جوکرم فرما اپنا مسودہ یا کتاب مجھے رائے دہی کے لیے بھیجتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ وہ میری رائے کو اہمیت دیتے ہیں‘ اس کے باوجود کہ وہ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ بے جا تعریف یا لحاظ داری میرے لیے ممکن نہیں ہے بلکہ بے جا تنقیص بھی میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں‘ بہرحال وہ اپنی ذمہ داری پر ہی ایسا کرتے ہیں وگرنہ میری رائے خود میرے نزدیک بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ رخشندہ نوید کے اشعار کی میں ایک دو بار تعریف کر چکا ہوں‘ حتیٰ کہ غالباً خانیوال کے مشاعرے میں جب وہ شعر پڑھتے ہوئے بھول گئی تو میں نے اسے یاد دلایا تھا۔ پچھلے دنوں اس نے مجھے اپنی کچھ چیزیں رائے دہی کے لیے بھجوانا چاہئیں تاکہ وہ اسے اپنے مجموعے کے فلیپ کی زینت بنا سکیں۔ میں نے کہا آپ مجھے جانتی ہیں اگر ان میں مجھے کوئی چمک‘ کوئی جان نظر آئی تو ہی لکھ سکوں گا۔ اس نے کہا‘ میں خوب جانتی ہوں اور اپنی کچھ منتخب غزلیں ارسال کر دیں۔ میں نے جواباً انہیں کہہ دیا کہ نہیں‘ بی بی‘ بات کچھ بنی نہیں‘ جسے موصوفہ نے خوش دلی سے قبول کیا اور ذرا بھی بُرا نہیں مانا۔
بعض اوقات مجھے غیر تعریفی انداز میں بھی کچھ کہنا پڑتا ہے تاکہ اپنی تحریر بھیجنے والا اگر واقعی مجھ پر اعتماد کرتا ہے تو اسے نیک نیتی پر مبنی سمجھتے ہوئے اس سے درگزر بھی کرے گا لیکن کچھ لوگ اس پر آگ بگولا ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ مظفر بخاری صاحب نے مجھے اپنی مزاحیہ کتاب ارسال کی جو مجھے کسی طور بھی مزاحیہ نہ لگی اور جو مزاح پیدا کرنے کی محض ایک ناکام کوشش تھی۔ کتاب کے اندر‘ باہر چونکہ معروف ادیبوں کی طرف سے کتاب کی تعریف میں ضرورت سے زیادہ مبالغہ آرائی کی گئی تھی‘ اس لیے بھی میں نے اپنی اختلافی رائے کا اظہار ضروری سمجھا اور انہیں مزاح پڑھنے کا بھی مشورہ دیا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے تو ان کے ہوا خواہوں کی طرف سے مجھے دشنام آمیز خطوط آنے لگے‘ اس کے بعد صاحبِ موصوف خود میدان میں آ گئے اور اعلان کیا کہ وہ میری غزلوں کی پیروڈی کر رہے ہیں جن کے نمونے وہ مجھے بھجواتے بھی رہتے ہیں اور یہ بھی لکھا کہ اب تک وہ کوئی 26 غزلوں کی پیروڈی کر چکے ہیں اور مکمل ہونے پر ''ظفر اقبال‘ فن و شخصیت‘‘ کے عنوان سے کتاب میں ایک باب کا اضافہ بھی کریں گے۔ واضح رہے کہ کوئی دس پندرہ برس پہلے فیصل آباد کے کچھ شاعر دوستوں نے بھی میری غزلوں کی پیروڈی 'سہ روزہ ہذیان از ڈفر اقبال‘‘ کے عنوان سے مجلا کتابی شکل میں شائع کردی تھی جس پر ان عزیزوں کو یاد دلایا کہ پیروڈی ہمیشہ بڑی شاعری اور بڑے شاعر کی جاتی ہے‘ آپ نے مجھے خواہ مخواہ بڑا شاعر بنا دیا حالانکہ میں خود ایسا ہرگز نہیں سمجھتا‘ جس پر بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور انہوں نے باقاعدہ لکھ کر اظہارِ ندامت کیا۔
بہرحال مجھے موصوف کی اس تصنیفِ لطیف کا شدت سے انتظار ہے‘ بے شک اس میں گالیاں بھی کیوں نہ دی گئی ہوں کیونکہ ہر شخص کو اپنی بھڑاس نکالنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ لطف یہ ہے کہ موصوف نے اس دفعہ ایک ماہنامے میں اپنی کتاب کا پورے صفحے کا اشہار شائع کروایا ہے جس میں اپنی مزاح نگاری کا ایک منتخب ٹکڑا بھی نمونے کے طور پر لگایا ہے حالانکہ وہ بھی خواہ مخواہ مزاح پیدا کرنے کی ایک ناکام کوشش ہی ہے۔ آپ کم از کم شفیق الرحمن کی ''حماقتیں‘‘ اور ''مزید حماقتیں‘‘ ہی پڑھ ڈالتے تو شاید آپ کو معلوم ہو جاتا کہ مزاح کس چڑیا کا نام ہے!
میں یہاں اپنی ایک بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ مزاح نگاری ناممکن ہے‘ اور ہم محض مزاح نگاری کی نقل اتارتے ہیں کیونکہ یہ کام تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے کہ جہاں مزاح نگار کا وار اوچھا پڑ جائے‘ خود اُس پر ہنسنے کو جی چاہتا ہے۔ محض واقعات کے زاویئے بدل دینے سے مزاح وجود میں نہیں آتا۔ آپ کا پیرایۂ اظہار خود اصیل مزاح کا حامل ہونا چاہیے جو آپ کے اندر سے سوڈے کی بوتل کی طرح کھل کر باہر نکلنے کو بے تاب ہو۔ اور‘ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ قاری کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ قاری بھی اب اگلا سا قاری نہیں ہے کیونکہ نہ آپ اسے ماٹھے مزاح سے متاثر کر سکتے ہیں نہ تھرڈ کلاس شاعری سے۔ مزاح نگار تو قاری کے سامنے ایک چیلنج پھینکتا ہے کہ خبردار ہو جائو‘ میں تمہیں ہنسانے لگا ہوں اور میں دیکھوں گا کہ تم کیسے نہیں ہنستے ہو۔
اس کی بجائے بہتر ہے کہ ہلکی پھلکی تحریر میں کچھ دال دلیا کرنے کی کوشش کریں اور یہ ہرگز ظاہر نہ کریں کہ آپ مزاح نگاری کر رہے ہیں۔ اور‘ اگر آپ اپنی تحریر یا کتاب پر مزاح کا اعلان بھی کردیں گے تو پھر اس کا مثبت نتیجہ نکلنا ناممکن ہوگا کیونکہ قاری ہنسنے کے لیے تیار نہیں بیٹھا ہوتا۔ مزاح نگاری تو اسی طرح کی جا سکتی ہے جیسے آپ چوری کر رہے ہوں۔ اور پھر یہ بات بھی لازمی طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ آپ کی تحریر پسند کرنے والوں میں جینوئن لوگ کتنے ہیں‘ ورنہ تو جیسے ایک معمولی شاعر کو معمولی قاری خاطر خواہ تعداد میں دستیاب ہو جاتے ہیں‘ ایک بناوٹی مزاح نگار کو پسند کرنے والے بھی ایسے ہی بہت مل جائیں گے۔ تحریر ہی سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ لکھنے والے کے خود اندر مزاح کا ذائقہ ہے یا نہیں۔ انگریزی لفظ WIT کا مطلب جہاں مزاح ہے‘ وہیں
دانائی بھی ہے جبکہ اول درجے کی دانائی کے بغیر مزاح ہرگز پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس بات کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ لطیفہ بنانے والے کس قدر دانا اور ذہین لوگ ہوں گے؛ چنانچہ اگر آپ اول درجے کی ذہانت اور دانائی کے بغیر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ برداشت بھی دانائی ہی کا ایک مظہر ہے‘ یعنی اگر آپ ذرا سی مخالفانہ بات سن کر کپڑوں سے باہر ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ برداشت یعنی ذہانت سے آپ کا ہاتھ خاصا تنگ ہے۔ فوری ردعمل ظاہر کرنا چھوٹے پن کی نشانی ہے جبکہ بڑے آدمی کو صبر اور تحمل ہی زیب دیتا ہے۔ فیضؔ صاحب کو کسی نے بتایا کہ حفیظؔ جالندھری نے فلاں جگہ آپ کے خلاف لکھا ہے جس پر فیض بولے‘ کوئی بات نہیں‘ وہ ہمارے دوست ہیں‘ کچھ لکھا ہے تو ٹھیک ہی لکھا ہوگا۔ اور اگر فیض بڑے آدمی نہ ہوتے تو پوچھتے کہ کیا لکھا ہے اور اس کا جواب دینے کی ٹھان لیتے۔
سو‘ بھائی‘ آپ میری پیروڈی کیا کریں گے‘ میں نے اپنی شاعری میں جو خود اپنی بھد اُڑا رکھی ہے‘ اس کے بعد کسی اور پیروڈی کی گنجائش کیا رہ جاتی ہے۔ اور یہ بات دماغ سے بالکل نکال دیں کہ میں اس کا بُرا منائوں گا ع
تو مشقِ ناز کر‘ خونِ دو عالم میری گردن پر
آج کا مطلع
عجب خرابہ ہے‘ دن ہے یہاں نہ رات ہماری
کہیں کہیں سے جھلکتی ہیں باقیات ہماری