اسلم ڈار پاکستان فلم انڈسٹری کے عروج کی ایک یادگار تھے۔ 24 دسمبر دوپہر ڈیڑھ بجے ان کا انتقال ہوا اور اگلے روز انہیں ڈیڑھ بجے ہی شہر سے دور واقع ہائوسنگ سوسائٹی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ بحیثیت قوم ہم جن مشکلات کا شکار ہیں‘ اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلم ڈار جیسے بڑے فلمی ہدایتکار کی موت کی خبر دہشت گردوں اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی شہ سرخیوں میں دفن ہو کر رہ گئی۔ اتنے بڑے فنی مقام کا حامل فنکار بھارت سمیت دنیا کے کسی اور ملک میں مرتا تو صدر، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سمیت حکومت کے دیگر نمائندے انہیں خراج تحسین پیش کرتے‘ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہ ہو سکا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کی ہیڈلائنز اور نیوز بلیٹنز میں ان کی فنکارانہ اور نجی زندگی کا احاطہ کیا جاتا‘ لیکن دہشت گردوں کے ہاتھوں ایک ہونے والی ''زندہ قوم‘‘ اور ہمارے باخبر میڈیا نے ایک آدھ چھوٹے موٹے Ticker (ٹی وی سکرین کے باٹم پر نمودار ہونی والی مختصر خبر) سے ہی یہ ''صحافتی فرض کفایہ‘‘ ادا کر دیا۔
اسلم ڈار کی موت سے لگ بھگ 30 گھنٹے قبل میں نے انہیں ٹیلی فون کیا اور ''دنیا نیوز‘‘ کے سلطان راہی سپیشل پروگرام ''یاد کرتی ہے دنیا‘‘ کے لئے انٹرویو دینے کی درخواست کی۔ ڈار صاحب سے میری یہ آخری بات چیت 22 دسمبر کی رات 8:30 پر ہوئی۔ اس رات ان کی آواز کی روایتی کھنک ماند پڑ چکی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں‘ اس کے باوجود وہ انٹرویو کے لئے حاضر ہیں۔ 23 دسمبر کی دوپہر میں اپنے ایک معاون کا انتظار کرتا رہا کہ وہ کیمرہ اور دیگر آلات کا اہتمام کرکے مجھے اطلاع کرے‘ لیکن افسوس وہ کہیں مصروف رہا اور میں ڈار صاحب کے ہاں نہ جا سکا اور اگلے روز 24 دسمبر کی دوپہر وہ انتقال کرگئے۔ فرشتہ اجل 80 سالہ اسلم ڈار کو ملک عدم لے جانے کے لئے ان کی جانب بڑھ رہا تھا اور جواں دل اسلم ڈار زندگی کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن ان کی روح قفس خاکی سے پرواز کر گئی۔ فراز نے کہا تھا:
جب روح کسی بوجھ سے تھک جاتی ہے
احساس کی لَو اور بھڑک جاتی ہے
میں بڑھتا ہوں زندگی کی جانب
زنجیر سی پائوں میں چھنک جاتی ہے
ہماری سوسائٹی میں جہاں بہت سی روایات دم توڑ گئی ہیں‘ وہاں ہیروازم اور سٹارڈم بھی ناپید ہو گیا ہے۔ اسلم ڈار کا فنی مقام جاننے کے لئے آپ یوں سمجھئے کہ پاکستان فلم انڈسٹری نے اپنا یش چوپڑہ اور اپنا الفرڈ ہچکاک کھو دیا ہے۔ بالی وڈ اور ہالی وڈ سے وابستہ ہنر مندوں نے ایک یوٹوپین ورلڈ میں اپنی صلاحیتیوں کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ اسلم ڈار اور ہمارے دوسرے ہنر مندوں کی زندگیوں میں تو فلمی میڈیم کے حرام اور حلال ہونے کا بنیادی مسئلہ ہی حل نہیں ہو پایا۔ اس کے باوجود اسلم ڈار نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار میں گزارا۔ وہ پاکستان میں میرے فیورٹ ڈائریکٹر تھے‘ یہ بات میں انہیں اس خیال سے ہمیشہ جتلاتا رہتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں‘ جہاں فلم جیسے انتہائی اہم میڈیم کو بری طرح نظر انداز کیا گیا‘ وہاں اسلم ڈار جیسے ہنرمندوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے۔
زندگی میں ڈار صاحب سے بڑی سنگتیں اور صحبتیں رہیں۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کے والد ایس ایم ڈار ( بڑے ڈار صاحب) بی آر چوپڑہ کے ساتھی تھے۔ آنجہانی بھارتی ہدایتکار اور نامور فلم میکر بی آر چوپڑہ کا تعلق لاہور کے چوبرجی کوارٹرز سے تھا۔ آپ یش چوپڑہ کے بڑے بھائی اور استاد بھی تھے۔ بی آر چوپڑہ کی مشہور فلموں میں دلیپ کمار کی ''نیا دور‘‘ اور امیتابھ بچن کی ''بابل‘‘ جیسی درجنوں فلمیں شامل ہیں۔ 40ء کی دہائی کے آغاز میں بی آر چوپڑہ اور ایس ایم ڈار لاہور رائل پارک سے شوبز کا ایک انگریزی میگزین شائع کیا کرتے تھے‘ جو متحدہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری کی سرگرمیوں کی کوریج کیا کرتا تھا۔ ایس ایم ڈار‘ اے آر کاردار اور انور کمال پاشا کے فلم ہائوسز میں پروڈکشن کنٹرولر بھی رہے۔ بعدازاں انہوں نے ''سلطنت‘‘ ''سردار‘‘ اور ''دلا بھٹی‘‘ جیسی فلموں کی ہدایات بھی دیں۔ 40ء کی دہائی کے وسط میں متحدہ ہندوستان کا سینما پرتھوی راج، نور جہاں، دیو آنند، نرگس اور دلیپ کمار جیسے حسین چہروں سے سج چکا تھا۔ جواں سال اسلم ڈار پر بھی یہ جادو اثر کر گیا۔ اسلم ڈار بنیادی طور پر سینماٹوگرافر تھے۔ بعدازاں وہ اپنے زمانے کے نامور ہدایتکار جعفر شاہ بخاری کے اسسٹنٹ ہوئے۔ ایک وقت تھا جب اسلم ڈار، ریاض بخاری اور شہرہ آفاق پنجابی فلم ''ملنگی‘‘ فیم ہدایتکار رشید اختر تینوں جعفر شاہ بخاری کے معاونین میں شامل تھے۔
''دارا‘‘ اسلم ڈار کی Debut فلم تھی‘ جس میں ڈار صاحب نے ایک باڈی بلڈر نصراللہ بٹ کو دیسی ٹارزن کا روپ دے کر ہیرو کاسٹ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا‘ جب بھارت میں دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند جبکہ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں سنتوش، درپن، اکمل اور لالہ سدھیر کا طوطی بولتا تھا۔ ایسے ماحول میں ڈار صاحب نے رانی اور عالیہ جیسی حسین اداکارائوں کے ساتھ نصراللہ بٹ جیسے پہلوان کو ہیرو کاسٹ کرکے سپر ہٹ فلم بنا ڈالی۔ وہ حقیقی معنوں میں کنگ میکر تھے۔
ڈار صاحب کا کمال تھا کہ وہ اپنے تلاش کئے ہوئے راستے پر بھی دوبارہ کبھی قدم نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ''بشیرا‘‘ کے بعد انہوں نے ''دل لگی‘‘ بنائی۔ ''بشیرا‘‘ 21 جولائی 1972ء کو نمائش پذیر ہوئی اور باکس آفس پر بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس سے قبل سلطان راہی کو دوسرے درجے کا اداکار سمجھا جاتا تھا۔ سلطان راہی عموماً مرکزی ولن کے حواری کا رول کیا کرتے تھے۔ سلطان راہی سے قبل اس کردار کیلئے ساون کو کاسٹ کیا جا رہا تھا جو ''خان چاچا‘‘ کے ڈائمنڈ جوبلی کے باعث اونچی ہوائوں میں اڑ رہے تھے۔ اسلم ڈار نے سلطان راہی کو ساون سے دس گنا کم معاوضے پر کاسٹ کرکے بشیرا جیسی سپر ہٹ فلم بنائی اور مستند ہدایتکار سمجھے جانے لگے۔ بعد ازاں انہوں نے ''دل لگی‘‘ جیسی سوشل ڈرامہ فلم بنائی اور ثابت کیا کہ وہ ٹائپ ڈائریکٹر نہیں بلکہ ورسٹائل ہیں۔''پہلی نظر‘‘ ''بڑے میاں دیوانے‘‘ ''بابل صدقے تیرے‘‘ ''باغی شیر‘‘ ''عشق نچاوے گلی گلی‘‘ ''پیار کرن توں نئیں ڈردے‘‘ اور ''وعدہ ‘‘ ان کی بہترین فلمیں تھیں۔
فلمی بزرگ بتاتے ہیں کہ ا جنبی لوگ اسلم ڈار کو ان کی شکل و صورت اور وضع قطع سے فرنگی (انگریز) سمجھا کرتے تھے۔ لال سرخ رنگ اور بھورے بالوں والے ڈار صاحب ایک دبنگ شخصیت تھے۔ 90ء کی دہائی کے آغاز میں ایک فلمی وفد ایس ایس پی لاہور ذوالفقار چیمہ کے دفتر گیا۔ وفد میں اداکار یوسف خان، خواجہ پرویز، اقبال کاشمیری، سید نور، اداکار عابد علی اور اسلم ڈار شامل تھے۔ یوسف خان نے گفتگو کا آغاز فلمی انداز سے کیا‘ مگر ذوالفقار چیمہ کے فرض شناس فلمی ٹائپ امیج اور افسرانہ لب و لہجے کے سامنے فوراً ہی سرنڈر کر دیا۔ اسلم ڈار کو ایک پولیس افسر کے سامنے اپنا موقف بیان کرتے سن کر میں نے انہیں ایک بہادر اور صاف گو شخص بھی پایا۔
اسلم ڈار نے اداکارہ دردانہ رحمان سے دوسری شادی کی۔ بعض فلم والوں کا کہنا ہے کہ دردانہ رحمان سے تعلق نے ان کی فنکارانہ پرواز کو محدود کر دیا تھا‘ لیکن انہوں نے دردانہ رحمان کو ہیروئن کاسٹ کر کے بھی ''عشق نچاوے گلی گلی‘‘ ''باغی شیر‘‘ اور ''انوکھا داج‘‘ جیسی کامیاب فلمیں بنائیں۔ دردانہ رحمان اور اسلم ڈار میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ جو لوگ ایک عرصہ شادی کے رشتہ میں بندھے رہنے کے بعد علیحدہ ہوتے ہیں‘ عموماً ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں لیکن دردانہ کے دل میں آج بھی ڈار صاحب کے لئے محبت اور انتہائی احترام پایا جاتا ہے‘ جو ان کے اعلیٰ پائے کا انسان ہونے کا ثبوت ہے۔
ڈار صاحب اس عظیم الشان فلم انڈسٹری کی نشانی تھے‘ جب وطن عزیز میں سالانہ لگ بھگ 120 فلمیں بنا کرتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب مشرقی پاکستان بھی فلمی سرکٹ کا حصہ ہوا کرتا تھا اور پاکستان کی فلمیں کراچی سے لے کر ڈھاکا اور چٹاگانگ تک نمائش پذیر ہوا کرتی تھیں۔ ڈار صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری لیکن افسوس جب وہ دنیا سے گئے تو وہ فلم انڈسٹری برباد ہو چکی ہے‘ جسے انہوں نے اپنی تمام زندگی وقف کئے رکھی۔ اسلم ڈار صاحب تو اس جہان چلے گئے جہاں انہیں کسی قسم کے حکومتی اعزاز اور میڈیا کوریج کی ہرگز ضرورت نہیں‘ لیکن ان کے انتقال کے بعد چھائی رہنے والی خاموشی سے یہ واضح ہو گیا کہ یہاں فن اور فنکار کی قدر کرنے والے کتنے لوگ اب باقی رہ گئے ہیں۔