تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     26-12-2014

سانحہ ٔ پشاور اور بے نظیر بھٹو کی ساتویں برسی

ستائیس دسمبر 2014ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساتویں برسی منائی جارہی ہے۔ اُنھوں نے اُن انتہا پسندوں کے خلاف دلیری سے مزاحمت کرتے ہوئے جان دے دی جو پاکستان میں انتہاپسندی پھیلاتے ہوئے اسے جمہوری اور فلاحی ریاست کی راہ سے ہٹانا چاہتے تھے۔ابھی اُن کے قاتلوں اور ان کے قتل کی سازش تیار کرنے والوں کو سزا ملنا باقی تھی کہ سولہ دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور میں پیش آنے والے ایک اور دلخراش سانحے نے قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔ معصوم بچوں کی المناک شہادت نے اُن تمام افرادکو انسانی ضمیر کے کٹہرے میں لا کھڑاکیا جو اُن وحشی درندوں کو مذاکرات کے ذریعے رام کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت قوم کی پکار ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو مثالی سزادی جائے اور سرزمین کو دہشت گردی کے خطرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاک کردیاجائے۔ 
محترمہ کی افسوس ناک ہلاکت کے بعد پاکستان سنگین بحرانوں اور خطرناک مسائل میں الجھتا چلا گیا۔ اس سے عوام کے دل میں یہ احساس شدت سے جاگزیں ہونے لگا کہ پاکستان کو معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے درکار اہل اور دلیر قیادت کے بحران سامنا ہے۔ آصف زرداری کی قیادت میں پی پی پی کے دور میں روا رکھی جانے والی ناقص حکمرانی نے نہ صرف پاکستان بلکہ بھٹو کی پارٹی کو سخت نقصان پہنچایا ۔۔۔ ملک میں بدعنوانی نئی حدوں کو چھونے لگی، امن و امان کی صورت ِحال انتہائی ابتر ہوگئی ، اداروں کے درمیان محاذآرائی کی کیفیت پید ا ہوتی دکھائی دی اور عوام کی معاشی پسماندگی میںکئی گنا اضافہ ہوگیا ۔ پی پی پی کی قائم کردہ ان روایات کو نبھانے میں پی ایم ایل (ن) نے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیاتو دوسری طرف قومی سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والی پی ٹی آئی (پاکستان تحریک ِ انصاف ) نے بھی ثابت کیا کہ نعرے ایک طرف، پاکستان کے لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے ان کے پاس بھی عملی منصوبوں اور اہل افراد کی کمی ہے۔ آج کے پاکستان کی ملکی اور عالمی معاملات میں نمائندگی کرنے والا ایک بھی لیڈر ایسا نہیں جو عزم اور بصیرت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہم پلہ ہو۔ 
انتہا پسندوں کو ہر قیمت پر خوش کرنے، عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں حکمرانوں کی روا رکھی جانے والی روایتی سستی اور غفلت اور مخصوص حلقوں کی طرف سے اُنہیں تحفظ دینے کی کئی عشروںسے جاری ناقص پالیسی کانقطۂ عروج پشاور خونریزی کی صورت میں سامنا آیا۔ تحریک ِ طالبان پاکستان کے سات دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کردیا۔ یکے بعد دیگرے مختلف کلاس رومز میں جاکر اُنھوں نے ایک سو پچاس کے قریب معصوم طلبہ اور محترم اساتذہ کو بے دردی سے شہید کردیا جبکہ اتنے ہی زخمی ہوگئے۔ وہ کئی نو گھنٹے سکول میں موجود رہے یہاں تک کے ایس ایس جی کمانڈوز نے اُنہیں ہلاک کردیا۔ 
اس سے پہلے جی ایچ کیو راولپنڈی، پی این ایس مہران بیس کراچی، پی اے ایف بیس کامرہ اور عالمی واقعات جیسا کہ افغانستان، عراق، شام ، لیبیا اور ایران کی صورت ِحال کو عالمی دہشت گردی کے ایسے تسلسل کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کی بڑی حدتک ذمہ داری امریکی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کو اپنی موجودگی برقرار رکھنے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ ابھی طالبان اور القاعدہ کا سرکچلا جانا باقی تھا کہ اُنھوں نے داعش نامی عفریت کو تخلیق کرڈالا۔ یہ بے تکے اور خودبخود رونما ہونے والے گروہ نہیں، بلکہ بہت مربوط اور جچی تلی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ بھارتی سکالر Dr. Sachithanandam Sathananthan اپنے مضمون، ''عظیم کھیل جاری ہے‘‘ میں لکھتے ہیں۔۔۔'' داعش کو ختم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بلکہ کوشش کی جارہی ہے کہ اسے اس کی مناسب حدود میں رکھا جائے اوراس کی صفوںسے دہشت گردوں کی نئی نسل کو تخلیق کی جائے۔ القاعدہ، طالبان اور داعش دراصل واشنگٹن کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کا جواز استعمال کرتے ہوئے مختلف ممالک میں مداخلت کرسکے۔‘‘ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اسے ہر ممکن طریقے سے بیجنگ سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ بلوچستان میں موجود توانائی کے وسائل سے استفادہ کیا جاسکے۔ 
ابھی تک تجزیہ کاروں اور دانشوروں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے محرکات اس نئی '' گریٹ گیم ‘‘ کے پس ِ منظر میں دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنی کتاب، ''Reconciliation: Islam, Democracy & the West‘‘ میں بے نظیر اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کی وجوہ، امکانات اور ان کے حل پر روشنی ڈالتی ہیں۔وہ نئے دور کی استیصالی طاقتوں کے ایجنڈے کا جائزہ لیتے ہوئے مذہبی انتہا پسندوں اور پراکسی جنگوں کی اصلیت کو بے نقاب کرتی ہیں۔ وہ قرآن مجید کے تسلسل سے حوالے دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے۔ وہ افسوس کرتی ہیں کہ انسانی قدریں رکھنے والے اس مذہب کو تاریخ کے ہر دور میں انتہا پسندوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا تاکہ معاشرے میں انتشار اور افراتفری پھیلا کر من پسند مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ وہ انتہا پسندی کے نظریے کے اجزا کا جائزہ لیتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہیں استعماری طاقتوں نے رائج کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان نظریات نے اُن طاقتوں کو فائدہ پہنچایا جو اسلامی دنیا کو تاریک دور میں دھکیلتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کی بجاآوری چاہتے تھے۔ انہی طاقتوں کے تیار کردہ انتہا پسندوں نے محترمہ کی جان لے لی۔ یہ قتل صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ تمام اسلامی دنیا کا نقصان تھاجو باخبر اور مثبت سوچ رکھنے والی شخصیت سے محروم ہوگئی تھی۔ 
تحریک ِ طالبان پاکستان ہو یا داعش، تمام انتہا پسندگروہوں کی عالمی ذرائع سے فنڈنگ ہوتی ہے۔طالبان کی طرح بہت سے دیگر لشکروںن کو مغربی طاقتوںاور امریکہ کی سی آئی اے نے اپنے ایجنڈے کے لیے تخلیق کیا تھا۔ ان کا مقصد ایٹمی پاکستان، جمہوری بھارت اور سوشلسٹ چین پر دبائو برقرار رکھنا تھا۔ اس وقت پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس بات کے شواہدملتے ہیں کہ انہیں پاکستان اور بیرونی ممالک کے کچھ حلقوں کی طرف سے بھاری چندے ملتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں فعال گروہ ایک مخصوص نظریے سے اپنی وابستگی رکھتے ہیں؛ تاہم انہیں مذہبی گروہ کہنا درست نہیں کیونکہ یہ سمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور منشیات فروشی کے ذریعے بھی رقوم حاصل کرتے ہیں۔ دراصل یہ مجرموں کے وہ گروہ ہیں جنہوں نے اپنے وقتی مقاصد کے لیے مذہب کا نقاب اوڑھ لیا ہے۔
فاشزم کی طرح دہشت گردی بھی خود کو نقصان پہنچانے والی پالیسی ہے۔ اس سے لڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اصل کو سمجھا جائے۔ اسے صرف فوجی طاقت اور فضائی حملوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا،ان کے ارتکاز پر ضرب لگائی جاسکتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی عسکری طاقت کا نام نہیں، یہ ایک نظریہ ہے جسے بدقسمی سے مذہب کا رنگ دے دیا گیا ہے۔ آج جب ہم بے نظیر بھٹو کو خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ان کے قاتلوں کو بے نقاب کیاگیا، نہ اُنہیں سزا ملی۔ جب بھی معاشرے میں انتہا پسندی، تنگ نظری، جنونیت اور دہشت گردی کے سامنے کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئے گی، بے نظیر بھٹو کو یاد کیاجائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved