دلاور علی آذر کے دوسرے مجموعے مآخذ کے مسودے سے گزرتے ہوئے جدید اردو غزل پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا ہے۔ شعر کہتے تو بہت سے اور بھی ہیں لیکن شعر کو شعر بنانا کسی کسی کو ہی آتا ہے اور یہ شاعر مجھے چند ہی دوسروں کے ساتھ اگلی صف میں کھڑا نظر آتا ہے۔ یہ غزلیں تازگی اور تاثیر کا ایک ایسا خوشگوار جھونکا ہے ،جس نے اردگرد کی ساری فضا کو معطر کردیا ہے۔ شاعر کا تعلق حسن ابدال سے ہے جبکہ یہ غزلیں ہمیں ٹیکسلا سے اظہر محمود نے بھجوائی ہیں ،جن کا کہنا ہے کہ دلاور کسی رسالے کو کوئی چیز نہیں بھیجتے۔ بہت لاپروائی ہے ان کے یہاں۔ پہلی کتاب بھی ہم نے اکٹھی کر کے چھاپ دی تھی۔ اب دوسری کی دفعہ بھی وہ نہ تو اپنی چیزیں کہیں سنبھالتے ہیں نہ کہیں چھپتے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے بہت فکر رہتی ہے... ملک کے دوسرے شہروں کو بھی حسن ابدال کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس اعلیٰ و عمدہ شاعری پر میری دلی مبارک باد۔ اس کے کچھ اشعار دیکھیے:
نہ جانے کون طرف لے کے چل پڑے آذرؔ
دھوئیں سے مجھ کو نمودار کرنے والی ہوا
کسی کسی کو ہے تربیتِ سُخن سازی
کوئی کوئی ہے جو تازہ لکیر کھینچتا ہے
میں ڈوبتا ہوں، اُدھر وہ طلوع ہوتا ہے
کہ دونوں مختلف اوقات کے ستارے ہیں
مجھ کو مٹی سے علاقہ ہے، اسے پانی سے
گویا مل سکتے ہیں دونوں بڑی آسانی سے
بھاگ نکلوں گا تری دنیا کے شور و غل سے‘ اور
اپنے اندر ہی کہیں آباد ہو جائوں گا میں
کوئی شعلہ سا لپکتا سرِشام
اور دن بھر کا دھواں لے جاتا
پیڑ تو سبز ہو نہیں سکتے
کم سے کم لفظ کو ہرا کر دوں
دن نکل آیا غنیمت جانو
وقت پر کون نکلتا ہے یہاں
اِدھر زمین اُدھر آسماں دھرا ہوا تھا
عجیب حال تھا‘ دونوں کے درمیان تھا میں
بات کرتا ہے یہاں تان کے سینہ یہ چراغ
اِن منڈیروں پہ ہوائوں کی نہیں چلتی ہے
میری مٹی پہ مرے گھر کی بنا رکھی گئی
میرے سائے سے اٹھائی گئی دیوار مری
اس بات پہ موقوف ہے صدیوں کی مسافت
اس آنکھ میں ٹھہروں کہ برابر سے گزر جائوں
مٹی کی طرح تو بھی مری حد سے نکل جائے
پانی کی طرح میں بھی ترے سر سے گزر جائوں
دم بھر کو رُکوں قریۂ خاشاک میں آذرؔ
پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس پر سے گزر جائوں
میں اسی خواب‘ اسی باغ میں ٹھہرا ہوا ہوں
وقت مل جائے تو پھر لوٹ کے آنا مرے دوست
رُکے جو سانس گرہ ڈالتی ہے سانسوں میں
ہوا چلے تو بدن پر نشان پڑتا ہے
میں جھیلتا ہوں سرِ چشم سب نشیب و فراز
کہیں زمین‘ کہیں آسمان پڑتا ہے
اپنی تعظیم لازمی ہے مجھے
دفن ہیں میرے رفتگاں مجھ میں
کس جگہ پھول کھلنے والا ہے
میں بتاتا ہوں آیئے مرے ساتھ
آخرش ہار مان لی میں نے
کس قدر جھوٹ بولتا صاحب
تاکہ خوشبو نہ کوئی اور چُرا لے جائے
میرے اندر ہی لگائے گئے باغات مرے
سُن کر اِن سنگیت بھرے جھرنوں کی بہتی آوازیں
میرے اندر کی خاموشی باہر آنے والی ہے
تمام لوگ بھی کشتی سمیت غرق ہوئے
کسے بتائیں کہ اسباب ہی کچھ ایسا تھا
یہ خستگی نہیں ہے‘ وابستگی ہے آذرؔ
تصویر اُبھر رہی ہے دیوار پر ہماری
دوسرے عشق کا آزار اُٹھانے والا
میں ہوں دیوار پہ دیوار اٹھانے والا
مٹی کی یاد دل سے بھلانا پڑے گی کیا
اس دشت میں بھی خاک اُڑانا پڑے گی کیا
خزاں کے نام سے دہکے ہوئے خیال کا رنگ
گُلوں کو شاخ پہ تصویر کرنے والی ہوا
یقین مانیے میں تیغ اٹھانے والا تھا
اگر یہ پھول مرے ہاتھ میں نہیں آتے
پہلے تو خدوخال بنائے سرِ قرطاس
پھر اپنے خدوخال کے اندر سے اٹھا میں
یہیں کہیں مرا لشکر پڑائو ڈالے گا
یہیں کہیں ہے گرفتار کرنے والی ہوا
ظالم کو حکمران بنائیں گے خود عوام
اب آ کے کھل رہا ہے مثالی حدیث ہے
سائے میں جسم دُھل گئے، آسیب جل گئے
اندر کا خوف مر گیا باہر کے خوف سے
آج کا مقطع
اس طرح بادلوں کی چھتیں چھائی تھیں، ظفرؔ
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا