بھارتی شاعر ستیہ پال آنند کی ایک نظم ہے ''ایک بچے کی موت‘‘ جس کے پہلے حصے میں وہ لکھتا ہے:
''ایک بچے کی موت گھر کے لیے
آخری واقعہ نہیں ہوتی
اس المناک سانحے کے بعد
اور بھی واقعے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں
جن سے بچے کی موت کا سانحہ سدا کے لیے
زندہ رہتا ہے‘ بچے کی مانند
گھر سے رخصت کبھی نہیں ہوتا‘‘۔
16 دسمبر کے المناک اور ناقابل فراموش سانحے نے پشاور کے کتنے گھروں میں رنج و غم کی تاریکی اتاری ہے۔ والدین اپنے جگر گوشوں کی موت سے غم کو سینے سے لگائے‘ اب بھی سکول کے باہر کھڑے انہیں متلاشی نظروں سے ڈھونڈتے دکھائی دیتے وہیں۔ غم کی آنچ سے پگھلتے مائوں کے دل مسلسل اضطراب میں ہیں۔ یہ اضطراب‘ یہ بے چینی‘ جدائی کی یہ تیز دھار چبھن‘ اب تمام عمر ہی اُن کا مقدر ہے۔ جن جن گھروں سے شہید بچے رخصت ہوئے ہیں‘ وہاں ہمیشہ آنسوئوں کے چراغ جلیں گے‘ ان سے منسوب ایک ایک شے والدین کو رلائے گی۔ اگلے روز دکھ سے بوجھل والدین سکول کے گیٹ پر موجود تھے اور اپنے بچھڑنے والے شہید طالب علموں کے بستے لینے آئے۔ ہاتھوں میں اپنے بچوں کے سکول بیگ پکڑے ہوئے‘ وہ حسرت و یاس کی تصویر دکھائی دیتے تھے۔ مائیں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ایسی قیامت خیز گھڑی بھی ان پر کبھی آئے گی کہ وہ اپنے بچوں کو لحد میں اتار کر ان کے بستے لینے سکول جائیں گے۔ سچی بات کہ یہ دکھ وہی جانتے ہیں جو اس سے گزر رہے ہیں۔ اگرچہ اس عظیم سانحے کا دکھ ہر اس شخص نے محسوس کیا جو اہلِ دل ہے۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی۔ نوحے‘ سسکیاں‘ آہیں تو نہ ختم ہونے والی ہیں لیکن یہی موقع کہ اگر اس دکھ کو پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے عوام اپنی قوت بنالیں اپنی طاقت بنا لیں‘ دکھ کی اس گھڑی میں جب پورا ملک رنج و غم کی ایک لڑی میں پرویا گیا تھا ضروری تھا کہ وزیراعظم نوازشریف قوم سے خطاب کرتے جذباتی‘ پرعزم اور فیصلہ کن انداز میں۔پاکستانی عوام کو اس المیے اور آزمائش سے آگاہ کرتے... اگر وہ غم کی گھڑی میں یہ اعلان کرتے کہ سرکاری طور پر ہونے والی تمام تقریبات‘ ضیافتیں‘ عشایئے‘ ہائی ٹیز‘ اس سانحے کے پیش نظر کم از کم چالیس روز تک روک دی گئی ہیں تاکہ حکومت بھی قوم اور شہید بچوں کے والدین کے ساتھ اس عظیم دکھ میں شریک ہو سکے۔ ٹی وی چینلوںپر ہونے والے میوزک پروگراموں کو سرکاری طور پر چالیس روز کے لیے بند کردیا جاتا۔ اور یہ اعلان ہوتا کہ تمام وزراء‘ سرکاری افسران‘ پارلیمنٹ کے ممبران کے ساتھ تمام پاکستانی‘ اپنے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے‘ ملک بھر کے تھیٹروں میں بھی موسیقی اور ہلا گلا کے پروگرام اس دکھ میں روک دیئے جائیں گے۔
دہشت گردی کی جنگ میں عملی طور پر ٹھوس اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا اقدامات بھی اس لیے ضروری تھے کہ اس سانحے کی ہولناکی اور شدت کو محسوس کیا جا سکتا۔ آرمی پبلک سکول میں صرف 134 بچوں کا قتل نہیں ہوا یہ پاکستان کے مستقبل کا قتل ہے۔ پاکستان کی عزت اور غیرت کا معاملہ ہے۔ جبکہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بروقت اور ٹھوس اقدامات نہ کرنے کا ماتم بھی ہے۔ کیسے دن دیہاڑے دہشت گرد سکول کی دیواریں پھلانگ کر آئے اور سکول میں خون کی ہولی کھیلی۔ یہ سانحہ‘ حکومتوں ‘ اداروں ‘ دانشوروں کی پالیسی سازوں کی ناکامی ہے۔ ان تمام کرتا دھرتا افراد کی ناکامی ہے‘ جو کسی نہ کسی حیثیت سے ملک کی قسمت کے فیصلے کرتے رہے اور آج حالات اس بھیانک صورت میں سب کے سامنے ہیں کہ کلاس روم مقتل میں بدل گئے ۔
ہوا کے رُخ پر کوئی دریچہ نہیں بنایا
میرے بزرگوں نے سوچ کر گھر نہیں بنایا
وزیراعظم نوازشریف‘ اس گھڑی میں ولولہ انگیزاور پُرتاثیر خطاب کر کے قوم میں دہشت گردی کے خلاف تازہ جذبہ پیدا کر سکتے تھے۔ اس جنگ کے بارے میں اگر کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ابہام موجود ہیں تو اسے بھی دور کر سکتے تھے۔ یہ موقع وزیراعظم نے گنوا دیا ہے اگر ایسا ہوتا تو بلاشبہ تاریخی خطاب ہوتا۔ اس کے برعکس عمران خان نے پشاور پہنچ کر جس طرح میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فوری طور پر دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے چند بہت اچھی تجاویز دیں‘ دہشت گردوں کے عفریت سے نمٹنے کے لیے پولیس کی موجودہ صلاحیت پر بھی حقیقت پسندانہ باتیں کیں۔ اس کے بعد آٹھ نکاتی ایجنڈے کی صورت میں ٹھوس اور جامع تجاویز حکومت کو پیش کیں۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عمران خان صرف نوازحکومت کے خلاف ہی کنٹینر تقریروں کے ماہر نہیں بلکہ وہ وژن رکھتے ہیں۔ مسائل کے حل پر بھی بات کر سکتے ہیں۔ اگر خان صاحب کا جذبہ اور جنون‘ اس سمت میں کام آ جائے تو وہ بطور رہنما‘ تاریخ میں زندہ رہیں گے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دس پندرہ سال سے ہماری حکومتیں اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہیں کہ دہشت گردی ہی ملک کا نمبر ون مسئلہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے جس بھونڈے طریقے سے اس عفریت سے نمٹنے کی کوشش کی اس کا نتیجہ آرمی پبلک سکول پشاور جیسے عظیم سانحے کی صورت میں ہی نمودار ہونا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ کل جماعتی کانفرنسیںپہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ایک پرسوں یعنی بدھ کو بھی ہوئی ۔لیکن کبھی کوئی ایسی پالیسی وضع نہیں ہوئی۔ جو دہشت گردی کی جنگ میں ادنیٰ معاون ثابت ہوئی ۔بس وقتی ابال کے تحت حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر کچھ ہلچل نظر آتی ہے ، پھر حکومت اور سیاسی جماعتیں لمبی تان کر سوجاتی ہیں ؛ یہاں تک کہ دہشت گردی کا کوئی اور بڑا سانحہ قوم کو ہلاکر رکھ دیتا ہے۔ خدا نہ کرے ۔ اگر اس بار بھی ہماری بے حسی او ر وژن ماضی کی طرح رہا تو ہم پھر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ پاک فوج بہادری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے فوج کی قربانیوں کو رائگاں ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے پاکستان کا ہر فرد اور ہر ادارہ اس جنگ میں اپنے فرض کو پہچانے۔
حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردی پر قومی پالیسی بنانے کے لیے ان ملکوں کے ماہرین سے رابطہ کرے‘ ان کی خدمات حاصل کرے جو اپنے ملک میں کامیاب پالیسیاں بنا کراور عملی اقدامات کر کے اس عفریت کو قابو کر چکے ہیں۔ سری لنکا‘ نیپال‘ انڈونیشیا اور برطانیہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ملک کو لگی دہشت گردی کی آگ کو بجھانا ہوگا اور اس بار تو ننھے بچے بھی اس عزم میں شریک ہیں ،کیونکہ یہ آگ ان کے کلاس روموں تک پہنچ چکی ہے۔ جماعت کے کمرے مقتل بن گئے ہیں‘ کتابیں اور بستے لہو سے تر ہیں!!