پھر ایک دن چراغ جلتے ہیں‘ پھر ایک دن گل کھلتے ہیں۔ مارچ کا مہینہ آئے گا اور گلاب کے پھول دہک اٹھیں گے۔ بے شک الم کے ساتھ نوید اور نوید کے ساتھ الم ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
دروازہ کھولا تو دسمبر کی نامہربان ہوا نے یلغار کی۔ گھر کی یاد نے اداس کر دیا تھا‘ لیکن اب سفر کا ارادہ ملتوی کیا۔ شاید یہ ملک کا سب سے اچھا ہوٹل ہے۔ اجلا‘ خوبصورت‘ کشادہ کمرہ‘ مہربان لوگ۔ بعض چیزوں کا مگر کوئی بدل نہیں ہوتا۔ امجد اسلام امجد کا ایک شعر ہے:
دل کا دریا تو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
دوسرے بھی‘ مگر ہنستے ہوئے ہاتھوں والے‘ گھر کے چمن میں کھیلتے بچے زیادہ یاد آتے ہیں۔ ملٹری سکول کالج ورسک روڈ کے شہید بچوں کی عمریں کیا تھیں؟ دل پر چوٹ لگی۔ مزاحمت کرتے ہوئے دس دن گزر گئے۔ ان مناظر کو ذہن میں اجاگر کرنے کی‘ اب بھی تاب نہیں۔ جانوروں سے بدتر لوگ۔ کیا یہ شکم اور انتقام کی آگ ہے جو آدمی کو اسفل السافلین بناتی ہے۔ غالب آنے والی دو جبلتوں کا اتّصال؟ کہنے کو وہ بھی آدمی ہی تھے‘ کربلا کی ریت پر‘ خاندانِ رسول کو جنہوں نے پیاسا رکھا اور سر نیزوں پر اچھالے۔ آج بھی ایسے دلاور موجود ہیں جو ''خلافتِ یزید‘‘ ایسی کتابیں لکھتے ہیں۔ نہیں‘ بھوک نہیں‘ یہ نفرت‘ انتقام اور تعصب ہے۔ آدمی اندھا ہو جاتا ہے۔ ایک مذہبی لیڈر نے ارشاد کیا کہ مغرب نے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کی ہے۔ اس طرح کے ''مسلمانوں‘‘ کی موجودگی میں مغرب کو سازش کی ضرورت کیا ہے؟ اگر اس کا کوئی آقا نہ ہو‘ تب بھی درندہ خونخواری پر آمادہ رہتا ہے۔ آدمی کی فطرت مسخ ہو جائے تو انسان وہ کہاں رہتا ہے؟ کل ایک مولوی صاحب نے فرمایا: مدارس کے خلاف عالمی سازش برپا ہے۔ کون سی سازش؟ لال مسجد میں دہشت گرد کیا امریکہ کی سفارش پر قیام فرما تھے؟ حضرت مولانا عبدالعزیز کیا واشنگٹن کے ایما پر گفتگو فرماتے ہیں؟
مرحوم دوست فاروق گیلانی یاد آئے۔ تینتالیس برس ہوتے ہیں‘ مشرقی پاکستان کی جدائی پر ایک تحریر انہوں نے لکھی تھی۔ ''سرما کی بارش‘‘ کے عنوان سے‘ جس کی رل ترل یادِ ماضی سے ابھرتی اور دل پر زخم لگاتی ہے۔ اس تحریر کو پڑھنا میرے لیے دشوار ہو جاتا اور میں سوچتا کہ کس طرح وہ اسے لکھ پائے۔ ''البدر‘‘ ڈاکٹر سلیم منصور خالد نے‘ مشرقی پاکستان میں وطن کا دفاع کرنے والے جانبازوں پر ایک کتاب لکھی تو پروفیسر منور مرزا مرحوم نے یہ کہا: پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے‘ آنسو تھامنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اس پر یہ کہا: جس نے لکھا ہے‘ اس کے سینے میں بھی ایک آدمی کا دل ہے‘ دمِ تحریر اس پر کیا بیتی ہو گی۔
اب ایسے دانشور‘ اس ملک میں پیدا ہو گئے‘ جو مشرقی پاکستان کے غداروں کو ہیرو لکھتے اور اس پر تمغے وصول فرماتے ہیں۔ دشمن سے داد پانے والے بھکاری‘ اپنے آپ سے شرمندہ وہ دریوزہ گر۔ ابرہام لنکن کو کیا قاتل اور غنڈہ قرار دیا جائے‘ جس نے امریکہ کے جنوب اور شمال کو متحد رکھنے کی جنگ لڑی اور اس جنگ میں لاتعداد زندگیاں ہار دیں؟ پھر اسے تاریخ کا عظیم ترین مدبر کیوں قرار دیا گیا۔ وہ نرم خو اور دلآویز آدمی‘ جو اپنے جوتے خود پالش کیا کرتا۔ کالوں کی آزادی کے لیے جو اپنی قوم سے برسرِ جنگ رہا۔ کامیابی
کے ہزار فرزند ہوتے ہیں اور ناکامی کا کوئی باپ نہیں ہوتا۔ اپنے آپ سے شرمندہ‘ احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگ‘ حبِّ وطن کی عظمت کا ادراک وہ کیسے کریں؟ وہ فقط فیشن کے قائل ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق ''ہوا‘‘ کے پیچھے چلنے والے۔ سوشلزم کا موسم تھا تو سوشلسٹ۔ آج کل امریکہ کے مداح۔ ترقی پسند تحریک برپا تھی تو ترقی پسند۔ ایک ہزار برس کے بعد برہمن کو ترقی اور فروغ کے تین عشرے نصیب ہوئے تو وہ شودر بن کر اس کے قدموں میں جا بیٹھے۔ کشکول کا رخ البتہ اب بھی مغرب کی طرف ہے۔ یورپ اور امریکہ کے گیت گاتے ان کے حلق سوکھتے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی جدائی ہی نہیں‘ تب بھی دسمبر تھا‘ جب سرخ سوویت یونین کی سفاک سپاہ افغانستان میں داخل ہوئی تھی۔ تیرہ لاکھ افغانیوں کو انہوں نے قتل کر ڈالا اور تیرہ لاکھ اپاہج کر دیئے۔ ایم آئی 24 ہیلی کاپٹر گائوں پہ بمباری کرتے اور پھر ٹینکوں میں سوار اجنبی فوج گلیوں میں داخل ہو جاتی۔ ہزاروں برس پرانے دیہات انہوں نے برباد کر دیئے۔ 80 لاکھ انسانوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ملک کے اندر اور باہر۔ جنرل محمد ضیاء الحق‘ اس فوجی حکمران سے بیزاری بجا۔ اس کی غلطیاں بھی اپنی جگہ۔ تو یہ فرمائیے کہ کیا وہ اپنی سرحد پر آ بیٹھنے والے قاتلوں کا خیرمقدم کرتے؟ ایک محافظ ڈاکوئوں کا خیرمقدم کیسے کر سکتا ہے؟ تب آپ سوشلزم کے قصیدہ خواں اور امریکہ کے مخالف تھے۔ سوشلزم مرا تو آپ امریکہ پہ نثار ہونے لگے۔ دامن دراز کیے‘ این جی اوز بنائے‘ اب آپ اس سے بھیک مانگتے ہیں۔ دانشوروں کا ارشاد اب یہ ہے کہ روس کو گرم پانیوں کی کبھی آرزو نہ تھی۔ جس بنیاد پر اس کی مزاحمت ہم نے کی‘ وہی غلط تھی۔ سبحان اللہ تین سو برس تک مورخ کیا جھک مارتے رہے‘ ساڑھے تین سو برس تک ماسکو کی سلطنت وسعت پذیر رہی تاآنکہ پاکستان سے اس کا سامنا ہوا۔ عفریت زخمی ہوا اور سات آزاد اسلامی مملکتیں پھر سے آزاد ہوئیں۔ آزادی کے کیسے علمبردار ہیں کہ دوسروں کی غلامی بلکہ قتلِ عام پر خورسند ہوتے ہیں۔ کیا وہ واقعی آزاد ہیں؟ کیا وہ زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں؟ کیا کسی حکمران کی مذمت کے لیے یہ لازم ہے کہ اس کے ہر اقدام کی مخالفت کی جائے؟ اگر وہ کہے کہ خدا ایک ہے تو کیا ہم تین خدائوں کا علم بلند کریں؟
27 دسمبر 1979ء کو روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی تھی اور وہ بھی 27 دسمبر کا دن تھا‘ جب ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ٹھیک اسی مقام پر‘ جہاں لیاقت علی خان پر گولی چلی تھی۔ ان کا قاتل افغانستان سے آیا تھا اور خاتون لیڈر کا قاتل اس سے ملحق قبائلی پٹی سے۔ دونوں کے قاتل ہلاک کر دیئے گئے۔ دوسرا شریک حیات کے دورِ اقتدار میں۔ ہاں! مگر ہم بھول نہیں سکتے کہ جب راہ چلتی ہزاروں گاڑیوں اور ریلوے سٹیشنوں کو نذر آتش کیا گیا۔ جب ملک توڑنے کا اعلان کیا گیا تو ''پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ اسی نے لگایا تھا۔ سچی بات تو سچی بات ہے‘ خواہ دیوار پر لکھی ہو۔ خواہ حریف نے لکھی ہو‘ جس سے آپ نفرت کرتے ہوں۔
یہ امجد اسلام امجد کی ایک نظم کے چند مصرعے ہیں:
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
ایک دوسری نظم یہ ہے:
ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
وہ کب بچھڑا نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر
جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائی اور میرا دسمبر
پشاور کے معصوم طالب علم ہی نہیں‘ کابل سے بنگال تک کے سب شہید‘ دل کے طاق میں انجمن آرا ہوتے ہیں۔ دل سے پھر خیال یہ کہتا ہے کہ حکمرانوں اور عالموں کو وارث نصیب ہوں یا نہ ہوں‘ شہیدوں کے وارث ضرور ہوتے ہیں۔ سچا لہو کبھی رائیگاں نہیں ہوتا۔ آخر کو لہکتا ہوا استعارہ بن جاتا ہے۔
پھر ایک دن چراغ جلتے ہیں‘ پھر ایک دن گل کھلتے ہیں۔ مارچ کا مہینہ آئے گا اور گلاب کے پھول دہک اٹھیں گے۔ بے شک الم کے ساتھ نوید اور نوید کے ساتھ الم ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔