تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     26-12-2014

پاک امریکہ تعلقات کا ایک باب

کیا ہم تاریخ سے کچھ سبق سیکھتے ہیں؟ اکثر نہیں۔ تاریخ آخری فیصلہ اُس وقت سناتی ہے جب کوئی سانحہ کسی سچائی کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ دراصل تاریخ اور سانحات اپنا اپنا ٹائم فریم رکھتے ہیں۔ جب کوئی المیہ پیش آتا ہے تو فوری طور پر نہ تو رہنما اور نہ ہی عام افراد اس کے نتیجے کا تعین کرسکتے ہیں۔کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پشاور سانحے کے بعد کیا ہو گا؟ کیا طالبان کو ہمیشہ کے لیے تباہ کردیا جائے گا؟کون جانتا ہے؟ اس وقت جس تاریخ کو فراموش کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے وہ تاریخ، سولہ دسمبر، ہے۔ ہوسکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کے اندوہناک قتل کے سانحے کی شدت وقت کی دھند میں مدہم پڑتی جائے لیکن ہم اس تاریخ کو کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ یہی وہی تاریخ ہے جب 43 سال پہلے سقوط ِ ڈھاکہ ہوا اور پاکستان دولخت کردیا گیا۔
آج سقوط ِ ڈھاکہ کی بہت سی کڑیاں کھوچکی ہیں۔ ایک سوال ہمارے ذہن میںبہت دیر تک کھٹکتا رہا ہے کہ اُس وقت امریکہ نے پاکستان کی مدد کرنے کا دکھاوا کیا اور ہم انتظار کرتے رہے لیکن 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران اُس کا ساتواں بحری بیڑا نہیں آیا۔ آخر میں یہ چین تھا جو ہمارے بچائو کو پہنچا۔ سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ''ٹاپ سیکرٹ‘‘ قراردی گئی دستاویز کو تین دہائیوں کے بعد عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اس میں کچھ دستاویزات کے علاوہ صدر نکسن اور اُن کے سکیورٹی ایڈوائزر، ہنری کسنجر کے درمیان ہونے والی گفتگو کا آڈیو کلپ بھی شامل ہے۔یہ معلومات ظاہر کررہی ہیں کہ امریکہ نے اُس وقت کے مشرقی پاکستان کے معروضی حالات سے اغماض کی پالیسی روا رکھی ہوئی تھی۔ اُنھوں نے وہاں ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے کے کچھ نہ کیا یہاں تک کہ معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے گئے۔
مجھے ان کیسٹس کا علم سات سال پہلے ہوا۔ پاکستانی قارئین کے لیے اس گفتگو سے آگاہ ہونا ضروری ہے ۔وہ جان سکیں گے کہ امریکہ کے اُس وقت پاکستان اور بھارت کے ساتھ کس طرح کے تعلقات تھے۔اوول آفس میں دو اگست 1971ء کو مشتعل صدر نکسن اور ہنری کسنجر بھارت کو برا کہلا رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے۔ دراصل صدر نکسن کے لیے پاک بھارت جنگ کی وہ ٹائمنگ ساز گار نہ تھی کیونکہ وہ اُس وقت کے صدر ِ پاکستان جنرل یحییٰ خان کی وساطت سے چینی رہنما چو ان لائی(Chou En-Lai) سے رابطہ استوار کرچکے تھے۔ تاہم ''دیوتائوں کے لعنت زدہ بھارتی‘‘( جیسا کہ نکسن اور کسنجر نے اپنی گفتگو میں کہا) آرام نہیں لینے دے رہے کہ وہ خاموشی سے بیٹھ کر پاکستان کے دونوں حصوں کو آپس میں لڑتا دیکھیں۔ انہی کیسٹس میں ایک گفتگو سنائی دیتی ہے جس میں مسٹر کسنجر صدر نکسن کو بتارہے ہیں۔۔۔''ہم نے مشرقی پاکستان سے آنے والے مہاجرین کی مدد کے لیے بھارت کو سو ملین ڈالردے کر ایک خوفناک غلطی کی ہے۔ بھارت کی معیشت پہلے ہی اچھی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ اس رقم کے ڈھیر کا کیا کریں گے۔ وہ کسی کو بھی مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے اور پھر رقم کے استعمال میں ان کا ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔‘‘ 
وائٹ ہائوس میں یہ گفتگو اُس وقت ہوئی جب بیٹل جارج ہیری سن اور بھارتی ستار نواز روی شنکر نے ''کنسرٹ فار بنگلہ دیش‘‘ پروگرام کیا(حالانکہ اُس وقت ابھی بنگلہ دیش وجود میں بھی نہیں آیا تھا)۔ اُس پروگرام کا مقصد اُن پناہ گزینوں کی مدد کرنا تھا جو جان بچا کر فرار ہورہے تھے ۔ اُس وقت تک مجیب الرحمن کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں بھاری انتخابی کامیابی حاصل کرچکی تھی،تاہم پھر اُسے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ اس پر مشتعل نکسن نے پوچھا۔۔۔'' تو یہ بیٹل منحوس بھارتیوں کو رقم دے رہا ہے؟‘‘ اس پر کسنجر نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔'' پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ ڈالر خوراک کے لیے امداد کی مد میں دیے گئے ہیں، لیکن وہاں بھی مسئلہ تقسیم کا ہے۔‘‘اس پر نکسن نے اُونچی آواز میں کہا۔۔۔''ہمیں بھارت کو دور رکھنا ہے‘‘، تاہم کسنجر اس پر متفق نہ دکھائی دیے اور کہا۔۔۔'' ہمیں بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے جواز سے باز رکھنے کے لیے مشرقی پاکستان میں قحط اور پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔اس کے علاوہ ہمیں پاکستان کا ہاتھ مروڑنے سے بھی احتراز کرنا ہوگا کیونکہ اگر اُس پر مزید دبائو پڑا تو صورت ِحال دھماکہ خیز ہوجائے گی۔‘‘ہنری کسنجر کے مطابق صورت ِحال کا تقاضا ہے ۔۔۔''کہ ہم سیاسی نظام کی بہتری کے لیے اُنہیں درس دیتے رہیں، تاہم مشرقی بنگال نے دوسال بعد ضرور الگ ہونا ہے ، لیکن ہم کوشش کریں گے کہ اگلے چھ ماہ تک ایسا نہ ہو۔‘‘
تاہم جس شخص نے نکسن اور کسنجر کے منصوبے کو ناکام بنادیا اُس کا نام جو سسکو(Joe Sisco) ہے جو اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے سیاسی امور تھا۔ اُس کی شہرت دوٹوک رویہ رکھنے والے شخص کی تھی۔ اس پر ہنری کسنجر جھنجھلا اُٹھے اور کہا۔۔۔'' سسکو ایک خبطی انسان ہے ، اُسے روکنا چاہیے۔‘‘ اس پر نکسن نے پوچھا کہ اُس کا جھکائو کس طرف ہے تو کسنجر کا جواب تھا۔۔۔''پاکستان کی طرف۔ اور اس کے محکمے کا مجموعی طور پر جھکائو پاکستان کی طرف ہی ہے اور۔۔۔۔‘‘ یہاں سے یہ آڈیو کلپ خرابی کی وجہ سے قابل ِ سماعت نہیں ہے۔ تاہم اس کے علاوہ چھیالیس دستاویزات بھی بہت کچھ کہتی ہیں۔
اپنے مشہور ''بلڈ ٹیلی گرام‘‘ میں ڈھاکہ میں امریکی سفارت کار آرچر بلڈ(Archer Blood) نے اپنے ملک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ''جمہوریت کا گلہ گھونٹنے اور روا رکھے جانے والے ظلم و جبر‘‘ کی مذمت کرنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ اس نے پاکستان کو عالمی دبائو سے بھی بچایا، صرف اس لیے کہ وہ مغربی پاکستان کی حکومت کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ بھارت میں امریکی سفیر کیٹنگ(Keating) کاکہنا تھا۔۔۔'' پاکستان کی فوجی امدادکا سوال ہی پیدا نہیںہوتاکیونکہ وہ مشرقی پاکستان میں خون بہارہا ہے اور مہاجرین فرار ہوکر بارڈر کراس کررہے ہیں۔‘‘اُس نے ہنری کسنجر کو قائل کرنے کی کوشش کی۔۔۔''ہم دنیا کے اس حصے میں ایک مستحکم جمہوریت (بھارت) کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے قریب ہیں۔ یہ ملک ترقی بھی کررہا ہے اور ہمارے ساتھ اچھے تعلقات کا بھی خواہاں ہے۔‘‘ تاہم مسٹر کیٹنگ کی تاویل کا واشنگٹن پر زیادہ اثر نہ ہواکیونکہ نکسن کی جنرل یحییٰ کے ساتھ دوستی اتنی گاڑھی تھی کہ اُنھو ںنے پاک فوج کا ہاتھ روکنا مناسب نہ سمجھا۔ تین جون 1971ء کو ہنری کسنجر نے کیٹنگ کا یہ کہتے ہوئے منہ بند کر دیا۔۔۔ ''ایمانداری سے بات کرتاہوں کہ صدرنکسن یحییٰ کے لیے خصوصی جذبات رکھتے ہیں۔ یقینا ذاتی پسندکی بنیاد پر پالیسی نہیں بنائی جاسکتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے ۔ ‘‘اس کے علاوہ کسنجر اپنے میمو'' ملٹری اسٹنٹ ٹو پاکستان اینڈ ٹرپ ٹو پیکنگ‘‘ میں انیس جولائی کو لکھتے ہیں۔۔۔ ''یہ بات واضح ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات رکھتے ہیں۔‘‘ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو پاکستان کو F-104لڑاکا طیارے فراہم کردیے جاتے ہیں۔ دس دسمبر 1971ء کو جارج ڈبلیو بش، جو اُس وقت یواین میں امریکی سفیر تھے، چینی سفیر کی ہنری کسنجر کے ساتھ ملاقات کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ جارج بش (جو بعد میں امریکی صدر بنے) کے مطابق مسٹر کسنجر نے چین کے سفیر کو بتایا کہ اس مسئلے (اسلام آباد کی حمایت) پر امریکہ کا موقف بھی وہی ہے جو پیکنگ کا ہے۔ ان کیسٹس میں تاریخ کے طلبہ کے لیے کھنگالنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ مختصر یہ کہ نکسن یحییٰ کو پسند تو کرتے تھے لیکن اُنھوں نے بھارت کو پاکستان پر جارحیت سے روکنے کی کوشش نہ کی۔ آج ہمارے رہنمائوں نے طالبان کا صفایا کرنے کا عہد تو کیا ہے لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا وہ اس میں سنجیدہ بھی ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved