیڈنسی مجسٹریٹ بھی بنے۔ 6ماہ کے بعدآپ کو مستقل طور پر اس ملازمت کی پیشکش کی گئی مگرآپ نے جج بننے کے بجائے وکالت کرنے کو ترجیح دی۔ 1907ء میں آپ کوبیرسٹر سر فیروزشاہ کا کیس لڑنے کا موقع ملا جنہیں دھاندلی کے ذریعے میونسپل انتخابات میں ہرادیا گیا تھا۔ آپ نے ان کے کیس کی بھرپور وکالت کی۔آپ اگرچہ مقدمہ جیت نہ سکے لیکن دلائل پرگرفت کی وجہ سے آپ کو غیرمعمولی شہرت ملی۔ آپ کو اپنی ذات پر غیرمعمولی اعتماد تھا ۔ بمبئی ہائیکورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ایک جج نے آپ کو مخاطب ہو کرتے ہوئے کہا : مسٹر جناح ! یاد رکھیے، آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے گفتگو نہیں کر رہے۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ جج صاحب آپ بھی متنبہ رہیے کہ آپ بھی کسی تیسرے درجے کے وکیل سے دلائل نہیں سن رہے۔
حضرت محمد علی جناح کو وکالت کے ساتھ ساتھ سیا ست سے بھی دلچسپی تھی۔ آپ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بمبئی میں ہونے والے کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس سے کیا۔ آپ نے کانگریس میں صرف اس لیے شمولیت اختیارکی کہ انگریز سامراج کی غلامی سے ہندوؤںاورمسلمانوںکو بیک وقت نجات دلائی جا سکے۔ ان دنوں کانگریس میں دو طرح کے طبقات تھے۔۔۔۔ایک طبقہ ہندو مسلم اتحاد کا حامی تھا جس کی نظر صرف انگریز سامراج سے آزادی حاصل کرنے پر تھی جبکہ دوسرا صرف ہندوؤں کے حقوق کے بحالی کے لیے کام کررہا تھا اور اسے مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔کانگریس میں ہندوؤںکے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی اکثریت اور غلبہ تھا جس کی وجہ سے انڈیا کے نمایاں مسلمان رہنماؤں نے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ۔ حضرت محمدعلی جناح کا اس وقت یہ خیال تھا کہ ایک علیحدہ مسلمان جماعت بنانے کے بجائے مسلمانوں کو کانگریس کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنی چاہیے اورآپ نے پوری دیانت داری اور خلوص کے ساتھ کانگریسی رہنماؤں کے ہمراہ برصغیر کے باسیوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کی اور اپنی کاوشوں کی وجہ سے ہندو مسلم اتحاد کے سفیر بن کر ابھرے ۔
مسلم لیگ کی محنت اورکاوش کی وجہ سے جہاں برصغیرکے مسلمانوں کی توجہ مسلم لیگ کی طرف مبذول ہونا شروع ہوگئی وہاں حضرت محمدعلی جناح بھی ذہنی طور پر اس کی طرف مائل ہونا شروع ہوگئے ۔ 1912ء میں آپ نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس حالت میں شرکت کی کہ آپ کانگریس کے لیڈر بھی تھے۔ آپ نے 1913ء میں کانگریس کے لیڈر ہوتے ہوئے مسلم لیگ میں باقاعدہ شمولیت اختیارکرلی اور پرخلوص انداز میں برصغیر کے باشندوں کی آزادی کے لیے دونوں جماعتوںکے اتحاد کے لیے بھی جستجوکرتے رہے۔
ہندو ایک ہزار برس تک مسلمان بادشاہوں کے زیر سایہ رعایا کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے بعد جدید انتخابی اور جمہوری نظام میں اپنی عددی اکثریت کا فائدہ اٹھانے کا پختہ اور منظم منصوبہ اختیارکر چکے تھے، اس لیے نمایاں ہندو رہنما مسلمانوں کے ساتھ جانبدارانہ رویہ اپنانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ حضرت محمد علی جناح کی دوررس نگاہ ہندوؤں کی حقیقت کو بھانپ گئی ؛ چنانچہ ابتدائی طور پرآپ نے جداگانہ انتخاب اور بعد ازاں اپنے رفقاکی مشاورت سے علیحدہ وطن کے حصول کے لیے جدوجہدکا آغازکردیا۔
بابائے قوم کو حضرت علامہ محمد اقبال ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفرعلی خان جیسے رفقا کی معاونت حاصل ہوئی جنہوں نے برصغیرکے طول وعرض میں مسلمانوں کی بیداری کے لیے بھر پور جدوجہد کی ۔ انڈیاکے مشرقی اور مغربی کناروں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی ؛ چنانچہ وہاںآباد مسلمانوں نے حضرت محمد علی جناح کی قیادت میں منظم جدوجہدکاآغاز کردیا۔ انڈیا کے کئی علاقوں میں موجود مسلمان سمجھتے تھے کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتے لیکن انہوں نے بھی برصغیرکے مسلمانوں کی بہتری کے لیے آپ کے اس نعرے پر دیوانہ وار لبیک کہا۔
آپ کی قیادت میں تما م قومیتوں اور مسالک کے لوگ اکٹھے ہوگئے ۔ ان تمام لوگوں نے پاکستان کے قیام کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں اپنا اپنا حصہ ڈالا اور ہندوؤںکی مکاری اور انگریزوںکی ناانصافی کے باوجود تحریک پاکستان مسلمانان برصغیر کی نمائندہ اور حقیقی تحریک بن گئی۔
بانی پاکستان نے مختلف مقامات پر اپنے خطابات میں یہ حقیقت واضح کی کہ پاکستان برصغیرکے پسے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک پناہ گاہ ثابت ہوگا۔ آپ نے اپنی تقاریر میںاس وطن کوایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر متعارف کروایا جس میں بسنے والے تمام باشندوںکے حقوق کلی طور پر محفوظ ہوںگے۔
بابائے قوم اوران کے رفقاکی شبانہ روزمحنتیں رنگ لائیں اور 14اگست 1947ء کو پاکستان دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کی حیثیت سے ابھرآیا۔ آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ بانی پاکستان نے تحریک پاکستان کے دوران انتھک جدوجہدکی تھی جس کے منفی اثرات آپ کی صحت پر بھی مرتب ہوئے اورآپ دن بدن کمزور ہونا شروع ہوگئے۔ ابھی پاکستان کے قیام کو تیرہ مہینے بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ قائد اعظم ہمیں داغ مفارقت دے کر11ستمبر1948ء کواس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔
پاکستان حضرت محمدعلی جناح کے خوابوںکی تعبیر تھا،اسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے، لیکن بدقسمتی سے قائدکا پاکستان ان کے خوابوں کے مطابق تاحال اسلامی فلاحی ریاست نہیں بن سکا۔آئینی طور پر پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لیکن ملک میں سماجی نا انصافیوں ،شراب فروشی ، جسم فروشی کے اڈوں اور سودکی ریاستی سرپرستی کی موجودگی میں اس کو ایک حقیقی اسلامی ریاست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے پلیٹ فارم سے قانون سازی کے لیے سفارشات مرتب کرکے قومی اسمبلی اور سینٹ کے حوالے کیا جاتا ہے لیکن قومی اسمبلی نے اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پرکوئی اقدامات نہیںکیے۔ ایک فلاحی ریاست میں عوام کو بلا تفریق مذہب اور قوم صحت ، تعلیم اور دو وقت کی غذاکی فراہمی ریاست کی ذمہ داریوںمیں شامل ہے۔ اسی طرح عوام کی جان ومال اور عزت کا تحفظ بھی ملک کی منتخب حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن بدنصیبی سے پاکستان کے شہریوں کی بڑی تعداد بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہے۔ غریب اور امیر طبقے میں بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے ناجائزذرائع آمدن اورکرپشن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور معاشرے میںنفرتیں اور تعصبات پلتے اور پھیلتے رہتے ہیں۔ معاشی ناہمواری کے ساتھ ساتھ پاکستان عرصہ دراز سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ دہشت گردوں کے تانے بانے بیرونی ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں اور چند پیسو ں کے عوض کسی انسانی جان کو لینے کے لیے پیشہ ور قاتل بآسانی میسر آجاتے ہیں۔ قاتلوں اور دہشت گردوں کے احتساب کے لیے قانون قصاص سے نہ جانے ہماری ریاست کیوں گریزاں رہتی ہے؟ قائد پاکستان تو اپنا کردار اور حق ادا کرگئے ،اب قوم اوراس کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپ کے خوابوں کو تعبیردینے کے لیے اپناکردار ادا کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved