پشاور میں خونریزی کے ایک ہفتہ بعد اہم سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والی سوچ بچار نے جہادی جتھوں کو لرز ا کر رکھ دیا جبکہ قوم اس تاریخی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے یقین سے سرشار ہے کہ اب ان عفریتوں کا خاتمہ قریب ہے۔ کیا مجھے اس پر حیرت ہونی چاہیے؟ نہیں ، میں حیران نہیںہوں۔ میں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ہماری سیاسی قیادت میں اُس جرأت اور عزم کی کمی ہے جو دہشت گردی کے خطرے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے چاہیے۔ مجھے خوشی ہوتی اگر آج میں یہ کہتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لینے پر مجبور ہوتا کہ معاف کیجئے، میں غلطی پر تھا۔ تاہم مجھے، اور مجھ جیسے افراد کو غلط ثابت کرنے کی بجائے ہمارے رہنماآسان راستے کا انتخاب کرتے ہوئے سجدے میں گر گئے حالانکہ یہ وقت ِ قیام تھا۔ جب حالات اور تاریخ کا یہ موڑ خارا شگافی کا تقاضا کررہا تھا تو اُنھوں نے شیشہ سازی شروع کردی۔
جس دوران فوج قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں پر کاری ضرب لگارہی ہے، سیاست دان اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمارے نظام ِعدل کی خامیوں کی شہادت ملتی ہے۔ جب ہم اس سیاسی اتفاقِ رائے پر خوشی سے شادیانے بجاتے ہوئے اسے ایک تاریخی پیش رفت قرار دے رہے ہیں، ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جہادی نظریات بہت حد تک ہمارے معاشرے اور بعض اداروں میں رچ بس چکے ہیں۔ اب ان کے مخالف بیانیے کو پروان چڑھانا اور اس ذہنیت کا خاتمہ کرنا آسان نہ ہوگا اور ۔۔۔ابھی تو ہم نے اس سمت ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔۔۔ نہ ہی کسی کو توقع کرنا چاہیے کہ ایسا راتوں رات ہوپائے گا۔
اگرچہ اب وزیراعظم نواز شریف پاکستان سے دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پُرعزم دکھائی دیتے ہیں لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب اُنھوں نے پندرھویں ترمیم کے ذریعے ''امیر المومنین ‘‘بننے کی کوشش کی تھی۔اور یہ تو چند ماہ پہلے کی بات ہے جب اُنھوں نے طالبان سے بے مقصد بات چیت شروع کرکے ان کے خلاف فوجی ایکشن میں تاخیر کردی۔ پنجاب کے ایک سابق وزیرکے مبینہ طور پر کچھ انتہا پسندوں سے دوستانہ تعلقات رہے؛ تاہم سب سے بڑھ کر ، میں خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے سکتے میں آ جاتا اگر وزیر اعظم اور عمران خان اپنے طالبان نواز تصورات سے رجوع کرلیتے۔
میرے شکوک و شبہات کی وجہ ہمارا اب تک کا ٹریک ریکارڈ ہے۔۔۔ ہمارے سیاست دان آزادی کے کم و بیش ایک عشرے کے بعد کسی ایک آئین پر متفق ہوئے تھے۔ اس دوران جنرلوں اور سرکاری افسران نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط جمالی تھی۔ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کی طرف سے اُس وقت ڈیڈلاک پیدا کردیا گیا جب اُنھوں نے ایک سیدھے سادے عالمی اصول ۔۔۔ ''ایک فرد، ایک ووٹ‘‘۔۔۔ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ ایسا کرتے ہوئے اُنہیں مشرقی حصے کی طرف انتقال ِ اقتدار کرنا پڑنا تھا۔ اس کے بعد اگر لینڈ ریفارمز کی بات کرلیں۔۔۔ بھارت نے اس ضمن میں فوری طور پر پیش رفت کرتے ہوئے بڑی بڑی جاگیروں کو توڑ کر زمین کو تقسیم کردیالیکن ہم پس و پیش سے کام لیتے رہے۔ چونکہ جاگیرداروں نے سیاست کی طاقت حاصل کرلی تھی، اس لیے اُنھوں نے اُن جاگیروں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن مزاحمت کی جو اُنہیں وفاداری کے صلے میں برطانوی راج کی طرف سے عطا ہوئی تھیں۔ جب بھٹو صاحب نے ستر کی دہائی میں لینڈ ریفارمز کرنے کی کوشش کی تو بہت سے جاگیردار خاندانوں نے جعلی معاہدوں کے ذریعے اپنی زمین پر قبضہ برقرار رکھا اور صرف وہی زمین دی جو کم پیداواری تھی۔ ضیا کے دور میں یہ ریفارمز بھی مذہبی بنیادوں پرمنسوخ کردی گئیں۔ حسبِ معمول نام نہاد مولویوں نے امیر جاگیرداروں کا ساتھ دیتے ہوئے زمین کی تقسیم رکوا دی۔
اس کے بعد ہمارے ٹیکس کے نظام پر نظر دوڑائیں۔۔۔ کم و بیش سات دہائیوں کے بعد بھی ہم دولت مند جاگیرداروںسے ٹیکس وصول کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس افسران کے ''تعاون‘‘ سے کاروباری افراد باقاعدگی سے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ کئی برسوں سے کی جانے والی کھوکھلی بیان بازی کے بعد ابھی تک ویلیوایڈڈ ٹیکس حاصل کرنا اتناہی مشکل ہے جتنا سرکنڈے سے شکر حاصل کرنا؛ چنانچہ ہماری جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح دنیا میں پست ترین ہے۔ یہ تضاد ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے حالانکہ ہمارے ہاں ہر وقت احتساب کا شور مچا رہتا ہے۔جب بھی احتساب کاذکر آئے تو سب سے پہلے ذہن میں آصف زرداری کانام آتا ہے، لیکن کیا اُن کے پیش رو یا جانشین معصوم اور زمزم میں دھلے ہوئے ہیں؟ درحقیقت کوئی حکومت بھی نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ لگاتار کئی حکومتوں نے نام نہاد ''زیرِ گردشی قرضے‘‘ کو بڑھنے دیا، چنانچہ عدم ادائیگی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار کا نظام بری طرح متاثر ہونے لگا۔ اہم کاروباری افراد اور نجی کمپنیوں کے علاوہ طاقتور سرکاری ادارے بھی بجلی کا بل ادا نہیں کرتے۔ نادہندگان کی فہرست میں بہت بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ جنرل مشرف کے ہاتھوں میں سیاسی اور فوجی، تمام طاقت کا ارتکاز تھا لیکن وہ بھی کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو آگے بڑھا سکے اور نہ ہی اُنھوں نے انتہا پسندوں کو لگام ڈالنے کی کوئی کوشش کی حالانکہ وہ معتدل سوچ رکھنے والے لبرل انسان ہیں جن کا رول ماڈل ترکی کا سیکولر نظام تھااور اتاترک اُن کے ہیرو تھے۔
چنانچہ جب ہم ناکامیوں کی اس طویل فہرست پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ سوچ پیدا ہونا لازمی ہے کہ کیا اب ہمارا سیاسی طبقہ مذہبی انتہا پسندوں اور نفرت کی تبلیغ کرنے والوں کے خلاف کچھ کرپائے گا؟کیا وہ پاکستان سے جہادی نظریات کی بیخ کنی میں کامیاب ہو جائیں گے؟حقیقت یہ ہے کہ جب تک سیاسی طبقے کے درمیان اتفاق ِ رائے مستقل بنیادوں پر پیدا نہیںہوگا کہ یہ انتہا پسند وطن کے دشمن ہیں، کچھ بھی تبدیل نہیںہوگا۔ سیاسی طبقے نے طے کرنا ہے کہ وہ اس مسئلے سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھائیں گے اور کوئی سیاسی جماعت ان کی حمایت نہیں کرے گی۔ یہ ایک طویل جنگ ہے کیونکہ اس کا بڑا حصہ نظریاتی ہے۔ جو دہشت گردفوجی کارروائی میں ہلاک ہو رہے ہیں، ان کی جگہ اور لے لیں گے ، اس لیے صرف فوجی ایکشن بھی اس کا حل نہیں ہے۔ اس سے ان کا انفرسٹرکچر صرف عارضی طور پر تباہ ہوگا،لیکن اگر معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی موجود رہے گی، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کو ملنے والی فنڈنگ کے ذرائع اور تنگ نظری پر مبنی نظریات کی ترویج روکی جائے۔ تاہم ان میںسے کوئی بھی موجودہ حکومت کے ایجنڈے میں شامل نہیں۔ اگر اس معاشرے میںمثبت تبدیلی کے کوئی آثار ہویدا ہیں تو ان کا اظہار سماجی کارکن جبران ناصر کی صورت ہے۔ اگر عام لوگ تاریکی کی طاقتوں، جن کی نمائندگی لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کرتے ہیں، کو چیلنج کرنے کی جرات کرنے لگیں تو سمجھ لیں کہ تبدیلی کا سفر شروع ہوگیا ہے۔