تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     26-12-2014

نیشنل وار گورنمنٹ

شیکسپیئر نے لکھا تھا ''کچھ لوگ پیدائشی عظیم ہوتے ہیں، کچھ محنت سے عظمت حاصل کرتے ہیں اور بعض پر عظمت رکھ دی جاتی ہے‘‘ پاکستان میں ان دنوں تیسری قسم کی قیادت کا راج ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں ایسے ہی لوگوں کی عظمت کاڈنکا بج رہا ہے۔
7مئی 1940ء برطانوی وزیراعظم نیول چیمبرلین کی زندگی کا یادگار دن تھا۔ دارالعوام نے جرمنی کے خلاف تباہ کن برطانوی مہم پر بحث شروع کی اور بالآخر چیمبرلین کو اعتماد کے قابل سمجھا ۔ ووٹ آف کانفیڈنس حاصل کرنے کے بعد چیمبرلین کو اپنی کامیابی و کامرانی پر خورسند ہوکر آگے بڑھنے کی ضرورت تھی مگر اپنی ہی پارٹی میں پڑنے والی پھوٹ اور اٹھنے والے سوالات نے چیمبرلین کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا دوسری جنگ عظیم میں وہ برطانوی قوم اور فوج کی قیادت کرنے کے قابل ہے ،وہ دارالعوام میں اکثریت کی بنیاد پر اپنی مدت پوری کرسکتا ہے؟
چیمبرلین نے عالمی اور ملکی صورتحال ، جرمنی کے جارحانہ عزائم اور اپنی محدودات (Limitations) کا جائزہ لیا، اپنی پارٹی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت چلانا اس کی ترجیح تھی نہ قوم کو پسند، اس نے کنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی اور لبرل پارٹی پر مشتمل قومی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تو لیبر لیڈر لارڈ کلیمنٹ ایٹلی نے ان کی پیش کش مسترد کردی۔ لارڈ ایٹلی نے یہ فیصلہ نازی جرمن کو خوش کرنے کی ''چیمبرلین پالیسی ‘‘کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جبکہ سرونسٹن چرچل بار بار نازی عزائم سے عوام اور پارلیمنٹ کوآگاہ کررہے تھے اور پولینڈ پر حملے نے ان خدشات کی تصدیق کردی تھی۔
چیمبرلین نے قومی حکومت کی تشکیل میں ناکامی کے بعد استعفیٰ دینے کا آبرو مندانہ راستہ اختیار کیا اور کوشش کی کہ اپنے اور اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ لارڈ ہیلی فیکس کو وزیراعظم بنادیا جائے مگر ہیلی فیکس نے آنے والے طوفانوں کا اندازہ کرکے یہ پیشکش قبول نہ کی‘ یوں سرونسٹن چرچل کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوگئی جسے چند روز قبل فرسٹ لارڈ آف ایڈمریلٹی کے طور پر واپس بلایاگیا تھا۔ چیمبرلین اور بادشاہ دونوں چرچل کے حق میں نہ تھے مگر قرعہ فال ان کے نام نکلا۔ 
امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب '' لیڈرز‘‘ میں لکھا ہے کہ '' میں اکثر سوچتا ہوں اگر اس وقت چرچل کو وزیراعظم کے بجائے سمندری جنگ اور ایڈمریلٹی کے کاموں پر مامور رکھا جاتا تو یہ کیسا کھیل ہوتا لیکن لیڈر اس طرح سے نہیں سوچتے‘‘۔ چرچل نے وزیراعظم بن کر اپنی پہلی تقریر میں کہا '' میرے پاس اپنا خون، محبت ، آنسو اور سوائے لینے کے دینے کو کچھ نہیں '' نکسن نے اس پر لکھا '' انہیں قیادت کے لفظ کا اضافہ کرنا چاہیے تھا اگر ان کی قیادت نہ ہوتی تو شائد آج برطانیہ کرۂ ارض پر موجود ہی نہ ہوتا‘‘۔
چیمبرلین اپنا تاریخی کردار ادا کرچکا تھا اب چرچل کی باری تھی اس نے وزیراعظم بنتے ہی چیمبرلین پر زور دیا کہ وہ ان کی حکومت میں موجود رہے، کل تک چیمبرلین کی پالیسیوں بالخصوص نازی جرمنی کے حوالے سے Appeasing Policyکے سب سے بڑے ناقدنے اپنے پیشرو کی شرافت اور نیک نامی کی تعریف کی اور فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں تمام اجلاسوں اور فیصلوں میں شریک کیا۔ یہ سیاست کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔
اس موقع پر چرچل نے جو جنگی کابینہ تشکیل دی اس میں تینوں پارٹیوں کے نمائندگان شامل تھے۔ سابق وزیراعظم چیمبرلین کے ساتھ لیبر پارٹی کے کلیمنٹ ایٹلی، نیشنل پارٹی کے سرجان اینڈرسن ، کنزرویٹو پارٹی کے وسکائونٹ ہیلی فیکس، کینگسلے وڈ اور انتھونی ایڈن اور دیگر مایہ ناز برطانوی سیاستدان اس کابینہ کا حصہ تھے۔ قومی دفاع اور سلامتی کے علاوہ آزادی و خود مختاری کے تحفظ کی اس جنگ کو جیتنے کے لیے سیاستدانوں نے اپنے اختلافات اور جماعتی مفادات کو پس پشت ڈالا اور اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر فاشزم پر فتح حاصل کی۔
پاکستان اس وقت اپنے وجود، آزادی اور قومی تشخص برقرار رکھنے کی تاریخی جنگ لڑرہا ہے۔ برسوں کی سیاسی آوارہ خیالی اور بے جہت جنگ کے بعد گزشتہ روز قومی سیاسی و مذہبی قیادت نے اے پی سی کے پلیٹ فارم پر بیس نکاتی قومی ایجنڈا تشکیل دیا ہے اس قومی ایجنڈے کی تشکیل پر عملدرآمد کا مرحلہ خاصا سخت ہے۔ ماضی میں ایسی ہر اے پی سی اس بنا پر ناکامی سے دوچار ہوئی کہ حکومت کی ترجیحات وقت کے ساتھ بدلتی رہیں اور روزمرہ سیاست نے طویل المیعاد ایجنڈے کو پس پشت ڈال دیا۔ مسلم لیگ ن کے اکابر واصاغر تسلیم تو کبھی نہیں کریں گے مگررجال کار کی کمی اصل مسئلہ ہے۔ پیپلزپارٹی کی طرح اس کا انحصار بھی ایک خاندان اوراس کے چند وفادار حاشیہ نشینوں پر ہے۔
پیپلزپارٹی کو منتخب وزیر خزانہ ، وزیر خارجہ اور وزیر منصوبہ بندی کے لیے ہمیشہ ادھر ادھر دیکھنا پڑا، مسلم لیگ ن ڈیڑھ سال سے اقتدار میں ہے مگر آج تک اسے ڈھنگ کا کوئی وزیر خارجہ ملا، نہ وزیر دفاع اور نہ وزیر قانون؛ چنانچہ بعض غیر متعلقہ لوگوں کو اضافی چارج دے کر کام چلایا جارہا ہے۔ ملک اگر حالت جنگ میں ہے تو پھر ایسے ملک کو چلانے کے لیے بھی غیر معمولی ذہانت کے تجربہ کار و چوکس اور یکسو لوگوں کی ضرورت ہے۔ جو حکومت اور کابینہ ڈیڑھ سال میں پلان آف ایکشن نہ بناسکی اور فوجی قیادت کے دبائو پر اسے اپنی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر یہ ہمالیہ سر کرنا پڑا وہ عملدرآمد کے مراحل میں کس قدر لیاقت، مستعدی اور چابکدستی کا مظاہرہ کرسکتی ہے ؟اپنے بیگانے سب جانتے ہیں۔
جب آئین، جمہوری روایات اور پارلیمانی عدالتی نظام کو پس پشت ڈال کر ایکشن آف پلان کل جماعتی کانفرنس کے ذریعے تیار کیاگیا ہے وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کو ایک تنکا تک نہیں توڑنا پڑا۔ فوجی افسران کی سربراہی میں فوری سماعت کی عدالتوں کا قیام عمل میں آرہا ہے اور دو سال تک یہ آزادی سے کام کریں گی ۔وفاق صوبوں سے تقاضا کررہا ہے کہ وہ خدا کے لیے آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج کو طلب کرلیں، سول بالادستی کے اصول کی نفی نہیں ہوگی تو پھر قومی ایجنڈے پر مکمل عملدرآمد کی ذمہ داری ایک ایسی حکومت اور کابینہ کو کیوں سونپی جائے جس کا ٹریک ریکارڈ چنداں حوصلہ افزا نہیں،درست روی و بے نیازی جس کا وتیرہ ہے۔
میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کی نیک نیتی پر مجھے کوئی شک نہیں، وہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کا قوی عزم رکھتے ہیں مگر صرف نیک نیتی اور عزم اتنے بڑے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں۔ درست ترجیحات ، رجال کار کی موجودگی اور واضح منصوبہ بندی کامیابی کے لیے بنیادی شرائط ہیں۔ مسلم لیگ ن کی تیسری حکومت نے بھی ترقیاتی و تعمیراتی منصوبوں پر توجہ دی اور قومی ایشوز حل کرنے کے لیے کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی۔ رجال کار کی کمی کا علم پوری قوم کو ہے ورنہ یہ حکومت صرف ڈیڑھ سال میں اپنی بقا کے لیے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی محتاج نہ ہوتی اور دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کے لیے بھی سانحہ پشاور کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔
مہینوں وفاقی کابینہ کا اجلاس نہ بلانے اور قومی اسمبلی و سینٹ کا رخ نہ کرنے کے عادی وزیراعظم اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس قومی آزمائش پر پورا اترنے کی کوشش کریں بھی تو مطلوبہ نتائج کا حصول مشکل ہے۔ وہ وفاقی دارالحکومت میں پورا ہفتہ گزارنا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور پانچویں روز انہیں اسلام آباد کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے لاہور کا رخ کرتے ہیں یا مری اور دیار غیر کا۔ جس کے بعد ان کے اہم وزراء بھی اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتے ہیں۔ سنجیدہ نوعیت کا یہ کام کرنے کے لیے جو ٹیم ورک، مغز ماری اور آزمودہ کاری درکار ہے موجودہ حکومت اس سے عاری ہے ۔
بہتر یہ ہوگا کہ وزیراعظم کے حالیہ فیصلوں پر اثر انداز ہونے والی قوتیں انہیں ایک نیشنل وار گورنمنٹ یا نیشنل وار کیبنٹ کی تشکیل کا مشورہ دیں جو سرسری سماعت کی فوجی عدالتوں کی طرح دو اڑھائی سال تک اس بیس نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور حالات نارمل ہونے کے بعد خودبخود تحلیل ہوجائے۔وار کیبنٹ کا اجلاس ہر ہفتے بلایا جائے اور ہفتہ وار پیش رفت کا جائزہ لے کر مزید اقدامات کیے جائیں ۔ حکومت کو اس وقت خارجہ ، قانون، دفاع اور اطلاعات کے شعبوں میں تجربہ کار، صاحب بصیرت اور قابل اعتماد افراد کی ضرورت ہے۔ جو دوسری جماعتوں سے مل سکتے ہیں۔ وفاقی سطح پر ایک انسداد دہشت گردی وزارت کی تشکیل بھی ازبس ضروری ہے جونیکٹا کی نگرانی،دہشت گردی کے خلاف مصروف عمل اداروں کی رہنمائی اور حکومت کی کمزوریوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرے تاکہ یہ جنگ درست سمت میں تسلسل سے جاری رہے۔
نیشنل وار گورنمنٹ وزیراعظم اپنی سربراہی میں تشکیل دے سکتے ہیں اور عمران خان سمیت تمام قومی رہنمائوں کو دو اڑھائی سال کے لیے اس کا حصہ بننے پر مجبور کیاجاسکتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ تجربہ ہوا اور کامیاب رہا۔ نیک خواہشات اور بلند آرزوئیں بجا مگر محض خواہشات اور آرزوئوں سے دہشت گردی جیسے اژدہے کا سر کچلا نہیں جاسکتا ۔ ؎
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں 
جن لوگوں پر قدرت نے عظمت کا بوجھ ڈال دیا ہے وہ اب اپنی اہلیت ثابت کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved