تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-12-2014

امن کی امید

پشاور کا المیہ‘ ڈیڑھ سو خاندانوں کی زندگیوں کو اتنے غم و اندوہ سے بھر گیا ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی زندگی کی مسرتوں سے حقیقی لطف نہیں اٹھا سکیں گی۔ رنج و الم کا سایہ‘ ان خاندانوں کی آنے والی نسلوں کے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ اس سانحے کا دوسرا شکار پاکستانی قوم ہے کہ درندں نے سینہ پھاڑ کر‘ کلیجے کو اس بری طرح سے نوچ کر نکالا کہ قوم ابھی تک تڑپ رہی ہے۔شہید بچوں میں اکثریت کا جرم یہ تھا کہ وہ پاک فوج کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ بظاہر درندوں نے بقول خود‘ ضرب عضب کابدلہ لیا ہے۔ لیکن یہ کہنے کی باتیں ہیں۔ جو بچوں کے جسموں سے بم باندھ کر انہیں ریموٹ کنٹرول سے اڑاتے ہوں اور اپنے ہی ساتھیوں کو انسانی بم بنا کر‘ ان کے جسموں کے پرخچے اڑاتے ہوں‘ انہیں ضرب عضب میں ہلاک ہونے والے ساتھیوں کا کیا غم ہو سکتا ہے؟ دکھ‘ غم اور رنج‘ انسانوں کے لئے ہوتے ہیں۔ درندے ان سے آشنا نہیں ہوتے۔ یہ ہر قسم کے احساسات اور محسوسات سے محروم روبوٹ ہوتے ہیں۔ جنہیں ان کے ماسٹرز‘ جہاں چاہیں استعمال کر کے موت کی بھٹی میں بھسم ہونے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ اس سانحے سے اگر کسی کو فائدہ پہنچا ‘ تو وہ ہمارے حکمران طبقے ہیں۔ جس وقت یہ سانحہ رونما ہوا‘ پاکستان میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی ہوئی تھی‘ جو وقت کے ساتھ ساتھ بلند بھی ہو رہی تھی اور پھیل بھی رہی تھی۔ حکمرانوں پر عوامی بیداری کی اس لہر کو دیکھ کر‘ لرزہ طاری تھا۔ وہ بہانے ڈھونڈ رہے تھے کہ کسی طرح‘ اس طوفان کی لپیٹ میں آنے سے بچ جائیں۔ ان کا اقتدار محفوظ رہ جائے۔ جس لوٹ سیل میں‘ وہ دونوں ہاتھوں سے فائدے اٹھا رہے ہیں‘ اس کے لئے مزیدتین چار سال کی مہلت مل جائے۔ مگر طوفان تھا کہ ان کی طرف بڑھتا آ رہا تھا۔ عوام تھے کہ عشروں کے بعد‘ اپنی کامیابی کو قریب دیکھ کر‘ تقدیروں پر چھایا دلدر دور ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
پشاور کے سانحے نے شہیدوں کے گھروں میں‘ صف ماتم ہی نہیں بچھائی‘ مظلوم پاکستانی قوم کی امیدوں کے وہ چراغ جو انہوں نے اپنا خون پسینہ دے کر جلائے تھے‘ وہ بھی بجھ گئے ۔ عمران خان کو ماحول کی سوگواری دیکھ کر ‘ عوامی تحریک روکنا پڑی۔ تبدیلی کا بڑھتا ہوا قافلہ‘ راستے میں ہی رک گیا۔ حکمران جس مہلت کے طلب گار تھے‘ انہیں گھر بیٹھے مل گئی۔ دہشت گردی کے خلاف فوج اور عوام نے جو مشترکہ اعلان جنگ کیا ہے اور جس میں حکمرانوں کو بادل ناخواستہ حصے دار بننا پڑا‘ نامعلوم اب ہماری اجتماعی زندگی کو کس رخ پر ڈال دے؟ آزمائش فوج کی ہے۔ آزمائش عوام کی ہے۔ حکمرانوں کا سب کچھ بیرون ملک محفوظ ہے۔ یہاں وہ صرف لوٹ کا مال سمیٹ کر باہر محفوظ کرنے اور حلوہ کھانے کو بیٹھے ہیں۔ جب انہیں خطرہ لاحق ہوا‘ یہ حلوے کی دیگ پکانے کا آرڈر دیں گے اور جتنا حلوہ مزید اٹھا سکے‘ ساتھ لے کر چلتے بنیں گے۔ فی الحال وہ خطرات سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ فوج کو لڑنا ہو گی۔ جوابی حملوں کا مقابلہ عوام کریں گے۔ سابقہ حکمرانوں نے ‘ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں‘ اپنی شکست کا پورا سامان مہیا کر لیا تھا۔ دنیا میں ہمارا کوئی دوست نہیں رہا تھا۔ کسی کو ہم پر بھروسہ نہیں تھا۔ امریکہ ہم پر بری طرح سے ناراض تھا۔ کیونکہ اس کے ساتھ مسلسل جھوٹ بولے گئے۔ دہشت گردی کے خلاف ‘ امریکہ سے بھاری رقمیں بٹور کر‘ بیرون ملک جمع کر لی گئیں اور تھوڑی بہت رقم‘ دہشت گردوں پر لگا کر انہیں امریکیوں کے خلاف لڑنے کے لئے‘ افغانستان بھیجا گیا اور جب بھی دہشت گردوں پر دبائو پڑتا‘ انہیں پاکستان میں پناہ گاہیں فراہم کر دی جاتی تھیں۔ امریکہ نے پاکستان سے تازہ دم ہو کر جانے والے دیگر دہشت گردوںکا خوب مقابلہ کیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا‘ افغانستان کے لئے فوج تیار کر دی اور وہاں ایک نمائندہ حکومت قائم کر کے‘ اپنی فوج کا بڑا حصہ واپس بلا لیا۔ اب امریکہ کی تھوڑی سی فوج‘ علامتی طور پر افغانستان میں موجود رہے گی۔ امریکہ کی افغانستان میں صرف اتنی دلچسپی رہ گئی ہے کہ وہاں کی مقامی حکومت ‘ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتی رہے اور امریکہ اپنی طرف سے‘ ان کی جتنی مدد مناسب سمجھے‘ انہیں دیتا رہے۔ فطری امر ہے کہ امریکہ افغانستان کو ‘ دہشت گردوں کے قبضے میں جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا اور اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کا خواہش مند ضرور تھا۔ لیکن اسے ہمارے حکمرانوں پر بھروسہ نہیں رہ گیا تھا۔ اس ماحول میں جنرل راحیل شریف‘ امریکہ کے دورے پر گئے۔ انہوں نے پاک فوج کی طرف سے‘ امریکیوں کے مسمارشدہ اعتماد کو‘ آزمائشی حد تک بحال کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ نے عبوری مدت کے لئے پاکستان کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قابل اعتماد حلیف ثابت کر دے۔ یہ ہے وہ موقع‘ جوجنرل راحیل شریف‘ پاک فوج اور قوم کے لئے حاصل کر کے لائے ہیں۔ اعتماد کا رشتہ جو آزمائشی طور پر بحال کیا گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں امریکہ نے ہمیں یہ آخری موقع دیا ہے کہ ہم ‘ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنے میں‘اپنا کردار ادا کریں۔ افغانستان کی نسبت ہم آج بھی بہتر پوزیشن میں ہیں اور موثر اور فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پہلا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ افغانستان کی نئی حکومت نے‘ اپنے امریکی سرپرستوں کی ایما پر ‘ پاکستان سے تعلقات بحال کرنے کے لئے خود پہل کی۔ پہلے چین گئے تاکہ اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے سکیں اور اس کے بعد پاکستان آ کر‘ براہ راست فوج سے مذاکرات کئے اور باہمی تعاون کے متعدد معاہدے کر کے‘ ان پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا۔
یہ معاہدے فی الحال بڑے محدود اور آزمائشی ہیں۔ ان کے تحت ‘ پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر‘ دہشت گردوں کا قلع قمع کرے گا اور انہیں افغانستان میں جا کر کارروائیاں کرنے سے روکے گا۔ یہی ذمہ داری افغان حکومت‘ اپنی سرحدوں 
کے اندر پوری کرے گی۔ پہلا عملی ثبوت ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کے خلاف‘ افغان فوج کی کارروائی کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے حقانی گروپ اور سابق حکمرانوں کے دیگر لاڈلے دہشت گردوں کو‘ سرحدپار کارروائیوں سے روکنے کی بھرپور کوشش شروع کر دی ہے۔ آزمائش کے پہلے مرحلے میں دونوں ملک کامیاب رہے ہیں اور آثار یہ بتا رہے ہیں کہ انشاء اللہ آگے بھی‘ کامیابیاں حاصل کرتے رہیں گے۔ امریکہ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کرنے کے لئے‘ ہمیں ڈالروں میں اچھی خاصی رقم دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔ جس کا بڑا حصہ موصول بھی ہو گیا ہے۔ امریکہ‘ پاکستان کے معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے‘ بھی مالی مدد دینا چاہتا ہے۔ لیکن اسے ہمارے حکمرانوں پر ذرا بھی اعتماد نہیں رہ گیا۔ وہ سابقہ تجربات سے انتہائی مایوس ہے۔ امریکہ سے حاصل شدہ رقوم‘ جس طرح کرپشن میں ہضم کی گئیں‘ ان کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ اس نے کوشش کی کہ این جی اوز کے ذریعے امریکی امداد کے فوائد براہ راست عوام کو پہنچائے جائیں۔ لیکن اس میں بھی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ بیشتر چالاک این جی اوز والے‘ جن علاقوں میں رقوم خرچ کرنے کی رپورٹ دیتے ہیں‘ وہ امریکیوں کے لئے خطرات سے پر ہیں۔ ان کی حکومت انہیں ایسے علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ چنانچہ وہ این جی اوز کے رحم و کرم پر ہیں کہ جو حساب بھی انہیں دیا جائے‘ اس پر اعتبار کر لیں۔ امریکہ اس صورتحال سے نکلنا چاہتا ہے۔ وہ اب بھی کوشش کر رہا ہے کہ حکومتی مشینری میں‘ اتنی اصلاح ہو جائے کہ جو رقوم وہ پاکستانی عوام کے فائدے کے لئے دینا چاہتا ہے‘ وہ اصل حق داروں تک پہنچ جائیں۔ امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی نرسریوں میں‘ دہشت گردوں کے جو نئے گروہ تیار ہو رہے ہیں‘ انہیں روکا جائے۔ کیونکہ دہشت گردوں کی طاقت میں اضافہ‘ عالمی نظام کے لئے بھی خطرہ ہے۔ بحث کو سمیٹنے کی خاطر کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستانی حکمرانوں نے کرپشن پر قابو پا کر‘ دہشت گردی کے خلاف مہم میں سنجیدگی دکھائی‘ تو ہم بھی بحران سے نکل سکتے ہیں اور وہ بھی اپنا حلوہ مانڈہ‘ مزید دوتین سال چلا سکتے ہیں۔ اگر وہ کرپشن اور بدعنوانیوں میں کمی کر کے‘ عوام کی زندگی میں تھوڑی بہت آسانیاں لاتے رہے‘ تو سب کا کام چل جائے گا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کی کارروائیاں بھی انشاء اللہ کامیابی سے آگے بڑھتی رہیں گی۔خدانخواستہ ایسا نہ ہوا‘ تو پہلی قربانی حکمرانوں کی ہو گی۔ فوج اور عوام کو ایک موقع اور دیا جائے گا اور عمران خان نے ملک و قوم کے لئے‘ جس کام کو ادھورا چھوڑا ہے‘ وہ اسے دوبارہ شروع کر سکیں گے اور کرپشن کے خلاف جس بے رحمانہ آپریشن کی مدت سے ضرورت ہے‘ وہ شروع ہو جائے گا اور انشاء اللہ پاکستان میں کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمے کے اصل دور کا آغاز ہو جائے گا اور یہ پشاور کے شہیدوں کا تحفہ ہو گا‘ جو صرف پاکستانی ہی نہیں‘ دنیا بھر کے عوام کو تباہ کاریوں اور تکالیف سے نکال کر‘ آسودگی سے فیض یاب ہونے میں مدد دے گا۔میں انقلاب کی بات نہیں کر رہا‘ صرف امن کی امید دیکھ رہا ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved