میں بار بار یہ بات اہل وطن کے گوش گزار کررہاہوں کہ سانحہ پشاور کو دہشت گردوں کی انتقامی واردات نہ سمجھا جائے‘ جیسا کہ ہمارے ہاں سمجھا جا رہا ہے اور جواب میں ہم وہی کچھ کر رہے ہیں‘ جو اس سانحے کے منصوبہ سازوں نے چاہا تھا۔ میری یہ رائے ہے کہ عمران خان نے عمومی بیداری کی جو تحریک شروع کر کے‘ ملکی امور میں عوام کے عمل دخل کا راستہ کھولا تھا‘ اس کی وجہ سے وہ منصوبہ ساز پریشان ہوئے‘ جو پاکستان کے سماجی‘ سیاسی اور معاشرتی بحران کے فروغ میں تیزرفتار اضافے کی تدبیریں کر رہے تھے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ عمران خان کی تحریک شروع ہونے سے پہلے‘ لوگ چھوٹے چھوٹے اجتماع کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں دہشت گردی کا واقعہ نہ ہو جائے۔ قارئین کو یہ بھی یاد ہو گا کہ 2013ء کی انتخابی مہم میں دہشت گردوں اور میڈیا نے مل کر‘ ان پارٹیوں کو آزادانہ انتخابی مہم سے دور کیا‘ جو عوام سے وسیع رابطے پیدا کر کے‘ عوام کو متحرک اور قومی مسائل سے آگاہ کرنے کی مہم چلا سکتی تھیں۔ نتیجے میں صرف انہی پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کی آزادی میسر آئی‘ جن کے پاس عوام کوبیدار اور ان کے شعور کو صیقل کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔خصوصاً پنجاب میں یہ نسخہ بڑی توجہ اور احتیاط سے آزمایا گیا۔ صرف تحریک انصاف کو اس خیال کے تحت آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی آزادی ملی کہ اسے طالبان کا ہمدرد سمجھا جاتا تھا۔ وہ تبدیلی اور عوامی حقوق کے حصول پر زور دیتے رہے اور جب یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ تحریک انصاف‘ اسمبلیوں کے اندر بڑی تعداد میں اپنے اراکین لے آئے گی‘ تو عین وقت پر جادوگری دکھانے کا منصوبہ بنا اور تحریک انصاف کو کونے میں لگا کر‘ مطلب کی اسمبلیاں قائم کر دی گئیں۔
پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا تھا۔منصوبہ سازوں کا مقصد ہے کہ یہ بتدریج عدم استحکام‘ انتہاپسندی اور خانہ جنگی کا شکار ہوتا جائے۔ مسلم لیگ (ن) ‘ عالمی امور کو سمجھنے کے معاملے میں‘ بہت ہی ''اللہ لوک‘‘ قسم کی پارٹی ہے۔ اس کی درویشی کا یہ عالم ہے کہ آج کے نازک ترین دور میں‘ اس نے وزیرخارجہ ہی نہیں رکھا‘ جو زمانے کے بدلتے ہوئے تیوروں پر نگاہ رکھ سکے۔مسلم لیگ (ن) کو جو طاقت دے کر اقتدار میں لایا گیا‘ اس کے نشے میں‘ حکومت نے چار نشستوں پر دوبارہ گنتی کے مطالبے کو لائق اعتنا ہی نہ سمجھا‘ جس پر عمران خان نے احتجاجی تحریک شروع کر دی‘ جو ابتدا میں صرف دھاندلی کے الزام پر تھی‘ مگر جیسے جیسے حکومت کی ہٹ دھرمی بڑھتی گئی‘ عمران کی مزاحمت میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور دھرنوں کا فیصلہ‘ قومی سیاست کوایک نئے موڑ پر لے گیا۔عمران خان کو روز تقریر کرنا پڑتی تھی اور دھاندلی دھاندلی کی تکرار ‘ عوام کو جلد ہی بیدار کر سکتی تھی۔ دھرنے کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے عمران نے اپنی تقریروں میں عوامی مسائل پیش کرنا شروع کر دیئے‘ جس پر انہیں زبردست پذیرائی ملی اور یوں لگتا ہے کہ ان کی پوری ٹیم ‘ روزانہ کی تقریر کو موثر بنانے کے لئے نئے نئے انداز میں عوامی مسائل کی نشاندہی کرنے لگی اور وہ تحریک جو دھاندلی کے سوال پر شروع ہوئی تھی‘ حقیقی تبدیلی کا ذریعہ بننے لگی۔ حکمران طبقوں نے جب عوام کو اپنے مسائل پر متحرک ہوتے ہوئے دیکھا‘ تو روایتی حربوں کے ذریعے ‘ عوامی تحریک کا زور ختم کرنے کی کوشش کی۔ پارلیمنٹ اور جاویدہاشمی نے‘ ایک دوسرے کی مدد سے یہ تاثر پیدا کر دیا کہ عمران کی تحریک ناکام ہو گئی‘ لیکن عمران کی فطری مستقل مزاجی‘ انہیں شہروں کی طرف لے گئی۔ حکمران طبقے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عمران جس شہر کا رخ کرتے‘ وہاں ان کے جلسوں میں عوام انتہائی جوش و خروش اور بھاری تعداد میں شرکت کے لئے آ جاتے۔ جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا‘ عوامی بیداری کی لہرتیز ہوتی گئی اور پھر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ حیرت انگیز تبدیلی سامنے آئی کہ عمران ایک دو دن پہلے جلسے کا اعلان کرتے اور بغیرکسی تیاری کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد‘ حیرت انگیز طریقے سے ناقابل یقین حد تک زیادہ ہوتی گئی۔
پاکستان کو بحرانوں میں مبتلا رکھنے کے خواہش مندوں میں خوف پیدا ہو گیا کہ عوامی بیداری کی یہ لہر‘ اسی طرح بڑھتی رہی‘ تو کسی بھی دن‘ وہ طوفان میں بدل سکتی ہے اور عوام اپنے راستے کی تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے‘ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو سکتے ہیں اور جب عوام کے حقیقی نمائندے اقتدار میں آتے ہیں‘ تو سیاست بھی عوامی ہو جاتی ہے اور جب سیاست عوامی ہو جائے‘ تو سازشوں کا پروان چڑھنا پہلے مشکل اور پھر ناممکن ہو جاتا ہے۔ملک استحکام کی طرف بڑھنے لگتا ہے ۔ معاشرے میں اعتماد پیدا ہونے لگتا ہے۔ معاشی سرگرمیاں تیز ہو جاتی ہیں۔ جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کی سرگرمیاں محدود ہونے لگتی ہیں اور حکومت ‘ قوم پرستی اور عوام دوستی پر مبنی پالیسیاں مرتب کرنے لگتی ہے۔ ظاہر ہے‘ یہ امکانات دیکھ کر‘ بحران اور خانہ جنگی کے منصوبہ سازوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ یقینی طور پر ان کی پریشانی میں اضافہ ہوا اور اسی حالت میں سانحہ پشاور کی سازش تیار کر کے‘ اس پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ عوام اس ہولناک اور خونریز واقعے پر سکتے میں آ گئے۔ غم و اندوہ کی کیفیت میں‘ انہیں مجبوراً تحریک روکنا پڑی اور حکومتی اور عوامی توجہ دہشت گردی پر مرکوز ہو گئی۔ ہر طرح کی فیصلہ سازی کا رخ دہشت گردوں پر مرکوز ہو گیا اور پاکستان جو اپنے مسائل عوامی طاقت اور صلاحیتوں سے حل کرنے کی جانب تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا‘ ایک دم رک گیا۔ عوامی طاقت کے منظم‘ متحرک اور فتح یاب ہونے کا عمل‘ معطل ہو گیا اور آج حالت یہ ہے کہ ریاست کے تمام ادارے ‘ معاشرے کی تمام طاقتیں اور انتظامی اداروں کی تمام صلاحیتیں‘ دہشت گردوں کی یرغمالی بن گئی ہیں۔ آئندہ کا ایجنڈا دہشت گرد طے کریں گے‘ کیونکہ ریاست نے اپنا اصل کام چھوڑ کر‘ اپنے آپ کو دہشت گردوں کی مدافعت پر
مامور کر لیا ہے۔ اس گھر کا اندازہ کیجئے‘ جہاں رہنے والا سارے کا سارا خاندان‘ چوروں اور ڈاکوئوں کے خوف سے ہر وقت گھر کی حفاظت پر ہی لگا رہتا ہو؟ سارے کام رک جاتے ہیں۔ آمدنی کے ذرائع محدود اور پھر مسدود ہونے لگتے ہیں۔ خوشحالی‘ بدحالی میں بدلنے لگتی ہے۔ ایسے گھر کا جو حال ہوتا ہے‘ وہی ہمارا ہونے جا رہا ہے۔ جب کوئی قوم دفاعی اور مزاحمتی سوچ اور عمل کے پھندے میں پھنس جائے‘ تو اس کا ہر فعل خوف کی حالت میں سرزد ہوتا ہے اور خوف کی حالت میں ترقی ‘ جدوجہد ‘ پیش عملی‘ جرأتمندی سے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کی صلاحیت اور مشکلات پر غالب آنے کا جذبہ سب ختم ہوجاتے ہیں۔ ہر وقت ایک ہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ دشمن کب اور کدھر سے آئے گا؟ ایسی حالت میں مزاحمت کی تیاریوں اور دشمن کے دھڑکے میں مبتلا معاشرہ‘ اختلافی آواز سننا بھی برداشت نہیںکرتا۔آپ دیکھ لیں گے کہ چند ہی روز میں یہ صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ بولنا مشکل ہو جائے گا۔ لکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا مشکل ہو جائے گا۔ ہر طرح کی انسانی آزادیاں سلب ہونے لگیں گی۔ آزاد‘ صرف دہشت گرد ہوں گے۔ وہ جب چاہیں گے اور جہاں چاہیں گے‘ حملہ کر کے خوف کی خوراک مہیا کرتے رہیں گے۔ہماری بے عملی اور عدم کارکردگی‘ معاشرے کو کاہل اور بے حس کرتی جائے گی۔حرکت و عمل کی پہل‘ دہشت گردوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ معاشرے کو خستہ و خوار کرنے کا کام دہشت گرد کریں گے اور پھر امید کی روشنی لے کر داعش سامنے آئے گی۔ انحطاط اور زوال کے دور میں حکومتی مشینری ‘ بے عمل معاشرے کو دبانے اور کچلنے کی عادی ہوجاتی ہے۔ عوام اپنے حال سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور بیزاری کی حالت میں تبدیلی کی دعائیں مانگتے ہیں ۔ داعش جیسے گروہوں کا جارحانہ طرزعمل ‘ان کے دلوں میں امید پیدا کرتا ہے اور کچھ کرنے کے لئے بے تاب نوجوان‘ ایسی مسلح طاقتوں کا حصہ بن کر تخریب و تباہی کے عمل میں اپنا کردار تلاش کر کے‘ فخر محسوس کرنے لگتے ہیں کہ وہ ایک بیمار‘ خوفزدہ اور مردہ معاشرے کی توڑپھوڑ کر رہے ہیں۔ یہ وہ حالت ہے‘ جولبیا‘ شام‘ عراق اور افغانستان کی ہو چکی ہے۔ دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت کو‘ اس حالت میں دھکیلنے کے لئے ترقی یافتہ دنیا کے بے پناہ وسائل دستیاب ہیں۔ حد یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا‘ ایک طرف داعش پر بمباری کرتی ہے‘ دوسری طرف تیل کے ذخیرے پر اس کے قبضے کو ممکن بناتی ہے اور پھر اسے تیل کے خریدار بھی مہیا کر دیتی ہے تاکہ داعش کو وسائل کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہماری وہ فوج‘ جو ہم نے بڑے بڑے دشمنوں سے لڑنے کے لئے تیار کی تھی‘ وہ ابھی تو فاٹا کی حد تک دہشت گردوں کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ اب دہشت گرد پورے ملک میں محاذکھولیں گے اور ہمارے مسلح ادارے ‘ ان کے ساتھ برسرپیکار ہو جائیں گے۔ یہ ہے راستہ جسے اختیار کر کے ہم قومی ترانے گا رہے ہیں۔ جذبہ حب الوطنی ابھار رہے ہیں اور اپنے ہی معاشرے میں دشمن پیدا کر کے‘ ان سے لڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔عوامی آزادیاں سلب کر کے‘ حکومتیں خود ہی اپنے آپ کو بے بس کر لیتی ہیں۔سانحہ پشاور ‘ سانحوں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز نہ ثابت ہو؟