تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-12-2014

ادھورا خطاب

وزیر اعظم نے متفقہ نکات پڑھ کر سنا دیئے، ہم نے سن لیے۔ اُن کی اپنی تقریر مگر کہاں ہے؟ ان کاکہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کریں گے۔ بطور وزیر اعظم یہ انہی کو زیبا ہے مگر قیادت تو ایک وژن کی متقاضی ہے۔ وہ وژن کہاں ہے؟
ایک مدت کے بعد وزیر اعظم قوم سے ہم کلام ہوئے۔ اگست سے یہ ملک اضطراب کی لپیٹ میں ہے۔ اس سارے عرصے میں حکومت کا کوئی مرتب بیانیہ سامنے نہیں آ سکا۔ 16 دسمبرکو ایک نئی افتاد آن پڑی جس نے ایک اور موقع فراہم کیا کہ وزیر اعظم قوم کی رہنمائی کریں۔ اسے ایک وژن دیں کہ اب بڑی اور بنیادی تبدیلیوں کے بغیر، محض انتظامی اقدامات کے سہارے یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ضرورت تھی کہ وزیر اعظم قوم کو ایک نئے بیانیے سے آشنا کرتے۔ قوم میں وحدت پیدا کرنے کایہ ایک سنہری موقع تھا۔ میرا احساس تھا کہ وزیر اعظم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قوم کو اپنی قیادت میں متحد کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ اپنے خطاب میں ایک ہمہ جہتی وژن دیں گے اور عوام جانیں گے کہ سیاسی حکومت ہی اصلی قائد ہے اور فوج سمیت سب ادارے اس کی قیادت میں، قوم کو ایک نیا مستقبل دے رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو دیگر سیاسی قیادت گہنا جاتی ، افق پر صرف وہی دکھائی دیتے۔ ایسا مگر نہ ہو سکا۔ قوم نے دیکھا کہ ایک تھکا ہوا چہرہ، چند انتظامی فیصلے پڑھ کر سنا رہا ہے۔ میں انتظار میں رہا کہ اب وزیر اعظم کی اپنی تقریرکا آغازہوگا، یہاں تک کہ قومی ترانے نے مجھے انتظار کی اس مشقت سے نجات دلا دی۔
اگر محض مشترکہ فیصلوں کا ابلاغ ہی مقصود تھا تو یہ کام وزیر داخلہ بھی کر سکتے تھے۔ پرویز رشید صاحب یہ ذمہ داری نبھا سکتے تھے کہ ان کے منصب کا تقاضا بھی تھا۔ لیڈر سے توقعات مختلف ہوتی ہیں ، وہ لوگوں کو جہاں اعتماد دیتا ہے وہاں یہ بھی واضح کرتا ہے کہ اس کے اہداف کیا ہیں اور حکمت عملی کیا ہے۔ اس کے سامنے آنے والے ماہ و سال بے نقاب ہوتے ہیں جو عام نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اس کی نظر صرف انتظامی امور تک محدود نہیں ہوتی ، وہ ریاست اور سماج کو ان کی ہمہ گیریت کے ساتھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ جب قوم سے مخاطب ہوتا ہے تو لوگ سانس روک کر سنتے ہیں کہ ایک لیڈر خطاب کر رہا ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر کے دوران میں سانس تو ہمارے بھی رکے رہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیوں؟
ایک دوسرا پہلو دیکھیے۔ یہ بیس نکات اجتماعی سیاسی دانش کا مظہر ہیں۔ اس میں اسلام پسند شامل ہیں اور سیکولر بھی۔ عمران خان ہیں اور پیپلز پارٹی بھی۔ گویا مستقبل میں حکومت جس کے پاس آئی، ریاست انہی نکات پہ چلے گی۔ یہ بات مجھے مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر قومی قیادت کی بصیرت کا یہ عالم ہے تو پھر ریاست کے لیے دعاگو ہی ہونا چاہیے۔ کیا اہل سیاست ہمیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیںکہ ہم ملک کے محفوظ مستقبل کے لیے کسی دوسرے کی طرف دیکھیں؟ کیا ان کے فکری سوتے خشک ہو چکے؟
گزشتہ پینتیس سال میںاس ملک اور سماج کے خدو خال یکسر تبدیل ہو چکے۔ اگر ماضی کا پاکستان آج آئینے کے سامنے کھڑا ہو تو خود کو پہچاننے سے انکارکر دے۔ آج کا تعلیمی ادارہ وہ نہیں جو ماضی میںتھا۔ آج کی مسجد ایک نئے روپ کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ اس کا سماجی کردار بدل چکا۔ ذرائع ابلاغ وہ نہیں ہیں جو پہلے تھے۔ فنون لطیفہ کی صورت بدل چکی۔ میں ایک مثال سے اس مقدمے کو واضح کرتا ہوں۔ ان پینتیس برسوں میں مذہب کے نام پر اربوں روپے کی معیشت وجود میں آ چکی۔ میں نے پی ٹی وی کے اپنے پروگرام '' ارتقا ‘‘ میں مذہبی معیشت (Economy of Religion) کو موضوع بنایا اور دوگھنٹے کی بحث میں یہ بتایا کہ آج کس طرح ملک میں معیشت کا ایک نظام قائم ہو چکا ہے جس کا انحصار مذہب پر ہے۔ اس سے مفاداتی گروہ (Interest groups) وجود میںآچکے۔ جیسے ہی کوئی اس معیشت پر ہاتھ ڈالتا ہے، یہ گروہ متحرک ہوتے اور ایسی کوششوں کے خلاف مزاحم ہوتے ہیں۔ اگر آج کوئی مذہب کے سماجی کردار اور اس سے وابستہ ان معاشی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ خیال کرتا ہے کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن سے مسئلہ حل ہو جائے گا تو اس سادگی کا صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔ مذہب کی یہ معیشت کیسے وجود میں آئی؟پینتیس سال پہلے قومی سطح پر ایک بیانیے کی تبدیلی سے ۔ اگر آج قومی سطح پرکوئی نیا بیانیہ سامنے نہیں آئے گا تو سماجی و ریاستی اداروںکے کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
بیس نکات میںجوکچھ کہاگیا، یہ جملے ماضی میں بارہا سنے جا چکے۔ مثال کے طور پر یہ اعلان ہواکہ کالعدم تنظیموں کو نئے نام سے کام کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ جملہ کسی پاکستانی کے لیے نیا نہیں۔ میں پورے اطمینان سے یہ بتا سکتا ہوں کہ اس پر عملدرآمد کا کوئی امکان نہیں۔ میں ابھی ایسی ہی ایک تنظیم کی مسجد میں نماز ِ جمعہ پڑھ کے آیا ہوں۔ اسی طرح مدارس کی بات توکی گئی لیکن جدید تعلیمی اداروںکو نظر انداز کر دیا گیا جہاں طالبان کا بیانیہ زیادہ مقبول ہے۔ ان اداروں میں آج تعلیم ہے نہ تہذیب۔ پھرکیا دینی مدارس کا مسئلہ صرف رجسٹریشن ہے؟ اصلاً یہ تعلیمی ماحول اور نصاب کا معاملہ ہے جوگہرے غور وفکرکا متقاضی ہے۔ بنیادی سوال ایک ہے: کیا مذہبی تعلیم اورکلچر کے بارے میں ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر تیار ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب ان نکات میں موجود نہیں۔ پھر نظام تعلیم کی دوئی ایک بڑا مسئلہ ہے جس نے قومی انتشارکو فروغ دیا ہے۔ ان نکات میں ان کا بھی ذکر نہیں۔
ان نکات سے بالکل واضح ہے کہ ملک کو درپیش سب سے بڑے چیلنج کے حوالے سے حکومت نے کوئی ہوم ورک کیا نہ سیاسی جماعتوں نے۔ اگر یہ مسئلہ کسی گاؤں کی پنچایت کے سامنے رکھا جاتا تو میں پوری ذمہ داری سے یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ بھی ایسے ہی بیس نکات مرتب کر دیتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شعور عامہ (Common sense) کو استعمال کرتے ہوئے، وہ شاید اس سے بہتر ایک دستاویز ہمارے سامنے رکھ دیتی۔
سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا اصل فیصلہ کہاں ہوا؟ میں یہ لکھ چکا کہ یہ وہیں ہوا جہاں ہو سکتا تھا۔ میرے علم کی حد تک وزیر اعظم کی سوچ بھی یہی ہے۔ یہ بات قوم کے لیے خوش آئند ہے۔ سیاسی قیادت اورفوج میں ہم آہنگی نیک شگون ہے ؛ تاہم ضرورت ہے کہ وزیر اعظم اسے ایک قومی بیانیے میں بدل دیں۔ یہ فوج کا کام نہیں ہے۔ اس نے اپنے دائرہ کار میں بنیادی اصلاح کی ہے۔ یہ بڑا قدم ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے ایک سیاسی و سماجی تبدیلی سے ہم آہنگ کر دیا جائے۔ یہ کام قومی قیادت کا ہے۔ یہ کام وزیراعظم کا ہے۔ بیس نکات انہوں نے پڑھ کر سنا دیئے۔ مجھے اب بھی ان کی تقریرکا انتظار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved